Inquilab Logo

قرآن جہل کو امّ الامراض قرار دیتا ہےجس کی سنگینی سےزندگی تعفن کا شکار ہوجاتی ہے

Updated: November 25, 2022, 1:53 PM IST | Dr. Tauqeer Alam Falahid | Mumbai

گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’علم و فضل وہ دولتِ گراں مایہ ہے جو فرداور معاشرے کی فلاح کی ضمانت ہے‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر :آئی این این

علم کے مقابلے میں ’’جہل‘،کا لفظ قرآن مجیدمیں حقائق کی یافت سے محرومی،عناد و تکبّر،ضد اور  ہٹ دھرمی اور تعصّب و تنگ نظری کی بنا پر حقائق و معارف سے اعراض و انحراف کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔ آفاق و انفس کی شہادتیں،توحید،رسالت اور آخرت کے دلائل،پیغمبران خدا کی سرگزشتیں اور اقوام بائدہ  (عرب کے وہ پرانے باشندے جن کا اب نام و نشان نہیں رہا)کے انجام علم سے بے بہرہ اشخاص کیلئے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار باریہ حقیقت ذہن نشین کراتا ہے کہ کائنات کی نشانیاں اور آفاق و انفس کی شہادتیں ان لوگوں کیلئے سودمند نہیں ہوتیں جو علم و  آگہی کی نعمت غیر مترقبہ سے شرف یاب نہیں ہوتے۔ جو لوگ تدبر و تفکر کو کام میں نہیں لاتے اور حقائق کی جستجو میں سرگرداں نہیں ہوتے، ان کے لئے خالق دوجہاں کی نشانیوں میں خیر کا پہلو حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور بسااوقات ان کا عمل حقائق سے دوری، اللہ عزوجل پر افتراپردازی اور اپنے ساتھ نوع بشری کی گمراہی پر منتج ہوتا ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے کہ اللہ رب العزت کے بے پایاں احسانات کو فراموش کرتے ہوئے ایک انسان اس کی طرف خلافِ شان باتوں کا انتساب کرے اور خود پیکر ضلالت بن کر نوعِ انسانی کی گمراہی کا سبب بنے: ’’پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہنمائی کرے۔‘‘ (یونس:۱۷) جہل و ناواقفیت کی سنگینی اس آیت کریمہ میں بھی عیاں ہے:   ’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دے۔‘‘ (لقمان :۶) 
مولانا مودودی کی یہ وضاحت بھی معنی خیز ہے:’’جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانۂ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس وگمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لئے زندگی کے طریقے مقرر کر لئے تھے۔ ‘‘(تفہیم القرآن،ج۱،ص ۴۷۹)
جہل کے اس عام مفہوم کے علاوہ قرآن اس کا ایک اور مفہوم بھی واضح کرتا ہے۔ بعثت نبویؐ سے قبل کے انسانی معاشرے کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ قرآنی مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور دورِ جاہلیت سے موسوم ہے۔ اگرچہ یہاں قادرالکلام شعراء،نابغہ روزگار ادباء اور نادر المثال فصحاء جنہیں اپنی قوت گویائی اور زبان دانی پر ناز تھا،موجود تھے۔ وہ اپنی قابل رشک صلاحیتوں کی ہی بنیاد پر دوسروں کو طفل مکتب کہہ دینا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے۔ قرآن پاک اگر انہیں جاہل قرار دیتا ہے تو اس بنیاد پر کہ علوم و معارف سے  آگہی کے باوجود ضد، عناد اور آباء و اجداد کی اندھی تقلید اور ہٹ دھرمی کی بنا پر حق شناسی کی نعمت سے محروم تھے۔ قرآن کے معانی اور اسرار و رموز سے  آگہی کے لئے کلام عرب بھی قیمتی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ قرآن پاک کے اوّلین مخاطب اہل عرب تھے اور یہ بعید از قیاس ہے کہ ذات باری تعالیٰ ایسے اسلوب و زبان میں گفتگو کرے جو مخاطب کے فہم و دانش کے معیار کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ جہل کے اس دوسرے مفہوم کا اظہار نابغۂ روزگار جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کے اس شعر سے ہوتا ہے:الا لایجھلن احد علینا  - فنجھل فوق جھل الجاھلین ’’خبردار! کوئی ہمارے خلاف جہالت پر آمادہ نہ ہو،ورنہ ہم تمام جاہلوں کی جہالت سے بڑھ جائیں گے۔‘‘ (جمھرۃ اشعار العرب، ص ۱۲۸)حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دی تو قوم نے ان کے ساتھ تمسخر کیا اور سند کے طور پر عذاب الٰہی طلب کیا۔ پیغمبر وقت نے اللہ تعالیٰ کو سرچشمۂ علم قرار دیا اور اپنی حیثیت واضح کرتے ہوئے ان کی اخلاقی گراوٹ کی تصویرکشی کی:’’اور جس چیز کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے،اُسے تم لوگوںتک پہنچا دیتا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔‘‘  (الاحقاف : ۲۳) حضرت موسیٰ  ؑنے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی تلقین کی اور جانور ذبح کرنے کے حکم الٰہی کو ان کے گوش گزار کیا تو انہوں نے پیغمبر کی شان میں نازیبا کلمات کہے۔ اس پر پیغمبر نے ان کی جہالت سے پناہ مانگی:
 ’’ کہنے لگے کہ کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰ  ؑنے کہا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔‘‘(البقرہ :۶۷)دعوت و تبلیغ کی راہ میں ایسے صبرآزما مراحل آتے ہیں کہ داعیٔ حق کے قدموں میں لغزش آجاتی ہے لیکن ایسے سنگین حالات میں بھی داعی کے منصب دعوت کے مقام کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ صبروثبات قدمی کا طریقہ اختیار کرے۔ دعوت کے اس مقدس مشن میں ایسے مخاطبین بھی سامنے آتے ہیں جن کے اذہان و قلوب پر ضد، عناد اور آباء پرستی اور تقلید جامد کی وجہ سے حق کی روشن شعاعوں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ کبر و غرور کے نشے میں بدمست ہو کر دعوت صالحہ سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ تعصّب و تنگ نظری اور آبا پرستی و تقلید محض کو قرآن جہل سے تعبیر کرتا ہے اور ایسی نامبارک روش اختیار کرنے والوں کو الجاھلین یا الجاھلون سے موسوم کرتا ہے۔ داعی ٔ حق کو قرآن تلقین کرتا ہے کہ وہ اس مبارک کام میں حکمت کا طریقہ اختیار کرے۔ دعوت کی راہ میں جب کبھی ایسے لوگ منظرعام پر آئیں جو اگرچہ علم و فن کی ثریا پر کمندیں ڈالے ہوں لیکن حق کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لئے اپنے دل و دماغ کے دریچوں کو مقفل رکھتے ہوں،یا ایسے لوگ سامنے آئیں جو کسی کالج یا مدرسے سے سند فراغت تو حاصل کر چکے ہوں لیکن تعصّب و تنگ نظری کا حصار اور بے جا رسوم اور روایات کا طوق سلاسل ان کے قبول حق میں سدّراہ بن رہا ہو تو داعی سے ایسے نامساعد موقع پر حکمت کو روبہ عمل لانے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ یہاں ایسے ناقدروں سے اعراض کی تلقین کی جاتی ہے:
 ’’اے نبیؐ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو،معروف کی تلقین کئے جائو اور جاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘ (الاعراف : ۱۹۹)
قرآن جہل کو امّ الامراض قرار دیتا ہے جس کی سنگینی سے یہ ناپائیدار زندگی تعفن کا شکار ہو جاتی ہے۔ آدمی جانور بن جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کے قعر عمیق میں گر کر حیات ابدی کی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن کی نظر میں وہ جہالت انتہائی سنگین قرار پاتی ہے جو کبر،ہٹ دھرمی اور توہم پرستی پر مبنی ہو۔ اس قسم کی جہالت کے علم بردار مادّی علوم و فنون کی نمایاں منزلوں کو طے کرنے کے باوجود دعوت کی لذت و شیرینی اور سحرانگیزی و اثر آفرینی سے نہیں پگھلتے اور اپنے موقف پر نظرثانی کو منافی شان سمجھتے ہیں۔ ان کی طرف سے بسااوقات مفاہمت کی پیشکش بھی ہوتی ہے۔ اسوئہ رسولؐ ہمارے سامنے ہے۔ کفر وشرک  کے علمبردار اور اساطین قریش سمجھوتوں کی پالیسی کے ذریعے دعوت پر قابو پانا چاہتے تھے لیکن اللہ رب العزت کو ان کی یہ ادا انتہائی ناپسند ہوئی تو اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کفر و جہالت کے ان علم برداروں کی تنبیہ کروائی:  ’’(اے نبیؐ! کہہ دو کہ) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔‘‘ (الکافرون ) حق کی سرشت میں ظہور وغلبہ ہے اور باطل کے لئے شکست و ہزیمت مقدر ہے: ’’ اے نبیؐ! اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ ‘‘ (الاسراء:۸۱) چنانچہ حق و باطل کی رزم گاہ میں دعوت اور داعی کی عظمت و خودداری کا تقاضا یہ ہے کہ فکرونظر کی جہالت پر مبنی معاہدوں اور سمجھوتوں سے بے نیازی برتے  اور  اعلان کر دے:   ’’ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ تم کو سلام ہے،ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔‘‘ (القصص :  ۵۵)دین اسلام ایک عظیم ترین امانت ہے جو کلمۂ طیبہ کے علم برداروں کے کاندھوں پر ہے۔ بے کم و کاست اپنی صلاحیت  و استعداد کے مطابق ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس امانت کو ان لوگوں تک پہنچائے جو اللہ رب العزت کی اس دولت عظمیٰ سے محروم ہیں۔ جوجتنا زیادہ ناواقف اور گم گشتۂ راہ ہے و ہ اتنا ہی زیادہ محتاج و مستحق ہے کہ اس تک اللہ و تبارک تعالیٰ کی یہ امانت روشن اور منزہ شکل میں پہنچائی جائے۔ حالات کے ناخوشگوار اور نامساعد ہونے کی بنا پر اگر انہیں حصولِ علم کی توفیق نہ ملی ہو یا قسّام ازل کی مشیت کے مطابق عقل و فہم کی نعمت سے محروم ہوں تو یہ اور بھی زیادہ لائق توجہ ہیں۔ نذیر و بشیر ہونے کی حیثیت سے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ یقین ہو جائے کہ مخاطب کے سامنے وہ خیروشر کے تمام گوشے کماحقہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے موقف پر مصر رہتا ہے اور اپنی ہی روش کو محبوب اور قابل تقلید سمجھتا ہے تو داعی کے لئے ایسے مدعو یا مخاطب سے اغماض و اعراض کا اقدام مناسب ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی شخص کو قرآن اصل جاہل قرار دیتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی تلقین کرتا ہے:  ’’ اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔‘‘ (الفرقان : ۶۳)  علم دولت بے بہا ہے جس سے جینے کا سلیقہ آتا ہے۔ دوسری طرف یہ کسی فرد و معاشرہ اور ملک و قوم کے معنوی وجود کی ضمانت بن کر اقوام عالم میں زندہ قوم کی حیثیت سے روشناس کرانے کا وسیلہ بھی بنتا ہے۔ یہی وہ نعمت ہے جو حق شناسی،تواضع و خاکساری اور حدود اللہ کے احترام کے زرّیں سبق سکھاتی ہے بشرطیکہ علم و دانش کی یہ متاع روح تقویٰ اور خشیت الٰہی سے مالا مال ہو۔ بصورت دیگر علم و دانش میں کوئی شخص ثریا کاہم نشیں بن جائے لیکن اگر اپنی زندگی کی شب تاریک کو روشن نہیں کر سکا اور خالق حقیقی کو پہچاننے سے قاصر رہا تو وہ  علم کی حصول یابی سے محروم ہے۔ اس کے بالمقابل جہل کا لفظ قرآن پاک میں ناواقفیت اور تعصب و تنگ نظری اور ضد وعناد کی بنا پر اپنے موقف پر جمے رہنے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور بلاشبہ جہل کے یہ دونوں معانی حق شناسی سے محرومی اور جادئہ مستقیم سے دوری پر منتج ہوتے ہیں۔ قرآنی تصریحات کے مطابق جہل بمعنی عدم واقفیت ایک اتفاقی امر و حادثہ ہے۔ جو شخص اس ناخوشگوار امر سے دوچار ہے،اس کے قبول حق کے امکانات روشن ہوتے ہیں بشرطیکہ متعلقہ امور و مسائل کے اسرار و رموز بے نقاب کر دیئے جائیں۔ اس کے برعکس وہ جہل جو تمام حقائق سے آشنا ہونے کے باوجود ضد و ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اپنے نظریہ  و عمل سے تمسک اختیار کرنے سے عبارت ہے،یہ انتہائی سنگین اور مہلک مرض ہے۔ اس کا تعلق فکر ونظریہ سے ہے۔ اسی جہل کو قرآن جاہلیت سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ فکری جہالت میں مبتلا افراد سے ان کے نظریہ وعمل کی تبدیلی کے لئے اصرار حکمت کے خلاف اور دعوت و داعی کی عظمت و شان کے منافی ہے۔ آج اگر فرد یا معاشرہ قرآن کے نظریۂ علم کو قبول کرتے ہوئے علم کی حقیقی روح سے اپنے آپ کو مزین کرلے اور جہالت کی تمام تر ظلمتوں کو خیرباد کہہ دے،بالخصوص تعصّب و تنگ نظری اور ضد و عناد کے دلدل سے نکل کر اپنا رخت سفر باندھ لے تو یہ بعید نہیں کہ فرد و جماعت،ملک و قوم بلکہ پورا معاشرہ انسانی حق و صداقت ،اخوت و محبت،اتحاد و اتفاق،وسعت فکروعمل اور خوش گوار اور شایان انسانیت تبدیلیوں کا روح پرور منظر پیش کر رہا ہو!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK