Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُس جھولے سے اِس جھولے تک کا سفر اور جھولے پر رونے دھونے کاقصہ

Updated: July 10, 2023, 5:56 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

اس دن گاؤں کے کلہاڑے میں چہل پہل تھی،گزشتہ کالموں میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ گاؤں میں کلہاڑ یا کلہاڑا محلے کے اس حصے کو کہتے ہیں

When the trampoline reached the village from the city, the children enjoyed it and started calling it a swing.
ٹریمپولین شہر سے گاؤں پہنچا تو بچوں نے اس کا لطف لیا اوراسے بھی جھولا ہی کہنے لگے۔

اس دن گاؤں کے کلہاڑے میں چہل پہل تھی،گزشتہ کالموں میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ گاؤں میں کلہاڑ یا کلہاڑا محلے کے اس حصے کو کہتے ہیں جہاں گنے کی پیرائی ہوتی ہے اور کڑھاؤ میں گڑ پکایا جاتا ہے،کسی زمانے میں اس جگہ کا بھی یہی استعمال  تھا، اب  یہ صرف نام کا کلہاڑا ہے۔ یہاں آخری مرتبہ گڑکب پکایا گیا؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اب یہاں ’کھیا ‘یعنی گنے کارس نکلنے کے بعد بچاکھچا حصہ بھی پھیلایانہیں جاتا ہے جو چند سال پہلے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اکثر گھروں میں صبح کی چائے اسی سے بنتی تھی۔ رسوئی گیس آیا، ’کھیا ‘کہیں کھو گئی۔
 آج یہ کلہاڑامحلے کے گھروں کے سامنے کا چھوٹا سا میدان ہے۔ عید کے بعد اس  میدان میں بچے ہی بچے تھے، بہت دنوں بعد اتنے بچے جمع ہوئے تھے۔ اکا دکا نوجوان بھی نظر آرہے تھے۔ دراصل اس دن جھولا والا آیا تھا۔جھولے کےپیچھے کی پیلی دیوار طرح طرح کے پوسٹروں سے لدی تھی، یہ پوسٹر کئی سال پہلے پنچایتی الیکشن میں لگائے گئے تھے، اب تک باقی ہیں، ان میں سے کچھ پورے پورے  اورکچھ آدھے ادھورے رہ گئے ہیں۔اس دیوار سے متصل ایک خالی بیٹھکا(بیٹھک) ہے، اس دن اس میں ایک سائیکل کھڑی تھی، پرانے طرز کی ہیرو سائیکل، اس کے ٹھیک اوپر دیوار میں روایتی طاق بنا ہوا ہے، یہ طاق بھی خالی تھا۔
 کچھ ہی دیر پہلے بارش تھمی تھی۔ زمین گیلی تھی، نیم کے نئے نویلے درخت سے  بارش کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ ایک کونے میں اینٹ گارے (مٹی)  کی دیوار کے سایے میں بکری بیٹھی تھی چپ  چاپ۔ وہ ایک طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے۔کل تک اس کے آس پاس کئی بکرے بندھے ہوئے تھے، قربانی ہوئی، کلہاڑا بکروں سےخالی ہوگیا۔ شاید یہ بکری ان کی کمی محسوس کررہی تھی۔ 
  قریب میں درخت کی لکڑیوں کے موٹے موٹے ’بوٹے‘ پڑے تھے، بارش نہیں ہوتی تو اس پر دوچار بچے یا نوجوان بیٹھے رہتے، گاؤں دیہات والے یہی کرتے ہیں، بار بار کرسی اور چارپائی نکالنے کی زحمت نہیں کرتے، جہاں موقع ملتا ہے، گھڑی دو گھڑی بیٹھ جاتے ہیں،کبھی گھنٹے دو گھنٹے ایسے ہی گنوا دیتے ہیں۔ چھوٹی چہار دیواری پر بھی بیٹھ جاتے ہیں، پلیا کے چبوترے پر بھی اپنی محفل سجا لیتے ہیں۔خیر بارش سے بوٹے بھیگے تھے، اس لئے کوئی بیٹھا نہیں تھا،سب کھڑے تھے۔ صرف ایک نوجوان تھوڑے فاصلے پر کرسی لئے بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا، اس کی گود میں ایک بھی بچہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پرانے دور میں ٹیسٹ کرکٹ میچ ہورہا ہے اور اسٹیڈیم میں ایک ہی ’درشک‘ آیاہے۔
 اتنے سارے مناظر کے درمیان جھولا چلنے لگا۔یہ قدیم اور روایتی جھولے سے مختلف تھا، سچ پوچھئے تو یہ جھولا تھا نہیں، کچھ اور تھا ،’ ٹریمپولین‘ تھا لیکن گاؤں کے بچے اسے جھولا کہنے لگے،حالانکہ بچے اس پر جھول نہیں کودرہے تھے، نیچے سختہ (اسفنج)لگاتھا، اوپر جال لگا ہوا تھا۔ دو دن کے دوران دس روپے ادا کرکے بہت سے بچوں نے اپنی عید کو خاص بنایا، بھرپور لطف لیا۔ دس روپے میں تین منٹ اچھلنے کودنے کاموقع ملتا تھا۔ بتاتے ہیں کہ روایتی  اوپر سے نیچے جانے والے جھولے کی طرح اس میں سوار ہونے والے بچے زیادہ روتے نہیں تھے۔ اکادکا بچے ہی  ڈرے سہمے اور اسے روکنے کی التجا کی مگر دس روپے ادا کرنے والےنہیں مانتے تھے، تین منٹ مکمل ہونے کے بعد ہی رکنے کیلئے کہتے تھے،کسی بچے کے بہت زیادہ رونے بلکہ رونے سے زیادہ شور مچانے اور گلا پھاڑنے پر ہتھیار ڈال دیتے تھے۔
 ایک بچی اپنے کم سن بھائی کے ساتھ اس کھیل کا لطف لینے گئی تھی۔ اپنی زندگی میں پہلی بار وہ ایسے کسی کھیل کا حصہ بنی تھی، اسے لطف آیا مگر اس کا چھوٹا بھائی آنسوؤں سے تربتر چہرے کے ساتھ گھر لوٹا۔بچی نے گھر آتے ہی ہاتھ نچانچاکر توتلی زبان میں اپنی ماں کوبتایا:’’ بڑا مزہ آیا امی! بتاؤں...میں کودی خوب خوب... بابو ڈر گیا تھا، کہہ رہا تھا کہ روک دو، میں گر جاؤں گا، جھولے والے نےروکا ہی نہیں،بہت خراب تھا نا امی،رکا تو بابو بہت رو رہا تھا۔‘‘بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا،جب عیدکے دوسرے دن اسی کلہاڑے میں لوہے کا اوپر سے نیچے جانے والا جھولا آتا تھا، جھولا جھلانے والا دھوتی کرتے میں پہنتا تھا، پانچ دس منٹ کا مشکل سے ایک روپیہ لیتا تھا، معاوضے میں غلہ بھی خوشی خوشی قبول کرتا تھا۔ اس وقت جھولے پر سوار ہونے والے کم ہی بچے رونے یا رونی صورت بنانے سے بچ پاتے تھے۔ اکثر بچے دو تین بار اوپر نیچے ہونے کے بعد  شورمچانے لگتے تھے۔ہوا میں پوری طاقت سے چلاتے تھے:’’ ارے امی رے امی...مورے چکر آوے تھے، اتار دا گر جیہوں۔‘‘(ارے امی رے امی... مجھے چکر آرہا ہے، اتاردو گرجاؤں گا/گرجاؤں گی۔)
 اس رونے دھونے  پر جھولا رکتا ۔ اس کے بعد ہی ان بچوں کی جان میں جان آتی۔ وہ گھر کی طرف بھاگتے، کیونکہ تمام بچے ان کے پیچھے پڑجاتے چڑانےلگتے،اس کی نقل اتارتے۔ کچھ بچے جھولا جھولتے وقت بری طرح ڈر جاتے مگر وہ اسےچھپائے رہتے اور جھولا رکنے کےبعد کہتے کہ بہت مزہ آیا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK