Inquilab Logo

جبر کی سیاست اور سیاست کا جبر

Updated: June 08, 2023, 10:31 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر خاتون پہلوانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور برج بھوشن سنگھ کی حمایت کی مہم چلائی جا رہی ہے جو نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے ۔افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ اب انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے بھی ان خاتون پہلوانوں کے مسئلے پر فکر مندی ظاہر کی ہے ۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ہمارا ملک ہندوستان ایک جمہوری طرزِ حکومت کا ملک ہے اور ہمارے آئین میں ہر ایک شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ جمہوری طرز سے لڑ ے اور اگر ان کے ساتھ کسی طرح کی ناانصافیاں ہوئی ہیں تواس کے خلاف آواز بلند کریں اور قانونی چارہ جوئی کریں۔لیکن حالیہ برسوں میں ملک میں کچھ اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں جسے دیکھ کر پاسدارانِ جمہوریت فکر مند ہیںاور عوام میں بھی اس طرح کے واقعات وحادثات کے سبب اضطرابی کیفیت دیکھی جا رہی ہے ۔ہجومی تشدد کا معاملہ ہو یا کسانوں کی بھیڑ پر جان لیوا حملے اور گئو رکشکوںکے ذریعہ مبینہ طورپر گئوتاجروںکے قتل کے واقعات نے ملک کے امن پسند شہریوں کو ذہنی پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے، آخر ملک کی فضا اس قدر مکدر کیوں کر ہوتی جار ہی ہے۔ 
 بہر کیف! اس وقت دارالحکومت دہلی کے جنترمنتر سے لے کر ہریانہ کی کھاپ پنچایتوں میں جس طرح خاتون پہلوانوں کی جنسی ہراسانی کا معاملہ طول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کہیں نہ کہیں پہلوانوں کی آواز کو صدا بہ صحرا ثابت کرنے کی سازش میں حکمراں جماعت بھی شامل ہے ورنہ جس دن  خاتون  پہلوانوں نے انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف مبینہ طورپر جنسی ہراسانی کی آواز بلند کی تھی اگر فوری طورپر اس کی جانچ کے لئے حکومت کی طرف سے ٹھوس کارروائی کی جاتی تو ممکن ہے کہ یہ معاملہ اتنا طول نہیں پکڑتا ۔پوری دنیا میں اس واقعے کو لے کر جس طرح کا منفی پیغام گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس طرح دہلی پولیس نے برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد بھی سرد مہری دکھائی اس سے خاتون پہلوانوں کے اندر غم وغصہ بڑھتا چلا گیا اور پھر ۲۸؍ مئی کو دہلی پولیس نے جو رویہ ان خاتون پہلوانوں کے ساتھ اپنایا وہ بھی غیر ذمہ دارانہ تھا اور غیر اخلاقی بھی۔واضح ہو کہ برج بھوشن سنگھ حکمراں سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور اتر پردیش میں ایک با اثر پارٹی لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ شاید اسی لئے حکمراں جماعت ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی سے جھجھک رہی ہے اور خاتون پہلوانوں کی آواز کو اَن سنی کر رہی ہے جب کہ موجودہ حکمراں جماعت کا نعرہ ’’بیٹی پڑھائو، بیٹی بچائو ‘‘ کا ہے اور حکومت ہرشعبے میں خواتین کو سنہری مواقع دینے کا دعویٰ بھی کرتی رہی ہے ۔ لیکن اس ایک واقعے نے حکومت کے دعوے پر بھی سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔ اب جب کہ اس مسئلہ کو کسان لیڈروں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے تو حکمراں جماعت کے کئی ممبرانِ پارلیمنٹ نے خاتون پہلوانوں کی حمایت کی ہے ۔ کسان لیڈروں نے حکومت کو پانچ دنوں کا موقع دے کر اعلانیہ کہا ہے کہ اگر حکومت برج بھوشن سنگھ کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے تو وہ ملک گیر مہم چلائیں گے ۔حال ہی میں ہریانہ کے کئی حصوں میں کسان لیڈروں نے کھاپ پنچایت کی ہے اور ان خواتین کو انصاف دلانے کا عہد کیا ہے۔ واضح ہو کہ دہلی کے جنتر منتر پر ان خاتون  پہلوانوں کے ساتھ دہلی پولیس کا جو نازیبا سلوک ہوا تھا اور ان کے خلاف مقدمے بھی دائر کئے گئے تھے اس کے احتجاج میں خاتون پہلوانوں نے اپنے میڈل گنگا میں پھینکنے کا اعلان کر دیا تھا اور وہ سب ہری دوار پہنچ گئی تھیں لیکن خاتون کھلاڑیوں کو کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے یقین دلایا کہ وہ انہیں انصاف دلائیں گے اور ان کی یقین دہانی پر ان کھلاڑیوں نے احتجاجاً میڈل گنگا میں پھینکنے سے پرہیز کیا۔ خاتون پہلوانوں میں ساکشی ملک ، ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ ریسلرشامل ہیں۔ اب اس پورے معاملے میں ایک نیا موڑ یہ بھی آگیا ہے کہ دہلی پولیس نے ایف آئی آر کے بعد جو رپورٹ تیار کی ہے وہ بھی عام ہوگئی ہے اور دہلی پولیس بھی کٹہرے میں کھڑی نظر آرہی ہے کیوں کہ جنسی ہراسانی جیسے سنگین معاملات میں اس قدر ٹال مٹول کی پالیسی کہیں نہ کہیں مبینہ ملزم کو بچانے کی کوشش معلوم ہو رہی ہے۔ اگرچہ برج بھوشن نے بھی دعویٰ کیاہے کہ ا گر ان پر الزام ثابت ہوتا ہے تو وہ خود کو پھانسی پر لٹکا لیں گے۔ 
 الغرض کہ ایک طرف انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن اب تک اپنے عہدے پر قائم ہیں اور پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے جب کہ ان پر جو مبینہ الزامات ہیں وہ بہت ہی سنگین ہیں کیونکہ اس میں ایک کھلاڑی نا بالغ بھی ہے اور اس کا جو الزام ہے وہ پاکسو ایکٹ میں آتا ہے۔
  دراصل  خاتون  پہلوانوں کا پورا معاملہ سیاسی ہو کر رہ گیا ہے اس لئے ایک طرف حکمراں جماعت خاموش رہ کر اس تحریک کوبے اثر کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف ممتا بنرجی، اروند کیجریوال، پرینکاگاندھی، بندرا کرات وغیرہ نے ان کھلاڑیوں کی حمایت کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں خاتون پہلوانوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔
  سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان خاتون پہلوانوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور برج بھوشن سنگھ کی حمایت کی مہم چلائی جا رہی ہے جو نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے ۔افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ اب انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے بھی ان خاتون پہلوانوں کے مسئلے پر فکر مندی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہاہے وہ تکلیف دہ ہے ۔ کمیٹی نے جنسی ہراسانی کے معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیاہے اور عالمی ریسلنگ فیڈریشن نے تو انڈین ریسلنگ فیڈریشن کی رکنیت معطل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام تر سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر اس معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہئے اور حقیقت عام ہونی چاہئے کیونکہ خواتین پہلوان کا الزام نئی نسل کی خاتون کھلاڑیوں کے لئے باعثِ حوصلہ شکن ہے اور اس سے ملک میں ابھرنے والی کھلاڑیوں کے ذہن ودل پر منفی اثرات نمایاں ہوں گے ۔انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن سنگھ کو بھی اپنے عہدہ سے خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہئے اور ہر طرح کی جانچ کا جب وہ دعویٰ کر رہے ہیں تو اپنا دامن پاک ہونے تک جانچ ایجنسیوں کا تعاون کرنا چاہئے نہ کہ خاتون پہلوانوں کی تحریک کو بے اثر کرنے کی سازش کے ساتھ ساتھ ان کے غم وغصہ پر پھبتی کسنی چاہئے۔ان کا عہدے پر بر قرار رہنا اور دہلی پولیس کی سردمہری حکومت کے لئے بھی دردِ سر ثابت ہو سکتی ہے کہ کسانوں نے ان کھلاڑیوں کی حمایت میں ملک گیر تحریک کا اعلان کردیاہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK