ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں یوم القدس بہ حمایت مظلومین منانے کا مقصد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور مسلم حکمرانوں کو خواب ِ غفلت سے بیدار کرنا ہے، تاکہ مسلمانوں کے سینے پر لگے گھاؤ کا علاج کیا جاسکے۔ دُنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرکے ایمانی و دینی فریضے کو اجاگر کیا جائے۔
اہلِ فلسطین کو انہی کی زمین سے بے دخل کردیا گیا، اور یہودیوں نے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ آج فلسطین محض چند سو کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جیسا کہ آخری تصویر(۲۰۱۰ء) میں دیکھا جاسکتا ہے
مسجد اقصیٰ، القدس شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید، احادیث نبوی ،ؐ اقوال اہل بیت اطہارؓ و صحابہ کرامؓ کی روشنی میں اس کی اہمیت مسلّم ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے، وہ (ذات) پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ ٔ کعبہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔
(سورۂ بنی اسرائیل)
اس آیت میں نبی کریم ﷺ کے واقعہ ٔ معراج کا ذکر کرتے ہوئے بیت المقدس کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے گرد اللہ نے برکتیں رکھی ہیں، وہ زمین کس قدر عظمت و رفعت کی مالک ہے ،جس کی برکتوں کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔ مسجد اقصیٰ کے گرد وپیش یعنی ارض فلسطین کو مادی اور روحانی دونوں ہی طرح کی نعمتوں سے بطور خاص نوازا گیا ہے، چنانچہ اس کی مادی اور ظاہری خیرات و برکات کی عظمت ِ شان کا حال یہ ہے کہ قدیم صحیفوں میں اسے شہد اور دودھ کی سرزمین کہا گیا ہے جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ اس کی روحانی خیرات و برکات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے انبیائے کرامؑ کا مولد و مدفن ہونے کا شرف و اعزاز اس سر زمین کو حاصل ہوا ہے وہ پوری روئے زمین پر اس کے سوا اور کسی بھی قطعہ ٔ ارضی کو حاصل نہیں ہوا۔
احادیث نبوی میں بھی مسجد اقصیٰ کا ذکر اور فضیلت تواتر سے ملتی ہے۔ زوجہ ٔ رسول ﷺ ام ّالمؤمنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے حج یا عمرہ کی نیت سے مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام تک کا احرام باندھا تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ایک اور حدیث کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کیلئے جنت واجب ہوگئی۔ (سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر ۱۷۳۷)۔
ہارون بن سعید، ابن وہب، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سفر کیا جائے تین مسجدوں کی طرف، کعبہ کی مسجد اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی اورمسجد اقصیٰ۔ (صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر ۸۹۳)
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہےکہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! دُنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (مکہ کی) مسجد حرام، میں نے عرض کیا، پھر کون سی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (بیت المقدس کی) مسجداقصیٰ۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر ۶۰۱)۔
خانہ کعبہ کو روئے زمین پر خدا کے پہلا گھر ہونے کا شرف حاصل ہے جبکہ بیت المقدس اس کے بعد حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا جسے بیت الحرام سے ۴۰؍ منزل دور کہا گیا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد مسلمان مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے، پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانۂ کعبہ ہوگیا۔ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ دُنیا میں چار جنتی قصر پائے جاتے ہیں، جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔ (سفینۃ البحار)
آج یہ امر باعث ِ شرم ہے کہ مسلمانوں کا قبلۂ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ ہے، مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔ سامراج کے زیر سرپرستی جنگ ِعظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کردینے سے شروع ہونے والی سازش دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت پایہ تکمیل تک پہنچی جب ۱۹۴۸ء میں سینۂ مسلم میں خنجر کی طرح اسرائیل کو پیوست کردیا گیا۔ مسلمان، منصوبہ بندی کے بغیر اور ہتھیاروں سے لیس ہوئے بغیر کی جانے والی جھڑپوں اور ہلکے پھلکے احتجاج سے صیہونیت کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔
مسلمانوں کے جرم ضعیفی اور انا پرستی کی وجہ سے اسرائیل نے انہیں ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں تکلیف دہ اور عبرتناک شکست سے دوچار کردیا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ تو ایک طرف رہ گیا، یہاں لینے کے دینے پڑ گئے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، مغربی کنارہ (ویسٹ بینک)، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ یروشلم کی حدود کو بڑھا دیا گیا اور مشرقی یروشلم بیت المقدس کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا نتیجہ اس حد تک برآمد ہو گیاکہ مغربی کنارے و غزہ کا محدود علاقہ آزاد تو ہوا لیکن یہ دونوں علاقے ایک محصور ریاست کی شکل اختیار کرگئے جنہیں جب چاہے اسرائیل روند ڈالتا ہے۔ آج غزہ ایک قیدخانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج بھی قبلہ ٔ اول پکار پکار کر مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن افسوس کہ مسلم ملکوں کے جو حکمراں ہیں اُن کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ اقتدارکا دوام ان کی پہلی و آخری ترجیح ہے۔ القدس کی آزادی کیلئے جو رسمی آواز پہلے اٹھا کرتی تھی، آج وہ بھی رسم بن چکی ہے۔اس وقت صیہونی و استعماری سازشوں کے طفیل اور تنگ نظری کی وجہ سے جو حالات پید اہوئے ہیں، اس سے فلسطین کی آزادی اور القدس کی بازیابی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے کیونکہ بعض عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ بعض ممالک کے خفیہ تعلقات ہیں۔ آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ ہرمسلم ملک دوسرے میں مداخلت کررہا ہے۔ جب تک مسلمان خود اپنے اعمال درست نہیں کرینگے، یہود کے خلا ف ان کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرے گا، نہ اس کا کوئی ایسا فائدہ ہو گا جسے قابل قدر کہا جائے۔
ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں یوم القدس بہ حمایت مظلومین منانے کا مقصد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور مسلم حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کے سینے پر لگے گھاؤ کا علاج کیا جاسکے اور دُنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرکے ایمانی و دینی فریضے کو اجاگر کیا جاسکے۔
اتحاد و یکجہتی ہی وہ ہتھیار ہے، جس کے ذریعے مسلمانان عالم قبلۂ اول کو یہود کے پنجے سے چھڑا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اول عالم اسلام کی وحدت و یک جہتی کیلئے فریاد کررہا ہے ایسے میں سرخروئی اور سرافرازی انہی کا مقدر بنے گی جو اس پکار پر لبیک کہیں گے۔