نئی دستاویزی فلم "ہو کلڈ شیرین؟" (شیرین کو کس نے قتل کیا؟) نے ۲۰۲۲ء میں مغربی کنارے کے شہر جینن میں الجزیرہ کی صحافی کے قتل کیلئے ذمہ دار اسرائیلی فوجی کی شناخت سے پردہ اٹھایا ہے جب وہ جینن رفیوجی کیمپ میں اسرائیی فوج کے ریڈ کی رپورٹنگ کررہی تھیں۔
EPAPER
Updated: May 08, 2025, 8:04 PM IST | Inquilab News Network | Washington
نئی دستاویزی فلم "ہو کلڈ شیرین؟" (شیرین کو کس نے قتل کیا؟) نے ۲۰۲۲ء میں مغربی کنارے کے شہر جینن میں الجزیرہ کی صحافی کے قتل کیلئے ذمہ دار اسرائیلی فوجی کی شناخت سے پردہ اٹھایا ہے جب وہ جینن رفیوجی کیمپ میں اسرائیی فوج کے ریڈ کی رپورٹنگ کررہی تھیں۔
فلسطین کے مغربی کنارے میں شہید ہونے والی فلسطینی امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل پر بنائی گئی ایک نئی دستاویزی فلم میں ان کے قاتل کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔ امریکہ کے واشنگٹن میں جمعرات کو ریلیز کی گئی نئی دستاویزی فلم "ہو کلڈ شیرین؟" (شیرین کو کس نے قتل کیا؟) نے ۱۱ مئی ۲۰۲۲ء کو مغربی کنارے کے شہر جینن میں الجزیرہ کی صحافی کے قتل کیلئے ذمہ دار اسرائیلی فوجی کی شناخت سے پردہ اٹھایا ہے جب وہ جینن رفیوجی کیمپ میں اسرائیی فوج کے ریڈ کی رپورٹنگ کررہی تھیں۔ فلم کے مطابق، قتل کا ذمہ دار اسرائیلی فوجی کا نام الون اسکاجیو ہے جس کی عمر اس وقت ۲۰ سال تھی۔
زیٹیو میڈیا کے ذریعے تیار کردہ دستاویزی فلم میں شامل الجزیرہ کی رپورٹر بیسان ابو کویک نے ایک حیران کن ستم ظریفی کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ شیرین کو قتل کرنے والا فوجی بعد میں ۲۰۲۳ء کے موسم گرما میں اسی شہر جنین میں ایک اسرائیلی فوجی آپریشن کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: باپ بننے کے ۵؍ گھنٹے بعد فلسطینی صحافی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق
تفتیشی صحافی اور وال اسٹریٹ جرنل کے سابق نامہ نگار ڈیون نیسنبام نے اس فلم کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلم کی شوٹنگ واشنگٹن، یروشلم اور جنین میں کی گئی اور اس میں ڈیموکریٹک سینیٹر کرس وان ہولن سمیت کیس کی نگرانی کرنے والی اہم شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں۔ فلم میں نئے ذرائع بھی پیش کئے گئے ہیں جو شیرین ابو عاقلہ کی موت کے حالات اور تحقیقات کے بارے میں عوامی طور پر پہلے سامنے نہیں آئے تھے۔ ۴۰ منٹ کی اس دستاویزی فلم میں اسرائیلی اور امریکی حکومتوں کی جانب سے شیرین کے قتل کے حالات کے بارے میں معلومات چھپانے اور اس کے قاتل کی شناخت تک رسائی روکنے کی کوششوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔