Inquilab Logo

جنوں نے آپؐ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا اور ایمان لے آئے

Updated: April 09, 2024, 1:04 PM IST | Dr. Tasneem Ahmed | Mumbai

نبوت کے دسویں برس کے اواخر میں آپؐ نے اہلِ مکہ کی طرف سے فوری طور پر مزید کسی تعاون کا قرینہ نہ پاکر طائف کا رخ کیا کہ شاید وہ بات کو سمجھیں، لیکن اُن کے سرداروں نے آپؐ کو سخت تضحیک کا نشانہ بنایا۔

Before the Ascension, the Prophet (PBUH) led the Prophets in the same Al-Aqsa Mosque. Photo: INN
سفر معراج سے قبل رسولؐ اللہ نے اسی مسجد اقصیٰ میں انبیاء کی امامت فرمائی تھی۔ تصویر : آئی این این

نبوت کے دسویں برس کے اواخر میں آپؐ نے اہلِ مکہ کی طرف سے فوری طور پر مزید کسی تعاون کا قرینہ نہ پاکر طائف کا رخ کیا کہ شاید وہ بات کو سمجھیں، لیکن اُن کے سرداروں نے آپؐ کو سخت تضحیک کا نشانہ بنایا۔ واپسی کے سفر میں مکہ کی سرحد، نخلہ کے مقام پر جنوں نے آپؐ کو قرآن مجید تلاوت کرتے ہوئے سُنا اور ایمان لے آئے۔ اس بات کا تذکرہ سورئہ احقاف میں اِن الفاظ میں وارد ہوا: ’’جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے، تاکہ قرآن سنیں، جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انھوں نے آپس میں کہا: خاموش ہو جاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے۔ ‘‘ (احقاف:۲۹) یہ بات آپؐ کے لیے اطمینان کا ذریعہ بنی۔ 
بنو ہاشم کے سردار، ابو لہب نے اپنے بھتیجے کو بنو ہاشم سے خارج کرتے ہوئے اُس کی پشت پناہی سے ہاتھ اُٹھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی کی جانب سے پناہ مل جانے پر اُس کی حفاظت میں آپؐ مکہ میں داخل ہو سکے۔ چند ہی ہفتوں بعد حج کا موسم آ گیا اور حسب ِ معمول آپؐ باہر سے آنے والے حاجیوں تک توحید کی دعوت پہنچانے میں سرگرم ہوگئے۔ اس سرگرمی کےدوران یثرب سے آئے ہوئے چھ افراد کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کی تو سیّدنا اسعدبن زرارہ کی تحریک پر یہ تمام لوگ ایمان لے آئے۔ یہ واقعہ یثرب کے مدینۃ النبی بننے کا نقطۂ آغاز تھا۔ 
ادھر اسلام اپنے غلبے کی ایک اڑان لے رہا تھا، مگر قریش اپنی بڑائی کے زعم میں اس بات سے غافل تھے کہ زمین اُن پر تنگ ہوتی جارہی ہے۔ اسلام حبشہ، یمن اور یثرب ہی میں نہیں، شہر ِ مکہ کے تمام اطراف میں اپنی جڑیں پکڑنا شروع کر چکا تھا۔ یہ نبوت کا گیارہواں برس تھا۔ آپؐ کی قوم کے مشرکینِ قریش قرآن مجید کو اللہ کی کتاب تسلیم نہ کرنے پر اَڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے معجزبیان کے کلام کو انسانی کلام کہہ رہے تھے۔ چنانچہ اب قریش پر اتمامِ حجت ہو رہا تھا۔ سورئہ یونس اسی اتمام حجت کو بیان کرنے والی سورہ ہے۔ اس میں قرآن کی حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے:
’’اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کی جاسکے، بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آسمانی کتب آچکی ہیں اُن کی تصدیق اور لوح محفوظ میں ثبت و رقم الکتاب کی تفصیل ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے جہانوں کے پالنہار کی جانب سے ہے۔ ‘‘(یونس :۳۷)
بارہویں برس میں اہلِ مکہ پر جاری اتمامِ حجت کے دوران، جب بیعت عقبہ اولیٰ ہو چکی اور یثرب میں تعلیم کیلئے حضرت مصعب بن عمیرؓ وہاں تشریف لے جا چکے اور اہلِ یثرب کی مختلف جماعتوں کے لئے نقیب مقرر کئے جا چکے، تو اہلِ مکہ کی ضد اور ہٹ دھرمی پر آزردہ اہلِ ایمان کوسورئہ رعد میں یہ بتایا گیا کہ ناممکنات کو ممکن بنا دینا اللہ کیلئے ناممکن نہیں۔ کیا اہلِ ایمان نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں کہ وہ لوگوں کی چاہت کے بغیر، زبردستی، ایمان اُن کے سینوں میں اُنڈیل دیا جائے۔ ایمان اُن ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے، جو اُس کی طلب میں صادق ہوتے ہیں، فرمایا گیا: ’’اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا، جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟‘‘ (الرعد :۳۱) اس بارہویں برس میں نازل ہونے والی سورۃ الحجر میں سات آیات والی سورۂ فاتحہ کی عظمت کے بارے میں فرمایا گیا:’’ہم نے آپ کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور آپ کو قرآنِ عظیم عطا کیا ہے۔ ‘‘ (الحجر : ۸۷)
علمائے امت کا اس نکتے پر اتفاق ہے کہ یہاں سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ سے مرادسورۂ فاتحہ ہی ہے جیساکہ بخاری و موطا، امام مالک کی احادیث بیان کرتی ہیں اور تمام مفسرین بیان کرتے ہیں۔ اسی لئے سورہ فاتحہ کو سبع مثانی کہا جاتا ہے۔ 
سیرت النبیؐ کے مطالعے میں یہ بارہواں برس اس لحاظ سے بھی اہم اور بابرکت ہے کہ اس سال سرکار دو عالم محمد رسول اللہ ﷺکو معراج عطا ہوئی۔ معراج کا تذکرہ سورئہ بنی اسرائیل میں وارد ہے، جیسا کہ لوگ جانتے ہیں کہ معراج میں پنج وقتہ نماز کا حکم ملا، جس کا تذکرہ یوں وارد ہوا : ’’نماز قائم کیجئے (اہتمامِ وقت کے ساتھ خشوع و خضوع سے معاشرہ میں نماز کی ادائیگی کا نظام) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) اور فجر کے قرآن (بااہتمام طویل قرأت)کا بھی التزام کیجئے کیونکہ (فرشتوں کی گواہی/ شہادت سے) قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل : ۷۸)
دورِ نبوت کا تیرہواں برس مکہ میں دورِ نبوت کا آخری برس ہے۔ آپؐ ماہِ صفر کی آخری تاریخوں میں یثرب کی جانب ہجرت کیلئے غارِ ثور میں قیام پزیر ہوئے۔ تین روز یہاں قیام کرکے یہیں ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کے آگے روانہ ہوئے۔ تیرہویں برس میں ہجرت سے کچھ قبل سورئہ اعراف اور سورئہ نحل کی دو آیات نازل ہوئیں جن میں قرآن کو توجہ سے سننے اور تلاوت سے قبل تعوذ کے کلمات ادا کرنے کی ہدایت کی گئی: ’’جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔ ‘‘ (اعراف :۲۰۴) اور ’’سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں ) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔ ‘‘ (النحل :۹۸)۔ 
ان تمام باتوں کا علم ہونے کے بعد ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ کلام پاک سے اس طرح استفادہ کریں جیسا کہ اُس کا حق ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK