Inquilab Logo

خاموش ہوگیا ’گدّر‘ کا انقلابی ساز!

Updated: August 25, 2023, 6:48 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

آزادی کے بعد ٹیگور کے شاعر اور گایک (مغنی) گمادی وٹھل عرف ’گدّر‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے کو نہیں حاصل ہوئی۔ اُردو میں لفظ ’غدر‘ بغاوت، بلوہ اور جنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر انگریزی اخبارات اور دوسرے ذرائع سے یہ لفظ جس طرح عام ہوا ہے وہ ’گدّر‘ ہی ہے۔

Gadar
گدّر

ہندوستان کے الگ الگ علاقوں میں لوک گیت مقبول تو ہیں ہی ان لوک گیتوں نے علاقائی زبانوں کے شعری ادب کے علاوہ اُردو اور ہندی کے شعری ادب کو بھی متاثر کیا ہے مثلاً بنگال کے باؤل کے سریلے گیتوں کے اثرات رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری پر اور ’خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی‘ جیسے مصرعوں اور شعروں کے اثرات اُردو اور ہندی شاعری پر تلاش کئے جاچکے ہیں البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آزادی کے بعد ٹیگور کے شاعر اور گایک (مغنی) گمادی وٹھل عرف ’گدّر‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے کو نہیں حاصل ہوئی۔ اُردو میں لفظ ’غدر‘ بغاوت، بلوہ اور جنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر انگریزی اخبارات اور دوسرے ذرائع سے یہ لفظ جس طرح عام ہوا ہے وہ ’گدّر‘ ہی ہے حالانکہ وہ جس وضع قطع میں رہتے تھے، ناچتے گاتے پسینے میں شرابور ہو کر سامعین سے پوچھتے تھے کہ ’آپ کو محنت یعنی پسینے کی بو معلوم ہے‘ اور اس کے بعد ہزاروں لاکھوں سامعین کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کے لئے لفظ ’غدر‘ بھی صحیح ہے۔
 ان کی پیدائش آندھرا پردیش کے میڈک ضلع کے ایک گاؤں میں ۱۹۴۹ء میں ہوئی تھی اور انتقال ۶؍ اگست ۲۰۲۳ء کو حیدرآباد تلنگانہ میں ہوا۔ تلنگانہ کے قیام کے لئے انہوں نے کافی جدوجہد کی۔ ماؤ وادی، منڈل نواز، امبیڈکر وادی، اور بدھ ازم کی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ ایک ایسا شخص جس کے پیروں میں گھنگھرو بندھے ہوتے، کاندھے پر کالا کمبل، ساتھ میں لٹھ اور گلے میں ایک قسم کا رومال ہوتا اور وہ گھنگھرو اور ڈفلی کی آواز کے ساتھ پیغام دیتا کہ ریلا رے ریلا رے.... تو سننے اور دیکھنے والوں کی عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ آخری عمر میں انہوں نے ماؤ وادیوں سے کہہ دیا تھا کہ صرف طبقہ نہیں برادری بھی ضروری ہے اور ۲۰۱۸ء میں ووٹ ڈال کر یہ پیغام بھی دیا تھا کہ ’جمہوری انقلاب‘ بیلٹ کے ذریعہ ہی آئے گا خون خرابہ اور تخریب کے ذریعہ نہیں۔ اسی طرح ۲۰۱۷ء میں ’یدادری‘ کے مندر کے پجاری کی دعوت پر وہ مندر بھی گئے تھے حالانکہ ’گدّر‘ کی جدوجہد اور ادب برائے انقلاب کی تحریک کا آغاز مندروں پر اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے قبضے کے ردعمل کے طور پر ان کے والد کے ایک نیا مندر بنانے سے ہوا تھا۔ وہ مندر کی تعمیر کے ردعمل میں پیدا ہونے والے حالات کو بھولے نہیں تھے۔ اس کے سبب ۱۹۹۷ء میں ان کو پانچ گولی ماری گئی تھی۔ وہ بچ تو گئے تھے مگر ان کو ماری گئی کچھ گولیاں ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہو کر جسم میں ہی رہ گئی تھیں مگر ایک وقت آیا کہ انہوں نے گھنگھرو اتار دیئے، کمبل بھی الگ کر دیا، گلے کو بندھے ہوئے کپڑے سے بھی آزاد کر دیا۔ داڑھی بھی صاف کرا دی البتہ انقلابی تیور سے نجات نہیں پا سکے۔ موت سے صرف چار دن پہلے انہوں نے لکھا کہ ’’میرا نام گمادی وٹھل ہے گدّر میرے گیتوں کا نام ہے، اور میں عوام الناس کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہوں کہ صحت یاب ہو کر پھر آپ کے پاس آؤں گا، ثقافتی تحریک شروع کروں گا اور عوام الناس کا قرض چکاؤں گا۔‘‘
 اُردو کے بہت معروف اور مقبول شاعر مخدوم محی الدین بھی کمیونسٹ پارٹی اور تلنگانہ تحریک سے وابستہ تھے۔ انہوں نے انقلابی گیتوں کو غنائی لہجہ بھی عطا کیا تھا۔ جیل گئے تھے، عوام میں مقبول تھے مگر ان کی مقبولیت اور ’گدّر‘ کی مقبولیت میں فرق تھا۔ ’گدّر‘ نے ماؤوادی ہو کر ووٹ دیا اور بدھسٹ ہو کر ہندو مندر میں آشیرواد لینے گئے شاید اس لئے کہ وہ ایک مکمل ثقافتی انقلاب کے داعی تھے۔ ۸۰ء کے دہے تک وہ اپنے گیتوں میں جینے کی ترنگ پیش کرتے تھے۔ زندگی، موت، محنت اور محبت کے گیت گاتے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ زندگی ہے تو مشقت ہے۔ مشقت ہے تو نغمہ اور لے ہے۔ انہوں نے زمینداروں سے ٹکرانے کی بھی تحریک دی اور گیت گایا کہ؎
بندوقوں کے سامنے چلتے رہو رَے بھیّا
گولیوں کی مالا پہن لو رَے بھیّا
 بعد میں انقلاب ان کے جسم اور شاعری دونوں میں خون بن کر دوڑنے لگا۔ لیکن ان کی آواز نے بھی کرشمہ کر دکھایا، ان کو دیکھنے اور سننے والے دیوانگی کی حد تک ان سے پیار کرنے لگے۔ یہ عوام کا پیار ہی تھا کہ ۱۹۹۷ء میں پانچ گولیاں کھانے کے باوجود وہ بچ گئے تھے۔
 ۷۴؍ سال کی عمر میں جب انہوں نے آخری سانس لی وہ یہ پیغام دے چکے تھے کہ ہندوستان کا مقدر رائے عامہ کی ہمواری سے بدلے گا رائے عامہ کو نظرانداز کرنے سے نہیں اور جب یداوری کے پجاریوں نے انہیں مندر میں آنے کی دعوت دی تو انہوں نے مندر جا کر یہ پیغام بھی دیا کہ ندامت اور تلافی کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں بشرطیکہ ندامت اور تلافی کے نام پر عذر گناہ نہ کیا جائے۔
 آج کی صحافت، شاعری اور ادب کا المیہ یہ ہے کہ ان میں بیشتر وہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں جنہیں ضمیر کی تائید حاصل نہیں ہے۔ جس کے پاس دولت، شہرت، اقتدار ہے وہ صحافت، شاعری اور ادب کے دو چار علمبردار اپنی بغل میں لئے پھر رہا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان کو ادیب، صحافی، شاعر کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ آج کا معاشرہ شاید اسی لئے دم توڑتا اور سڑانہ سے بیمار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ ضمیر کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہی سلب کر لیا گیا ہے۔ جو لوگ ضمیر کے ساتھ زندہ رہنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلوانا چاہتے ہیں وہ بھوک، پیاس اور گولیوں سے تڑپ رہے ہیں لیکن یہی محرومی اور تڑپ لوگوں کو یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ زندگی وہی ہیں جو زندگی کو خطرے میں ڈال کر بھی دوسروں کو زندگی عطا کرتے ہیں۔ ’گدّر‘ زندہ رہیں گے کہ انہوں نے تاعمر یہی کیا۔ مر چکے ہیں وہ جو نااہلوں سے عطا بخشش پانے کے لئے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ اردو زبان کے لوک ادب کی روایت بڑی مستحکم ہے اس کے باوجود اس سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری شعری روایت ہیں کمر لچکانے اور بل کھانے والے تو بڑھتے گئے ہیں ایمان و انصاف کو شاعری میں ڈھالنے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتے گئے ہیں۔n

gadar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK