موجودہ دَور میں ذہنی تناؤ یا ڈپریشن ، ایک عام مسئلہ کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ زیرنظر سطور میں اس مسئلے کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل پیش کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 16, 2024, 1:02 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai
موجودہ دَور میں ذہنی تناؤ یا ڈپریشن ، ایک عام مسئلہ کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ زیرنظر سطور میں اس مسئلے کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل پیش کیا گیا ہے۔
ساری دنیا کو ہنسانے والے شخص چارلی چیپلن کا ایک مشہور قول ہے جو اس نے اپنے دل کے درد کےاظہار کے لئے کہا تھا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں ہمیشہ بارش میں ہی باہر نکلوں، تاکہ کوئی میرے آنسونہ دیکھ سکے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ ظاہری ہنسی اور قہقہے صرف ایک ڈھکوسلہ ہیں، بہت سے انسانوں کے دل اندر سے نہایت ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں اور زندگی ہے کہ واقعات وحادثات کی وجہ سے انسان کو خون کے آنسو رلاتی رہتی ہے۔ اور اسی مرحلے کو آج ہم ڈپریشن کے طور پر جانتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق آج تقریباً ۹؍کروڑ ہندوستانی اس وبا کاشکار ہیں۔ یہ ایسی بلا ہے کہ جس کا تعلق صرف مرض، غربت وغیرہ سے نہیں ہے بلکہ بسا اوقات کامیاب کھلاڑی، امراء و رؤساء اور شہرت یافتہ مردوخواتین بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس کے نتائج اتنے خطرنا ک ہیں کہ انسان اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خود کو بلکہ اپنے نہایت قریبی لوگوں کی جان لینے پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔ اخبارات میں اس طرح کی خبریں اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہیں۔
دراصل ڈپریشن کو عصر حاضر کے ناسمجھ اور نازک مزاج انسان نے خود ہی اپنے گلے کا طوق بنالیا ہے ورنہ آج سے ۱۴۰۰؍ سال پہلے جب مکہ کی وادیوں سےدین اسلام کانور طلوع ہوا، تب ہی انسانیت کو درپیش سارے مسائل، بشمول ڈپریشن، کا علاج اور وہ بھی نہایت آسان علاج بتلادیا گیا تھا۔ اسلامی تعلیمات کا ایک سرسری مطالعہ بھی ہم پر یہ بات واضح کردیتا ہے کہ ایک مسلمان کبھی ڈپریشن میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے نہایت ہی مختصر الفاظ میں ایمان والوں کو ایک ایسا نسخۂ اکسیر بتلادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ ‘‘ (الزمر:۵۳)۔ حیرت انگیز طور پر، جس ذہنی تناؤ اوریاس وناامیدی اور ڈر و خوف کی بات ہم کررہے ہیں قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے آج سے ۱۴۰۰؍ سال قبل ہی اعلان کردیا تھا’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۵۵) مشکل حالات میں صبرکرنے والوں کو خوشخبری سنا دی گئی تھی کہ ان کو اللہ کی جانب سےجنت عطا کی جائے گی۔ جب اللہ عزوجل کی جانب سے اتنی بڑی خوشخبری مل رہی ہو تو پھر بھلا دنیا کی کون سی مصیبت اور کون سی مشکل انسان کو ناامیدی کی کھائی میں دھکیل سکتی ہے؟
انہی اسلامی تعلیمات کی وجہ سے ہر لمحہ ہر گھڑی مسلمان یہی سوچتا ہے کہ میرا رب الرحمن الرحیم ہے، میرے نبیؐ رحمۃ للعالمین ہیں پھر بھلا میں کیسے کسی مایوسی، ناامیدی، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہوں ؟
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی انسان اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کو ذہنی تناؤ، یا اس قسم کی پریشانی ہوتی ہی نہیں ہے۔ یہ تو انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر انسان پر ایسا مشکل وقت آتا ضرور ہے، البتہ اس کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے، اسلام اس جانب مسلمانوں کی رہنمائی ضرور کرتا ہے۔ مثلا ً تاریخ اسلام میں ملتا ہے کہ مکہ میں دشمنان اسلام ایسی باتیں کرتے تھے جن سے آپﷺ کا دل دکھتا تھا۔ اللہ عزوجل نے اس مسئلے کا حل سورۃ الحجر میں یوں ارشاد فرمایا : ’’یقیناً ہم جانتے ہیں کہ جو باتیں یہ بناتے ہیں ان سےآپؐ کا دل تنگ ہوتا ہے، سو (اس کا علاج یہ ہے کہ) آپ حمد کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کیا کریں اور سجود کرنے والوں میں (شامل) رہا کریں۔ ‘‘ (آیات:۹۷۔ ۹۸)
اسی لئے احادیث میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ کو جب کبھی مشکل پیش آتی آپؐ نماز پڑھتے۔ قرآن مجید کی ایک اور آیت میں صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد چاہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی حمد، اللہ کی تسبیح، اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور نماز پڑھنا، یہ غم، سینے کی تنگی، ڈر اور ذہنی دباؤ کا بہترین علاج ہیے۔
اسی طرح ہمارے ڈپریشن کی ایک اور اہم وجہ ہمارا ان لوگوں کی جانب نگاہ دوڑانا ہے جو ہم سے زیادہ اچھی حالت میں ہیں۔ کمزور عقیدہ رکھنے والا غریب اگر پیسے والے کو دیکھے گا، جسمانی طور پر معذور اگر کسی تندرست وتوانا شخص کو دیکھے گا، غرضیکہ کسی نعمت سے محروم شخص اس نعمت کو رکھنے والے کی طرف دیکھے گا تو یقیناً احساس کمتری، احساس محرومی، تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوگا۔ اسلام نےاس مسئلے کا بھی کیا ہی پیارا حل بتلا یا کہ دینی اعتبار سے ان لوگوں کو دیکھو جو تم سے اوپر ہیں، تم سے زیادہ دیندار ہیں۔ اس کے برعکس، دنیاوی معاملات میں ان کو دیکھو جو تم سے نیچے ہیں، تم سے کمتر ہیں۔ یہ سوچ اتنی پیاری ہے کہ خود بخود انسان کے ذہن سے ناامیدی کے سارے غبار کو چھانٹ دیتی ہے۔ اسی طرح علم نفسیات نے ذہنی تناؤ کی ایک اور وجہ دریافت کی ہے، جس سے یہ معلوم پڑا کہ انسان کے پیٹ میں بدہضمی اور انسانی بدن میں پانی کی کمی بھی انسان کے ذہنی دباؤ کی وجہ بنتی ہے۔ نبی کریمﷺنے کھانا کھاتے وقت پیٹ کو تین حصوں میں بانٹنے کا حکم دیا کہ ایک حصہ کھانے کیلئے، دوسرا پانی کے لئے اور تیسرا ہوا کے لئے۔ اس اصول سے نہ صرف بدہضمی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں بلکہ انسانی بدن میں پانی کی قلت کا بھی علاج ہوسکتا ہے۔ اور اگر اس وجہ سے ذہنی تناؤ وجود میں آرہا ہو تو اس کا بھی حل نکل سکتا ہے۔
اسی طرح رب العالمین کا ذکر، اللہ کی یاد ایک آسان نسخہ ہے جس سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے اللہ تعالیٰ کی یاد کو ہی انسانی دلوں کے سکون کا ذریعہ بتلایا ہے۔ جس دل میں اللہ کی یاد موجود ہو، وہاں کسی بھی قسم کے ڈر، خوف، ناامیدی یا ڈپریشن کا ہرگزگزر نہیں ہوسکتا۔
صبر کے ساتھ ساتھ شکر بھی ایک ایساعمل ہے جو انسانی دل کو کبھی بھی تاریکی میں ڈوبنے نہیں دیتا، اور شکر بھی ایسا کہ جو ہر حال میں انسان کی زبان پر جاری وساری ہو۔ ایک صاحب غریب تھے، پیر میں چپل خریدنے کے پیسے تک نہ تھے۔ انہوں نے شکوے شکایت کے لئے آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی، یا اللہ ! میرے پاس چپل بھی نہیں ہے۔ تبھی ان کی نگاہ ان کے سامنے بیٹھے ایک شخص پر پڑی جس کے پیر ہی نہیں تھے۔ فوراً ان کے دل کو احساس ہوا کہ چپل آج نہیں ہے تو کل آجائے گی، اس بیچارے کے پیر تو کبھی نہیں آئیں گے۔ اور وہ فوری طورپر اللہ کے سامنے سجدۂ شکر میں گر گئے۔
یہی وہ شکر ہے، یہی وہ نعمتوں کا احساس ہے جو اکثر شیطان ہماری نگاہوں سے اوجھل کردیتا ہے اور ہم ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کے بھنور میں گھر جاتے ہیں۔ جبکہ اللہ کی نعمتوں کا احساس اور اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو ہر قسم کے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارا دلا سکتی ہیں۔ n