Inquilab Logo

’’انڈیا‘‘کی طاقت بڑھ رہی ہے!

Updated: March 09, 2024, 12:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی حوصلہ شکنی کے مقصد سے خاصی بڑی مہم تب ہی شروع ہوگئی تھی جب نتیش کمار الگ الگ پارٹیوں کے سربراہان سے ملاقات میں مصروف تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی حوصلہ شکنی کے مقصد سے خاصی بڑی مہم تب ہی شروع ہوگئی تھی جب نتیش کمار الگ الگ پارٹیوں کے سربراہان سے ملاقات میں مصروف تھے۔ ان پارٹیوں کی پہلی میٹنگ پٹنہ میں منعقد کی گئی تھی اور نام نہاد میڈیا، میٹنگ کی کمیوں اور خامیوں کو اُجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔ یہ کیفیت جاری رہی اور آج بھی جبکہ ’’انڈیا‘‘ نامی اتحاد نے کافی معاملات میں اتفاق رائے پیدا کرلیا ہے اور اس اتحاد کو دس میں سے آٹھ نشانات تو آسانی سے دیئے جاسکتے ہیں، میڈیا ہے کہ اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ روز جے رام رمیش پریس کانفرنس میں اعلان کررہے تھے کہ مغربی بنگال اور جموں کشمیر کو چھوڑ کردیگر تمام ریاستوں میں اتحاد کی پارٹیوں کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم طے ہوچکی ہے، نام نہاد میڈیا جموں کشمیر کی خبر ہائی لائٹ کررہا تھا۔ حکمراں جماعت، حکمراں محاذ اور ان کے ہمنوا میڈیا کا دُکھ یہ ہے کہ جس اپوزیشن اتحاد سے انہیں زبردست خطرہ ہے وہ ان کی اُمید کے مطابق ٹوٹا نہیں بلکہ جڑتا چلا گیا اور پھر مستحکم ہونے لگا۔ بدخواہوں کو اُمید تھی کہ اس میں دراڑیں پڑ جائینگی مگر ایک نتیش کمار اور جینت سنگھ کو چھوڑ کر کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپوزیشن کے اتحاد سے نکل کر کہیں اور گیا ہو۔ بدخواہوں کو یہ بھی اُمید تھی کہ سیٹوںکی تقسیم پر ان میں انتشار ہی انتشار ہوگا مگر یہ بھی نہیں ہوا۔ انتشارکی جتنی خبریں تھیں ان میں سے بیشتر میڈیا کی اُڑائی ہوئی تھیں ان کا حقیقت سے کچھ واسطہ نہیں تھا۔ 
 اسی لئے اِدھر کچھ عرصہ سے حکمراں محاذ نے الیکشن جیتنے کی تگ و دَو تیز کردی ہے کہ اگر انڈیا اتحاد عمدہ کارکردگی کے مظاہرہ میں کامیاب ہوگیا تو ’’اب کی بار چار سو پار‘‘ کا نعرہ چاروں شانے چت نہ ہوجائے۔ قارئین کی یادد دہانی کیلئے عرض کردیں کہ بی جے پی نے ۳۷۰؍ سیٹوں پر کامیابی کا ہدف طے کیا ہے جبکہ اس کا کہنا ہے کہ حلیف پارٹیوں کے ساتھ این ڈی اے کی مجموعی سیٹیں ۴۰۰؍ سے زیادہ ہوں گی۔ کئی مبصرین کو بی جے پی اور این ڈی اے کے اس ہدف پر حیرت ہے کہ انہیں اتنی سیٹیں کہاں سے ملیں گی مگر بی جے پی اور اس کے لیڈر عوام کو رجھانے کے جو طریقے استعمال کرتے ہیں اُن میں سے ایک ہے غیر معمولی خود اعتمادی کا مظاہرہ، کہ ہدف چاہے جتنا بڑا ہو، اس قدر اعتماد ظاہر کیا جائے کہ وہ لوگ جو کمیٹیڈووٹرنہیں ہیں، وہ ہموار ہوجائیں اور فلوٹنگ ووٹوں کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا جائے۔ 
  بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کو کم آنکنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ اس نے جب بھی کوئی بڑا ہدف اپنے سامنے رکھا، اُسے پانے کیلئے انتھک کوشش کی اور پھر اسے حاصل کرکے دکھایا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ نومبر ۲۳ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی چھتیس گڑھ، ایم پی اور راجستھان جیت لے گی۔ اس نے یہ کردکھایا۔ کانگریس تلنگانہ میں فتح یاب نہ ہوتی تو اسے منہ چھپانے کی جگہ نہ ملتی۔ اس کے باوجود چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اقتدار گنوانا اس کیلئےشرمناک تھا۔ اب لوک سبھا کا الیکشن، جس کا جلد ہی اعلان متوقع ہے، انڈیا اتحاد کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ اس الیکشن میں اس کے پاس بی جے پی سے بڑی انتخابی حکمت عملی ہونی چاہئے۔ ’’انڈیا‘‘ کی تمام پارٹیوں کا اتحاد اور اتحاد میں اتفاق (رائے) بڑی چیز ہے مگر اس کے ذریعہ بی جے پی کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ سیٹ شیئرنگ کے بعد اسے انتخابی حکمت عملی پر سخت محنت کرنی ہوگی۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK