Inquilab Logo Happiest Places to Work

شریعت کے احکام انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں

Updated: July 11, 2025, 2:58 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

کائنات کا ہر جزو ایک توازن کا محتاج ہے اور انسان کی جسمانی ساخت بھی اسی توازن کا مظہر ہے اور یہی توازن کام اور آرام میں بھی نظر آتا ہے۔

The true measure of fatigue is linked to an "inner sense of duty" and a "purpose in life." Photo: INN
تھکاوٹ کا اصل معیار ’’داخلی احساسِ فرض‘‘ اور’’مقصد ِ حیات‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ تصویر: آئی این این

انسانی زندگی میں کچھ بنیادی تجربات ایسے ہوتے ہیں جو نسل، مذہب یا تمدن سے قطع نظر ہر انسان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ؛ تھکاوٹ انہی میں سے ایک ہے۔ یہ ایک فطری احساس ہے جو انسانی جسم کے کام کرنے کے بعد ازخود پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم اس کو منطقی انداز میں دیکھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کائنات کا ہر جزو ایک توازن کا محتاج ہے اور انسان کی جسمانی ساخت بھی اسی توازن کا مظہر ہے۔ کام اور آرام کا یہ توازن دراصل فطرت کا وہ اصول ہے جس کے تحت انسان کی بقا ممکن ہے۔ اگر انسان صرف کام ہی کرتا رہے اور آرام کو نظر انداز کر دے تو یہ نہ صرف اس کے جسم کے لئے نقصان دہ ہوتا ہےبلکہ اس کے شعور، جذبات اور فکری توازن کو بھی متاثر کرتا ہے۔ 
شریعت کی روشنی میں بھی اگر ہم اس مسئلے کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے عبادت جیسی عظیم روحانی سرگرمی کے بعد راحت اور آرام کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر انسان کی کمزوری اور حاجات کا ذکر آیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی آرام کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔ گویا کہ شریعت انسانی فطرت کے عین مطابق احکام دیتی ہے؛ وہ انسان کو فقط رب سے ہی نہیں جوڑتی بلکہ اس کی جسمانی ضرورتوں کا بھی مکمل لحاظ رکھتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تھکاوٹ کا احساس نہ کوئی کمزوری ہے، نہ ہی کوئی رکاوٹ، بلکہ یہ ایک الٰہی نظام کا حصہ ہے جو انسان کو اس کے اعتدال کی طرف واپس لاتا ہے۔ 
آئیے! ہم تھکاوٹ کے بعد جسمانی آرام کو قرآن و حدیث کے آئینے میں دیکھیں۔ سورہ النباء کی آیت:۹؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم نے تمہاری نیند کو (جسمانی) راحت (کا سبب) بنایا (ہے)۔ ‘‘ 
اسی طرح سورہ الفرقان آیت:۴۷؍ میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے) اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔ ‘‘ 
اس حوالے سے ایک بہت ہی مشہور حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں ؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’یقیناً تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ ‘‘(بخاری) ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں تھکاوٹ کا احساس فطری مانا گیا ہے اور اس کے بعد آرام کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری سمجھا گیا ہے۔ چونکہ شریعت کا مزاج اعتدال اور توازن پر مبنی ہے اس لئے شریعت روحانیت اور جسمانیت دونوں کو اُن کا حق دینے کی تلقین کرتی ہے۔ 
زیر بحث موضوع کے تعلق سے کچھ اہم نکات یہ ہیں کہ بعض لوگ معمولی کام کرنے کے بعد خود کو بہت زیادہ تھکا ہوا ظاہر کرتے ہیں ؛ جب کہ بعض لوگ کمر توڑ محنت کے باوجود شکایت نہیں کرتے۔ اگر ہم اس کیفیت کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ تھکاوٹ کا اصل معیار ’’داخلی احساسِ فرض‘‘ اور’’مقصد ِ حیات‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ جس شخص کے سامنے زندگی کا ایک بڑا مقصد ہو اور جو اپنی محنت کو ایک اعلیٰ نصب العین کا حصہ سمجھتا ہو، وہ تھکاوٹ کو مشن کا لازمی حصہ سمجھ کر قبول کرتا ہے؛ جب کہ جس کی سوچ چھوٹی ہو یا جو فرائض سے بھاگتا ہو، وہ معمولی کام کو بھی بوجھ محسوس کرتا ہے۔ 
شریعت نے انسان پر جو عبادات، اخلاقی ذمہ داریاں اور دینی و دنیاوی فرائض عائد کئے ہیں، وہ انسان کی فطری طاقت کے مطابق ہیں۔ اگر کوئی شخص ان حدود میں رہتے ہوئے محنت کر کے تھک جائے تو اس کی تھکاوٹ بجا ہے، کیونکہ وہ حق کے راستے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی سستی، غفلت یا دنیا کی بے مقصد مصروفیات میں وقت ضائع کرنے کے بعد تھکن کا شکوہ کرے، تو وہ درحقیقت اپنے نفس کو دھوکہ دے رہا ہے۔ گویا کہ تھکاوٹ کا صحیح پیمانہ ’’فرض کی ادائیگی‘‘ ہے نہ کہ محض جسمانی مشغولیت۔ اس فہم کے ذریعے انسان خود کو بہتر طریقے سے پرکھ سکتا ہے کہ اس کی محنت کا رخ کس جانب ہے، اور اس کی تھکن کتنی سچی ہے۔ 
یہاں سمجھنے کی ایک اور بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام میں اس قدر مشغول ہو جائے کہ دیگر اہم فرائض، چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی، اخلاقی ہوں یا معاشرتی، نظر انداز ہونے لگیں، اور وہ صرف اپنی تھکاوٹ اور مشغولیت کا جواز پیش کر کے ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرے، تو یہ رویہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ اصل تھکن وہی معتبر ہے جو متوازن زندگی گزارنے، تمام ضروری تقاضوں کو نبھانے اور شریعت کی مقرر کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد محسوس ہو۔ ورنہ یک رخی مشغولیت نہ صرف تھکن کے معیار کو مشکوک بناتی ہے بلکہ انسان کو خود فریبی اور فرض گریزی کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ 
  اگر ہم تھکاوٹ اور ذمہ داری کے توازن کو سمجھنا چاہتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو اپنے لئے معیار بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت، دعوت، سیاست، تعلیم، معاشرت، اور خانگی زندگی، ہر پہلو میں ایسی متوازن مصروفیت اختیار فرمائی کہ کوئی فریضہ تشنہ نہ رہااور کبھی تھکن کو ذمہ داری سے فرار کا بہانہ نہیں بنایا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل کامیابی یہ نہیں ہےکہ ہم صرف ایک پہلو پر محنت کریں بلکہ تمام فرائض کو اہمیت کے مطابق ادا کریں اور تھکاوٹ کو راہِ فرار کے بجائے راہِ وفا کا نشان سمجھیں۔ بہ الفاظ دیگر کام کے وقت کام کریں اور آرام کے وقت آرام۔ رب العالمین نے دن کو کام نیز فرائض کی ادائیگی کے لئے بنایا ہے جبکہ رات کو آرام کیلئے۔ ایسا کرکے ہم نہ صرف ایک بامقصد زندگی گزار سکیں گے، بلکہ فضول تھکن اور بے جا شکایتوں سے بھی نجات پا جائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK