Inquilab Logo

کربلا کاعرفان کامیاب زندگی کی ضمانت ہے،اس کےمختلف مراحلکی حیثیت منبع ہدایت کی ہے

Updated: August 09, 2022, 11:40 AM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اما م حسینؑ نے اپنے اصحاب و انصار اور رشتہ داروں کیساتھ مختلف قسم کی صعوبتیں اس لیے برداشت کیں کہ دنیا کو یہ پیغام مل سکے کہ ایسے سنگین حالات میں بھی اگر انسان چاہے تو اپنے وجود کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے راہ حق پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

کربلا کاواقعہ تاریخ انسانی کا ایسا واقعہ ہے جس کے مضمرات زندگی کے مختلف مراحل اور مدارج کیلئے منبع ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس واقعے کو محض دو گروہوں کے درمیان جنگ سے تعبیر کرنا فکر و نظر کی اس محدودیت کو عیاں کرتا ہے جو کسی واقعہ کے خارجی مظاہر کو ہی کلی حقیقت سمجھتا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کے تدریجی ارتقا کی کتاب روداد کے اوراق پر ایسے کئی واقعات مل جائیں گے جنھوں نے نوع انساں کی فطرت اور نفسیات کو اس طور سے متاثر کیا کہ انسانوں کو اپنے وجود کی حقیقت کا ادراک حاصل ہو سکے۔اس مرحلے سے گزرنے کے بعد انسانوں نے اپنے طور طریقوں کو ایسے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جو تمام مخلوقات ارضی کے مابین ان کی فضیلت کو نمایاں کر سکے۔ دنیا میں رائج مختلف مذاہب کی تاریخ میں ایسے واقعات کسی نہ کسی صورت میں مل جاتے ہیں جو شاہراہ حیات پر جاری انسانی سفر کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں واقعہ ٔ  کربلا پر نظر ڈالی جائے تو بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعہ کی اثر پذیری کا دائرہ ان تمام حدود سے بالاتر ہے جو حدود انسانوں کو علاقائی، نسلی ، لسانی اور قومی اعتبار سے انفرادی شناخت عطا کرتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ تقریباً ڈیڑھ صدی کا وقت گزر جانے کے بعد بھی محرم کا چاند نمودار ہوتے ہیں پوری دنیا میں شہادت امام حسینؑ کی یاد منانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں شرکت صرف ان ہی کی نہیں ہوتی جو عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہوتے ہیں بلکہ دیگر مذاہب اور مختلف سماجی پس منظر سے تعلق والے اپنے اپنے طور پر اس عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔  کربلا کی یاد منانے کے جو مختلف طریقے دنیا میںرائج ہیں ان میں علاقائی اور مقامی کلچر اور ثقافتی رویوں کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیںتاہم یہ ضرور ہے کہ اس اختلاف میں جو چیز قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ کہ محرم کے ایام میں امام حسینؑ کی بار گاہ فضیلت مآب میں خراج عقیدت پیش کرنے والے، ان پر گزرے ہوئے مصائب و آلام کو یاد کرکے رنجیدہ ہوتے ہیں اور اپنے غم کا اظہار مختلف صورتوں سے کرتے ہیں ۔
 ان صورتوں میں مجلس عزا کا انعقاداور امام حسینؑ کی مظلومی پر نوحہ خوانی اور سینہ زنی کا رواج دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہے حتیٰ کہ ان ممالک میں بھی جو تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ایسے طرز حیات کی پابندی کرتے ہیں جو اسلامی طرز زندگی سے بالکل مختلف ہے۔اس واقعے کی ایسی لامحدود اثر پذیری یہ ثابت کرتی ہے کہ امام حسینؑ نے بے آب و گیاہ ریگ زار کربلا میں اپنے اصحاب و انصار کے ہمراہ بارگاہ ایزدی میں جو قربانی پیش کی تھی، اس نے نہ صرف اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کومحفوظ رکھنے کا کام انجام دیا بلکہ شہادت حسینؑ  نے عمومی طور پر ان صالح اقدار حیات کو جاودانی عطا کر دی جو معاشرہ کی فلاح و ترقی کیلئے ناگزیر ہیں۔
 اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلاح وترقی کا تعلق صرف مادی اور معاشی معاملات پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سے اہم یہ ہے کہ انسان اپنی داخلی ترقی کا جائزہ لے اور بحیثیت انسان اپنی ذات سے وابستہ فضیلت کے ان تمام حوالوں کو دریافت کرے جو انسانوں کے علاوہ کسی اور ذی روح کو میسر نہیں ہے۔کربلا کا حقیقی عرفان اس مرحلے پر انسان کی دست گیری کرتا ہے اور زندگی کی پیچیدہ راہوں کو عبور کرنے کیلئے اسے اس قدر با شعور بنا دیتا ہے کہ اس کے قدموں میں لغزش نہیں پیدا ہوتی۔اس شعور کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ اما م حسینؑ  کی مدینہ منورہ سے ہجرت سے لے کر عصر عاشور تک، ان کی شہادت کے درمیان رونما ہونے والے مختلف واقعات میں پوشیدہ ان پیغامات کو محسوس کیا جائے جو ایک معیاری زندگی گزارنے کیلئے انسانی افکار و افعال کی تربیت کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ معیاری زندگی کا یہ تصور انسانوں کا خود ساختہ تصور نہ ہو بلکہ وہ تصور جو قرآن و احادیث اور اقوال ائمہ سے تشکیل پاتا ہے۔ اما م حسینؑ  نے اپنے اصحاب و انصار اور رشتہ داروں کیساتھ مختلف قسم کی صعوبتیں اس لیے برداشت کیں کہ دنیا کو یہ پیغام مل سکے کہ ایسے سنگین حالات میں بھی اگر انسان چاہے تو اپنے وجود کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے راہ حق پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔لیکن اس کے لیے جو بنیادی چیز درکار ہے وہ یہ کہ انسان کوان عارضی مفادات کو درکنار کرنا ہوگا جو وقتی طور پر اس کے لیے آرام و آسائش کے اسباب فراہم کرتا ہے لیکن اس فراہمی کے عوض میں اس کی شخصیت کا وہ جوہر زائل ہو جاتا ہے جس پر انسانیت کی بقا کا دار و مدار ہوتا ہے۔
 یزید کی بیعت کے مطالبے کو ٹھکرا کر اما م حسینؑ  نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ جب بات حق کی بقا کی آ جائے تو نہ تو حکومت کے جاہ و جلا ل سے مرعوب اور خوفزدہ ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کے ذریعہ دی گئی لالچ کے اس فریب میں آنا چاہیے جس کا مقصد حق و باطل کے امتیاز کو ختم کرنا  ہے۔ یوں تو واقعہ کربلا میں زندگی کے ہر پہلو کی اصلاح و تربیت کے لیے سبق پوشیدہ ہے لیکن اگر صرف ان مذکورہ دو حوالوں ہی سے اس واقعے کی عصری افادیت پر غور کیا جائے تو یہ صاف نظر آئے گا کہ معاشرہ میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو اما م حسینؑ کی ذات والا صفات کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں لیکن اپنی عملی زندگی میں ان کی تاسیس صرف اس لیے نہیں کرتے کہ ایسا کرنے سے ان کے عارضی ذاتی مفادات پر حرف آتا ہے۔اگر ذرا باریک بینی اور غیر جانب داری سے موجودہ انسانی معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانی افکار و افعال پر خو د غرضی اور مفاد پرستی کا غلبہ اس حد تک ہو گیا ہے کہ اس نے خیر و شر اور حق و باطل کے تصورات کو اپنی مرضی کا تابع بنا لیا ہے اورحصول مفاد کی راہ میں جب جہاں اور جیسے رویے و عمل کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسی کے مطابق اپنے وجود کو ڈھال لیتا ہے۔اپنے اس طر ز کے عمل اور رویے کو اعتبار عطا کرنے کے لیے وہ ایسے حربے بھی استعمال کرتا ہے جو حربے استعمال کرکے یزید نے مملکت عرب کی بعض قد آور شخصیات اور دیگر باشندوں کو اپنا حامی بنا لیا تھاجو درہم و دینار کے عوض اپنے ایمان کو فروخت کردینے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے تھے۔ لیکن جو لوگ سبط رسول ؐ کے مقام و مرتبہ کا حقیقی عرفان رکھتے تھے ان پر اس طرح کے حربے کامیاب نہیں ہوئے اورایسے چنیدہ افراد نے اما م حسینؑ  کی نصرت میں جان کی بازی لگا کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ حق کی حمایت میں جان دینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت دنیا کے جو حالات ہیں اور جس طرح طاقت اور دولت کا سہارا لے کر انسانی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے ایسے ماحول میں اما م حسینؑ  کی شہادت کی معنویت مزید بڑھ گئی ہے۔اس معنویت کا ادراک حاصل کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ انسان اپنے خود ساختہ اور ناقص تصورات کے حصار سے بالاتر ہو کر اس عظیم قربانی سے وابستہ ان انسانیت نواز اقدار و افکار کو دریافت کرنے کی کوشش کرے جو ایک پُرامن اور خوشحال معاشرہ کی تشکیل میں ناگزیر جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مادی لوازم کے تئیں انسان کی فریفتگی نے معاشرتی نظام کو اس حد تک آلودہ کر دیا ہے کہ زندگی کی حقیقی کامیابی و کامرانی کی راہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔  اس ماحول سے نکلنے کے لیے واقعہ کربلا نوع انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس واقعے کے انسانیت نواز پیغام کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر قبول کیا جائے اور اس پر مخلصانہ انداز میں عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے حق میں بہتر ہوسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK