مختلف مصلحتیں اپنی طرف کھینچتی ہیں اور انسان کے دل کا جھکائو کبھی ایک طرف ہوتا ہے، اور کبھی دوسری طرف ، ایسی صورت میں شریعت نے جو احکام دیئے ہیں ان کی روشنی میں ترجیحات طے کرنا ضروری ہے۔
ملک کے کسی بھی کونے میں انتخابات ہوں ، حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ہر جگہ اور ہر موقع پر مسلمانوں کو سمجھداری اور ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ تصویر: آئی این این
اگر انسان کو کو ئی ایسی بات درپیش ہو جس میں صرف خیر ہو ، برائی کا پہلو نہ ہو ، اور اسے قبو ل کرنے اور نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہوتو اس وقت فیصلہ کرنا چند اں دشوار نہیں۔ عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص اس کو قبول کر ے گا، اور اگر کوئی بات خالصتاً شر اور برائی کی ہوتو اس صورت میں بھی فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ ہر سمجھدار آدمی اس سے گریز اور اجتناب کا راستہ اختیار کرے گا لیکن انسان کی قوتِ انتخاب کا امتحان اس وقت ہوتا ہے، جب اس کے سامنے دو اچھی چیزیں رکھی گئی ہوں، یہاں اس کو طے کرنا ہے کہ بہتر کون ہے اور بہترین کون ہے، کون خوب ہے اورکون خو ب تر ہے؟ اس سے بھی مشکل مر حلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے، جب دو برائیاں انسان کے سا منے ہوں، اور بیک وقت ان دونوں سے نہیں بچا جاسکتا ہو۔ انسان ایک برائی کو قبول کرنے پر مجبور ہو، اس وقت انسان کی قو ت فیصلہ ، فہم و شعور اور مصلحت شناسی کی اصل آزمائش ہوتی ہے ۔
مختلف مصلحتیں اپنی طرف کھینچتی ہیں اور انسان کے دل کا جھکائو کبھی ایک طرف ہوتا ہے، اور کبھی دوسری طرف، معاشی ترقی کے اعتبار سے ایک صورت بہتر معلوم ہوتی ہے، اور جان ومال کی حفاظت کے نقطۂ نظر سے دوسری صورت قابل ترجیح محسوس ہوتی ہے، ایک راستہ اختیار کرنے میں وقتی مصالح کی بہتری نظر آتی ہے لیکن مال وانجام کے اعتبار سے اس سے غیرمعمولی نقصا ن کا اندیشہ ہوتاہے، اور دوسرے راستہ میں انجام کے اعتبار سے نسبتاً اُمید کی کرن نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں ترجیحات قائم کرنا اور نفع و نقصان کی ترازو میں تول کر یہ بات متعین کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کون سی صورت کم نقصان کی ہے؟ شریعت نے ہمیں غور وفکر کا یہی طریقہ سکھایا ہے ۔ حضرت عمار بن یاسر ؓکو کلمہ ٔ کفر کہنے پر مجبو ر کیا گیا، ان کے سامنے دوراستے تھے، ایک صورت یہ تھی کہ کلمہ ٔ کفر کہہ کر جان بچا لیتے، دوسری صورت یہ تھی کہ جان دے دیتے اور کلمہ ٔ کفر سے اپنی زبان کی حفاظت کرتے۔ انہوں نے اجتہاد سے کام لیا کہ اگر جان چلی جائے گی تواگلے مر حلوں میں رسول اللہ ﷺ کی نصرت و اعانت کرنے سے محروم ہو جائینگے، اسلام کی دعوت واشاعت کا جو کام آئندہ کر سکتے ہیں، وہ نہیں کرپا ئیںگے، اوراگر کلمۂ کفر مجبوری کی حالت میں زبان سے نکال دیا تو چوںکہ ایمان کااصل تعلق قلب سے ہے نہ کہ زبان سے؛ اس لئے،ان شاء اللہ، پھر بھی دولت ایمان سے محروم نہیں ہونگے؛ چنانچہ حضرت عمارؓنے جان بچانے کوترجیح دی؛ لیکن ان کا دل ایمان کے نور سے معمور تھا؛ اس لئے بے چین ہو گئے۔ روتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنی داستان درد سنائی۔ رسول اللہ ﷺنے دریافت فرمایا کہ تمہارادل تو ایمان پر مطمئن ہے ؟ حضر ت عمار نے عرض کیا: بے شک، تب آپ ﷺ نے فرمایا: پھر کوئی حرج نہیں۔ ایسے سنگین مواقع کیلئے رخصت ہے، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :
’’جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے۔‘‘ (سورہ النحل: ۱۰۶)
اسی طرح اگر کوئی شخص بھوک پیاس کی وجہ سے ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوکہ اگر کھائے اور پئے نہیںتو اس کی جان چلی جائے، شریعت نے ایسے مضطرو مجبور شخص کے لئے جان بچا نے کی حدتک خنزیر جیسے حرام جانور یا مردار کا گوشت کھانے اورشراب کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ حرام شے کا کھانا اور پینا ایک بر ائی اور دینی ضرر ہے، زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، جس کی حتی المقدور حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، اس کو کھو دینا بھی ایک ضررہے، دینوی اعتبار سے تو یہ ضرر ہے ہی، دینی اعتبار سے بھی یہ ضرر ہے۔ ایک انسان سے اس کے بوڑھے والدین، یتیم بھا ئی بہنوں، کسب ِمعاش کی صلاحیت سے محروم بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا حق متعلق ہے، نیز وہ اللہ کی توفیق سے بہت ساری دینی خدمت بھی انجام دے سکتا ہے لیکن انسان زندگی سے محروم ہو جائے تو متعلقین کی ضرور یات اور دین کی بہت ساری خدمات بظاہر پو ری نہیں ہو پائیں گی اسلئے اگر چہ دین کی اہمیت اس وقت ایک مسلمان کی جان ومال سے بڑھ جاتی ہے، جب جان ومال کی قربانی کے بغیر دین کا بچا ئو ممکن نہ ہو مگر جب دین کا تحفظ اس پر موقوف نہ ہو تو عارضی طور پر بقد ر ضرورت شریعت کے کسی عمومی حکم کے مقابلہ انسانی زندگی کی حفاظت کو ترجیح دی گئی ہے ۔
احکام شریعت میں اس کی بڑی اہمیت ہے؛ اسی لئے شریعت کے ماہرین نے مختلف قواعد مقرر کئے ہیں، جو ترجیحات کے سلسلے میں اُمت کی رہنمائی کرتے ہیں ان میںسے بعض کا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا :
یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام ۔
عمو می اور اجتماعی نقصان کو دُور کرنے کے لئے شخصی اور انفرادی نقصان کو گوارا کیا جائے گا ۔
إذا تعارض المفسدتان روعی أعظمھا ضررا بارتکاب أخفھما ۔
جب دو برائیوں کا ٹکراؤ ہو تو کم تر برائی کا ارتکاب کرکے بڑی برائی کو دُور کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
درء المفاسد أولی من جلب المصالح ۔
مفاسد کو دُور کرنا مصلحتوں کے حصول سے بہتر ہے ۔
ان قواعد کو مختلف الفاظ اور تعبیرات میں فقہاء نے بیان کیا ہے، ان کا تعلق صرف فقہی جزئیات ہی سے نہیں ہے؛ بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں پیش آنے والے احوال سے بھی ہے، خاص کر انتخابات میں اس بات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے کہ مسلمان شعور سے کام لیں، تائید و مخالفت میں ترجیحات قائم کریں، مفید اور زیادہ مفید، اور اس سے بڑھ کر کم نقصان دہ اور زیادہ نقصان دہ کے درمیان خط امتیاز کھینچیں اور پوری فراست ایمانی کے ساتھ الیکشن کے سلسلہ میں فیصلہ کریں۔ اگر اس وقت مسلمانوں نے سمجھداری سے کام نہیں لیا تو ایسے نقصان کا اندیشہ ہے کہ شاید دُور تک اور دیر تک اس کی تلافی ممکن نہ ہو ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ برسراقتدار جماعت یا اتحاد کا ایجنڈا بالکل واضح ہے، اس نے یکساں سول کوڈ لانے کے عزم و ارادہ کو مخفی نہیں رکھا ہے ؛ بلکہ یہ اس کے منشور کا حصہ ہے، اقلیتی کمیشن یا اقلیتی بہبود کی وزارت ایک ایسا کڑوا گھونٹ ہے جس کو یہ بطیب خاطر حلق سے اُتارنے کو تیار نہیں ہیں، شمال شرقی ریاستوں کو جو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، اس پر تو اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کشمیر کے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے وہی رعایت اس ریاست کے لئے اسے قبول نہیں ہے ، وہ چاہتی ہے کہ اس ملک میں اکثریتی فرقہ کا اقتدار ہو، اقلیتیں اکثریت کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور سب کچھ بھول کر دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنے پر آمادہ ہوجائیں۔
ان حالات میں مسلمانوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار ہوگیا ہے کہ وہ کس پارٹی کو اپنا ووٹ دیں؟ اگرچہ اب ووٹروں کے لئے ایک اختیار یہ بھی رکھ دیا گیا ہے کہ وہ ’’کوئی نہیں‘‘ (نوٹا) پر اپنی مہر لگاسکتے ہیں؛ لیکن اس اختیار سے فائدہ اُٹھانا اقلیت کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا اور اس کا فائدہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہوگا؛ اس لئے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ ووٹ دینے کے سلسلہ میں اپنی ترجیحات قائم کریں، انہیں صرف یہی نہیں دیکھنا ہے کہ کون بہتر ہے اور کون زیادہ بہتر یا کون بد تر ہے اور کون زیادہ بدتر؟ بلکہ ان کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کون فرقہ پرست اُمیدوار کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور کون اُمیدوار اگرچہ اچھا ہے اور اگرچہ اس کی پارٹی کا منشور بھی نسبتاً اچھا ہے؛ لیکن اس میں فرقہ پرست اُمیدوار کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں ہے، ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اگر مسلمان اپنے ووٹ کا استعمال کریںگے، تبھی وہ فرقہ پرست طاقتوں کو بام اقتدار پر چڑھنے سے روک سکیں گے ۔
ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال نہ صرف ہماری سماجی ذمہ داری ہے؛ بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے، نیز ووٹ ایک ہتھیار بھی ہے جس سے جمہوری طریقہ پر انقلاب لایا جاتا ہے، ناپسندیدہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا جاسکتا ہے، اور اچھے لوگوں کو حکومت سونپی جاسکتی ہے؛ اس لئے اس کا استعمال ضرور کرنا چاہئے اور سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے، پہلے اچھی طرح حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے، کسی بھی پارٹی کے جیتنے اور ہارنے کے عواقب پر غور کرنا چاہئے، ماضی کے تجربات کو سامنے رکھنا چاہئے اور مستقبل کے اندیشوں اور توقعات کے درمیان موازنہ کرنا چاہئے۔
یہ بات بھی ذہن سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ اس وقت امریکہ اور اسرائیل ہندوستان میں اپنے سیاسی عزائم رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ اقتدار میں آئیں جن کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہو، وہ ان کی پالیسیوں کے مطابق فیصلے کریں، یہاں تک کہ داخلہ پالیسی، اقتصادی نظام، دفاعی سودے اور خارجہ پالیسی کے معاملہ میں بھی ان کی خواہش ہے کہ ترقی پذیر ممالک ان کی قائم کی ہوئی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں ۔
یہ ساری ترجیحات شریعت کے اس حکم پر مبنی ہے کہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو وہ برائی کو روکنے اور ظلم کا پنجہ تھامنے کی کوشش کرے، اس وقت ملک سیاسی اعتبار سے ایک دو راہے پر ہے ، اگر مسلمان جذبات کی رو میں بہہ گئے ، ہوش پر جوش کا غلبہ ہو گیا ، اورفیصلہ کرنے میں غلطی ہوگئی تو ناقابل نقصان کے اندیشے کو خارج نہیں کیا جاسکتا، بقول شاعر : لمحہ گزر گیا تو سمجھئےصدی گئی۔