Inquilab Logo Happiest Places to Work

حشرونشر کی سرزمین ، مظلومین غزہ اور ہماری ذمہ داریاں

Updated: May 21, 2021, 4:39 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani

مسلمانانِ ہند قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کو حقیقت پسند بنائیں اور انہیں حقیقی صورتِ حال کا ادراک کرنے میں مدد دیں ، منصف مزاج برادرانِ وطن کو ساتھ لے کر حکومت ہند سے خواہش کریں کہ وہ اپنی ناوابستہ پالیسی پر قائم رہے ۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے، یہیں سے معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم ِبالا کا سفر کرایا گیا، پیغمبر اسلام ﷺنے نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی، اس لئے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام اور کتنے ہی انبیاء کرام کی حیات طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے۔ شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اوراس مسجد کی خاص اہمیت ہے ۔ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس کی بابت دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے ، یہاں آؤ اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے۔ ان صحابیؓ نے استفسار کیا : اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو، جو وہاں چراغ میں کام آئے۔(ابن ماجہ ، حدیث نمبر:۱۰۴۵) حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: جب حضرت سلیمان علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی سے دعاء فرمائی، اس میں ایک دعا ء ایسی حکومت کی تھی جو آپؑ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دعاء یہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لئے آئے، تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تین دعاؤں میں سے دو تو مقبول ہو ہی گئیں اور مجھے امید ہے کہ یہ تیسری دعاء جو مغفرت سے متعلق تھی، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۴۰۶) اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کیلئے سفر کرنا درست ہے ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۴۰۸-۱۴۰۷) اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے ۔
 اسلام سے پہلے یہ شہر بار بار تخت و تاراج کیا جاتا رہا، خاص کر چھٹی صدی قبل مسیح بابل کے حکمراں بخت نصر نے اس شہر اور اس کے مقدس مقامات کی جس طرح اینٹ سے اینٹ بجائی اور ایک لاکھ یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا، وہ تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے، یہودی جو اپنے آ پ کو اس شہر کا اصل وارث سمجھتے ہیں،  صرف۷۳؍ سال ہی اس شہر پر برسر اقتدار رہے،  حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہد میں۶۳۶ء میں بیت المقدس کا علاقہ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔  مسلمان چاہتے تھے کہ شہر میں خوں ریزی نہ ہو اور صلح کی صورت نکل آئے،  عیسائیوں نے یہ شرط لگائی کہ خلیفہ المسلمین خود آکر دستاویز پر دستخط کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے قبول فرما لیا اور مدینہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنا کر رجب ۱۶ھ میں بیت المقدس تشریف لائے، بیت المقدس سے پہلے ہی’ جابیہ‘ نامی مقام پر اسلامی لشکر نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کااستقبال کیا، وہیں عیسائی رہنما بھی آگئے اور معاہدۂ صلح کی تحریر عمل میں آئی، اس معاہدہ کے تحت عیسائی باشندوں کی جان ومال ، مذہبی مقامات، حضرت مسیح کی مورتیوں وغیرہ کی حفاظت کی ضمانت دی گئی؛ بلکہ عیسائی یہودیوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کی اس خواہش کو بھی قبول فرمایا جس کے بعد یہودیوں کی الگ آبادی بنائی گئی ۔  اس کے بعد سے یہاں برابر مسلمان حکمراں رہے، یہاں تک کہ گیارہویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگیں شروع ہوئیں اور شعبان ۴۹۲ھ میں  عیسائی دوبارہ فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ انہوں نے شہر میں ایسا قتل عام مچایا کہ بچے، بوڑھے ، جوان اور مرد و عورت کو بلاامتیاز تہ تیغ کیا گیا، شہر میں لاشوں کے انبار لگ گئے، خود مغربی مؤرخین نے اس خوں آشامی کا اعتراف کیا ہے۔  کہا جاتا ہے کہ صرف ایک دن میں شہر اور اس کے مضافات میں ستر ہزارافراد شہید کئے گئے۔ یہ سفاکانہ رویہ ٹھیک اس کے برعکس تھا، جو حضرت عمررضی اللہ عنہ اور مسلمان فاتحین نے عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ سقوط بیت المقدس کے اس واقعہ نے پورے عالم اسلام کو بے چین اور بے سکون کر کے رکھ دیا  یہاں تک کہ۱۱۶۹ء میں سلطان نورالدین زنگی جیسے خدا ترس بادشاہ کے ایک کمانڈر مجاہد اسلام سلطان صلاح الدین ایوبیؒ مصرکے تخت اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے اور شام کے علاقے فتح کر تے ہوئے۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو فتح کیا۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے احسان فراموش عیسائیوں کے ساتھ ایسی رحم دلی کا سلوک کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال کم ملے گی؛ چنانچہ خود عیسائی دنیا (جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا تھی) پر اس کا گہرا اثر پڑا ، آخر ۹۱؍سال کے بعد قبۃ الصخرہ پر لگائی گئی سنہری صلیب اتاری گئی اور اس کی جگہ ہلال نصب کیا گیا، جب ہی سے’ہلال‘ مسلم ملکوں کا شعار سمجھا جانے لگا ، یہ۹۱؍ سال مسلمانوں کیلئے ایسا تکلیف دہ اور غم انگیز عرصہ تھا کہ پورے عالم اسلام کی آنکھیں بے سکون اور دل بے قرار تھے ۔ 
 خلافت عثمانیہ ترکی کے دور میں ہی یہودیوں نے سازشیں بننی شروع کردی تھیں؛ لیکن خلیفہ نے کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں دی۔ بالآخر مغربی سازشوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا اور۱۹۴۸ء میں عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا۔ یہ زخم بڑھتا رہا، یہاں تک کہ۱۹۶۷ء میں مسلمانوں کا قبلۂ اول ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا۔  میرے خیال میں پہلی صلیبی جنگ کی شکست اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ سب سے بڑا حادثہ اور سب سے اندوہناک سانحہ تھا، کہ اگر اس واقعہ پر آسمان خون کے آنسو بہاتا اور زمین کا سینہ شق ہوجاتا تو بھی باعث تعجب نہ تھا؛ لیکن آہ! ہم مسلمانوں کی بے حسی اور بے شعوری کہ ہماری نسلوں نے تو اس واقعہ کو بھی اپنے صفحۂ دل سے مٹا دیا ہے اور مسلم حکومتوں بالخصوص عرب حکمرانوں نے اس مقدس امانت کو سونے کے طشت میں سجاکر صہیونیوں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اگر مسلم عوام کی دینی حمیت آڑے نہ آتی اور حماس کے مجاہدین نہ اٹھ کھڑے ہوتے تو شاید فلسطین صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ اگر مسلمان اپنی صفوں میں وحدت کا ثبوت دیتے اور عالم اسلام ٹکڑیوں میں بٹ نہ گیا ہوتا،  قومی تعصب اور علاقائیت کے غیر اسلامی نعروں نے عرب دنیا کو چھوٹی چھوٹی مملکتوں کی صورت میں بانٹ نہ دیا ہوتا، تو آج مسلمان اس رسواکن صورت حال سے دوچار نہ ہوتے؛ بلکہ وہی اس سرزمین کی قسمت کے مالک ہوتے۔ انسان کی طلب اور اس کی تڑپ کے اعتبار سے نصرت ِالٰہی متوجہ ہوتی ہے، جب انسان کا دل سچی طلب سے خالی ہو اورخدا کے بجائے ظاہری و فانی سہاروں پر انسان نے انحصار کر رکھا ہو، تو ان کے ساتھ کیوںکر خدا کی مدد ہو سکتی ہے؟ پہلے تو عرب ممالک پر قومیت کا ایسا نشہ مسلط ہوا کہ عرب زعماء، اللہ کے نام کے بجائے عرب قومیت کے نام سے اپنے خطبے کا آغاز کرتے تھے اور مذہب کے بجائے خالص قومی مسئلہ کی حیثیت سے اس مسئلہ کو پیش کرتے تھے اور اب معاشی ترقی کے بت نے ان کو اپنا اسیر بنالیا ہے اور وہ مذہبی غیرت پر معاشی مفادات اور سیاسی فوائد کو ترجیح دے رہے ہیں۔
 اس وقت غزہ کے نہتے اور محصور لوگوں پر ظلم کے جو پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں، وہ درندوں کو بھی شرمندہ کرنے والا ہے، اگرچہ اس میں معصوم بچوں، عورتوں اور بہت سے نہتے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں شادیانے بجارہی ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ فلسطین کے مظلوموں کی فتح ہے، اس جنگ نے اسرائیل کی درندگی اور لاقانونیت کو پوری طرح واضح کردیا ہے، اس جنگ نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے، کسی کو باندھ کر اس کو ظلم کا نشانہ بنانا بہادری نہیں بزدلی ہے۔ اس جنگ کے نتیجہ میں فلسطینی مسلمانوں کے اندر جو جذبۂ قربانی پیدا ہوا ہے اور جس شوق کے ساتھ مسکراتے ہوئے وہ جامِ شہادت نوش کررہے ہیں، وہ عہد صحابہ کی یاد تازہ کررہا ہے اور یہ فلسطینیوں کی اخلاقی فتح ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں پر استطاعت کے مطابق ان مظلوم بھائیوں کی مدد کرنا واجب ہے۔ 
 اب سوال یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے ان مظلوم اور نہتے بھائیوں کی اخلاقی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے، انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ رسول اللہ ﷺنے ایک اصول بیان فرمادیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اول اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے،  اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے روکے، یعنی دل سے برا سمجھے ، اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی قدرت دیں گے، وہ اسے روکنے کی کوشش کرے گا۔(ابو داؤد ، حدیث نمبر: ۴۳۴) ظلم و جور سے بڑھ کر کوئی برائی نہیں۔ظلم ایسی برائی ہے ، کہ وہ کسی طور پرقابل قبول نہیں، کفر ایسا جرم نہیں کہ جو شخص پہلے سے اس عقیدہ پر ہو ، اسے قتل کرنا جائز ہو؛ لیکن اگر کوئی شخص کسی کا مال لے لے ، کسی کی عزت و آبر وپر حملہ آور ہو ، یاکسی کو قتل کر دے تو وہ ضرور لائقِ سزا ہے، پس ظلم سب سے بڑی برائی ہے اوراپنی طاقت وصلاحیت بھر اس کی مخالفت واجب ہے!
 مخالفت اور ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ترک تعلق بھی ہے اور ظالموں کے ساتھ ترک تعلق کی تعلیم خود قرآن مجید نے دی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست رکھے گا، وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظلم شعار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے ۔‘‘(المائدۃ:۵۱)
 اس آیت میں ایک جامع لفظ ’’دوست نہ بنانے‘‘کا استعمال کیا گیا ہے، یہ ایک معنی خیز تعبیر ہے ، جس میں قلب و نگاہ کی محبت، فکر و نظر کا تاثر، سماجی زندگی کی مماثلت اور مالی معاملات و تعلقات سب شامل ہیں ، یہ کوئی شدت پر مبنی حکم نہیں ہے؛ بلکہ ظلم کے خلاف ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ اس آیت کے اخیر میںظالموں کا تذکرہ کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ جو یہود و نصاریٰ یا کوئی اور غیر مسلم ظلم و جور پر کمر بستہ ہوں ، مسلمانوں کیلئے اپنی طاقت و قدرت کے مطابق ان سے بے تعلقی برتنا واجب ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر اس حکم کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ارشاد ہے  : 
 ’’اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘ (الممتحنۃ:۹)
 گھروںسے نکالنا، محض دین کی بناء پر آمادۂ قتل وقتال ہونا اور جو لوگ مسلمانوں کے شہروں اور آبادیوں کو ویران کرنے پر تلے ہوئے ہوں، ان کو مدد پہنچا نا، یہ وہ اوصاف ہیں جن کے حامل بدطینت یہودیوں سے بے تعلقی برتنے کا حکم دیا گیا ہے، غور کیجئے کہ کیا آج اسرائیل سے بڑھ کر کوئی اس کا مصداق ہے؟ جو آئے دن بے قصور فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتاہے اور جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے مادر وطن میں رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے، قرآن نے جن یہودو نصاریٰ سے بے تعلق ہونے اور رشتۂ محبت کاٹ لینے کا حکم دیا ہے،اسرائیل اور اس کی حامی وناصر طاقتوں میں ان میں سے کون سی بات نہیں پائی جاتی ؟ 
 لیکن جو غیر مسلم بھائی امن وانصاف کے اصولوں پر قائم ہیں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک ہمارا فریضہ ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں ان(غیر مسلموں)کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے نہیںروکتا، جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔  (الممتحنۃ:۸)(باقی صفحہ ۱۰؍پر)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK