Inquilab Logo

دعوؤں کا عروج، کارکردگی کا زوال اور اس کا نتیجہ

Updated: February 26, 2023, 9:39 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

میڈیا وہ کام نہیں کررہا ہے جو کسی اور کو نہیں، اسی کو کرنا چاہئے مگر اس نے آنکھیں موند لی ہیں۔ وہ حکومت کے دعوؤں کے پس منظر میں جھانکتا بھی نہیں ہے کہ پہلے کیا کہا گیا تھا!

In the table related to Smart City, which is being presented from 2019
اسمارٹ سٹی سے متعلق جدول میں، جو ۲۰۱۹ء سے پیش کیا جارہا ہے

ملک  کی سب سے معتبر خبر رساں ایجنسی ، پی ٹی آئی نے بتایا ہے کہ دانشورانہ حق ملکیت کے جدول برائے املاک میں ہندوستان ۵۵؍ ملکوں کی فہرست میں ۴۲؍ ویں نمبر پر آگیا ہے۔ خبر میں اس بات کی ستائش کی گئی ہے کہ ملک میں بہتریٔ مقام کیلئے کیا کچھ کیا جارہا ہے مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ ۲۰۲۱ء میں ہندوستان ۴۰؍ ویں مقام پر تھا اور ۲۰۱۴ء میں ۲۵؍ میں سے ۲۵؍ ویں مقام پر۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس محاذ پر بہتری کے اقدامات کررہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ عالمی جدول میں ہماری پوزیشن بہتر نہیں ہورہی ہے؟
 اسمارٹ سٹی سے متعلق جدول میں، جو ۲۰۱۹ء سے پیش کیا جارہا ہے، ہندوستان کے چار شہروں کو اسمارٹ سٹی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ بنگلور، ممبئی، دہلی اور حیدرآباد۔ واضح رہے کہ اس جدول کیلئے شہریوں کا تحفظ، اُن کی صحت، اُنہیں حاصل مواقع، نقل و حمل کی آسانیاں اور طرز حکمرانی کو آنکا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ مگر یہاں بھی ہماری کارکردگی ناقص ہے۔ بنگلور ۷۹؍ ویں مقام پر تھا، ۹۳؍ پر آگیا، ممبئی ۷۸؍ ویں مقام پر تھا ۹۰؍ پر آگیا، دہلی ۶۸؍ پر تھا ۸۹؍ پر آگیا اور حیدرآباد ۶۷؍ پر تھا ۹۲؍ پر آگیا۔ جس طرح کا سیاسی ماحول ہے اُس میں ہمیں یہ تو کہا جائے گا کہ نئے ہندوستان میں ہمارے شہر کتنے عمدہ اور اسمارٹ ہوگئے ہیں مگر یہ نہیں کہا جائیگا کہ دُنیا ہمیں کہاں دیکھ رہی ہے اور ہم عالمی جدولوں میں کس طرح لڑھکتے جارہے ہیں۔
 مشہور جدیدہ اکنامسٹ کے عالمی جدول برائے طرز زندگی (زندگی گزارنے کے امکانات، لِیو ایبی لٹی) میں صرف دو ہندوستانی شہروں کو جگہ ملی مگر درجہ بندی میں وہ کم ہوگئے۔ دہلی کا نام اس میں شامل ہے جو ۱۱۰؍ ویں مقام سے ۱۱۸؍ ویں مقام پر آگیا۔ ممبئی کا نام بھی اس میں شامل ہے جو ۱۱۵؍ سے لڑھک کر ۱۲۴؍ ویں مقام پر پہنچ گیا۔ واضح رہے کہ ایسے کئی جدول وہاں تیار ہوتے ہیں جہاں ہم خود کو بہت اچھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً دیووس۔ ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی معاشی مقابلہ جاتی جدول میں ہم ۴۰؍ ویں مقام سے پھسل کر ۶۸؍ ویں مقام پر پہنچ گئے۔ اس کے جدول برائے صنفی تفاوت میں بھی ہمارا تنزل برقرار رہا۔ اس انڈیکس میں ہم ۱۱۴؍ ویں منزل سے ۱۳۵؍ ویں منزل پر پہنچ گئے۔ 
 ہم سے اکثر کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا ڈجیٹل نیٹ ورک عمدہ بھی ہے اور ارزاں بھی مگر جو نہیں کہا جاتا وہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی یعنی انٹرنیٹ شک ڈاؤن کے معاملے میں ہم عالمی سطح پر پہلے مقام پر ہیں۔ اتنا ہی نہیں، پوری دُنیا میں حکومت کے ذریعہ انٹرنیٹ بند کرائے جانے کے معاملے میں بھی ہمیں کو سبقت حاصل ہے۔    
 جہاں تک قانون کی پاسداری (رو‘ل آف لاء) کا معاملہ ہے ہم ۶۶؍ ویں مقام سے ۷۵؍ ویں مقام پر آگئے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے آس پاس کیا ہورہا ہے، کس طرح ہجومی تشدد برپا ہورہا ہے، مرکزی ایجنسیاں ’’سرگرم عمل‘‘ ہیں، بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اپوزیشن کیخلاف پولیس کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں اور دیگر ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ زور زبردستی اور اُن کا قیدوبند میں ڈال دیا جانا وغیرہ، تو حیرت نہیں ہوتی کہ ۶۶؍ سے ۷۵؍ ویں مقام پر کیسے آگئے۔ 
 آزادیٔ اظہار رائے کے معاملے میں ہم کتنے ہی مقدس الفاظ کا استعمال کریں، ٹویٹر پر پابندی اور پیغامات ہٹانے کی مانگ کے واقعات جو یک عددی ہوا کرتے تھے اب ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں حکومت کی تنقید اور وزیر اعظم کے بارے میں کچھ کہنا ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ 
 اب آئیے کاروبار کرنے کی آسانی یا سہولت (ایز آف ڈوئنگ بزنس)۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ گلوبل اکنامک فریڈم انڈیکس میں قانون کی عملداری، حکومت کا حجم، کاروبار کے سلسلے میں ضروری اجازت نامے حاصل کرنے کی آسانی اور بازار کا کھلا پن وغیرہ کی صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس انڈیکس میں ہم ۱۲۰؍ سے ۱۳۱؍ ویں مقام پر آگئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہنا تو بہت آسان ہے، اصل کسوٹی کرکے دکھانے کی ہوتی ہے۔ چونکہ جو کچھ بھی کہا جاتا ہے اُس پر نہ تو میڈیا توجہ دیتا ہے اور اس کا محاسبہ کرتا ہے نہ ہی اس کا کوئی اور نظم ہے اس لئے جو بات ایک بار کہی وہ احتساب کے بغیر بار بار کہی جاتی ہے۔ 
 اُن ملکوں کے جدول میں جہاں استحکام کی کمی پائی جاتی ہے اور جس کا ماضی میں نام ’’ناکام ممالک کا جدول‘‘ تھا اُس میں بھی ہم ۲۰۱۴ء سے مسلسل گھسٹ رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ’’ناکام ملکوں کا جدول‘‘ تیار کرنے کیلئے کسی ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی، معاشی صورت حال اور سیاسی منظرنامے کو دیکھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان معیارات پر ہم اگر پھسل گئے ہیں تو کیوں؟جس ایک جدول کا حوالہ حکومت کے ذریعہ بار بار دیا جاتا تھا وہ ورلڈ بینک کے ذریعہ تیار کیا جانے والا ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ تھا مگر بدقسمتی سے وہ اب تیار نہیں کیا جاتا۔
 کہنے سننے، غور کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے کے اتنے معاملات ہیں کہ آپ لکھتے چلے جائیے۔ مَیں نے چند جدولوں سےصرف نظر کیا ہے ورنہ یہ مضمون خاصا طویل ہوجاتا۔ اس کے بعد میرے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ یہ جو اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں، وہ مَیں نے اپنی نئی کتاب کیلئے حاصل کئے ہیں۔ مشکل یہ ہوگئی ہے کہ جب بھی کسی کتاب کا نیا ایڈیشن چھپنا ہوتا ہے مجھے اعدادوشمار پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے اور ہر بار تبدیلیاں ناگزیر ہوجاتی ہیں کیونکہ ہم متعدد محاذوں پر پچھڑ رہے ہیں۔ اس زوال کو روکا جاسکتا ہے بشرطیکہ جو کچھ بھی کہا جاتا ہے اُسے حقائق کے آئینے میں دیکھا جائے اور ناپا تولا جائے۔ مگر، ہمارے ملک میں یہ ذمہ داری کوئی نہیں نبھا رہا ہے۔ 
 سب سے زیادہ حیرانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ رپورٹس پیش کرتے وقت میڈیا اُن کے پس منظر میں نہیں جھانکتا کہ پہلے کیا کہا گیا تھا۔ اسی لئے اس کی ساکھ بُری طرح مجروح ہوئی ہے۔n

media Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK