Inquilab Logo

اُردو کی تدریس میں اساتذہ کا کردار بنیادی ہے

Updated: May 01, 2023, 3:32 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اردو پڑھانے والے اساتذہ سے ان کے طریقۂ تدریس سے لے کرانہیں پیش آنے والی دشواریوں تک کے موضوعات پر کی گئی گفتگو ملاحظہ کریں۔ پہلی قسط

Classroom is the most important in teaching Urdu language
اردو زبان کی تدریس میں کلاس روم کی اہمیت سب سے زیادہ ہے

دنیا کے تمام ماہرین تعلیم اس بات پرمتفق ہیں کہ مادری زبان میں بچّوں کی تعلیم سے سب سے بہتر نشوونما اور ترقی ہوتی ہے۔ اسی  لئے تعلیم سے متعلّق کتابوں اور کمیشنوں کے دستاویزات کے ساتھ ساتھ مرکز اور ریاستوں کے محکمۂ تعلیم میں یہ سفارشیں موجود ہیں کہ تعلیم کا ذریعہ مادری زبان کو بنایا جائے۔اردو زبان جو کہ صرف ہماری مادری زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہماری تہذیب و ثقافت سے ہے،کی تدریس نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ فی زمانہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اردو کی تدریس اسکولوں میں  ہو تو رہی ہے لیکن یہ صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جارہی ہے۔ زبان سکھانے ، اس کے قواعد ، تلفظ، جملوں کی بناوٹ و بندش اور ذخیرۂ الفاظ پر وہ محنت نہیں ہو رہی ہے جو ماضی کے اساتذہ کا خاصہ تھا۔  ہر چند کہ آج کے دور میں بھی ایسے اساتذہ کی کمی نہیں ہے جو اپنے طلبہ کو اردو سکھانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتےلیکن  زبان و بیان کی تدریس کے سلسلے میںکہیں نہ کہیں ایک خلاء موجود ہے جسے پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس تمام پس منظر میں ہمارے اساتذہ پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو زبان کی تدریس کوطلبہ کے لئے آسان اور موثر بناتے ہوئے زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں۔ اردو کے اساتذہ سے گفتگو کا ہم نے یہ نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں ان اساتذہ سے ان کے طریقۂ  تدریس سے لے کر انہیں پیش آنے والی دشواریوںتک  تمام باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
  انجمن اسلام ڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ والا گرلز اسکول و جونیئر کالج کی لیکچرار انیسہ انصاری جو گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں اردو کی تدریس کا فریضہ انجام دیتی ہیں، نے بتایا کہ اردو زبان پڑھانے میں اساتذہ کا کردار بنیادی ہے۔ وہ اپنی کلاس کی طالبات کو تدریس کے روایتی طریقے سے پڑھاتی ہیں لیکن ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرتی ہیں۔ اس سےکسی بھی مضمون کی تدریس کافی آسان ہو جاتی ہے۔   انہوں نے بتایا کہ طالبات کو گرامر پڑھانے کے لئے  انہیں خصوصی طور پر ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑتاہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ زبان کی تدریس صرف ٹیچر کے ہاتھ میں نہیں ہو تی ہے۔ ہمارا معاشرہ جیسا ہو گا کہ ویسا ہی انسان تعمیر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بہت سے بچے آتے ہیں جو ’ہیں ‘ اور ’ہے‘ میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔ وہ بولتے بھی ویسا ہی ہیں اور لکھتے بھی ویسا ہی ہیں۔ان طلبہ پر خصوصی دھیان دیا جاتا ہے تاکہ وہ زبان کی اس باریکی کو سمجھ سکیں۔ انیسہ انصاری کے مطابق انہیں اردو کی تدریس میں نصابی کتاب سے بڑی مدد ملتی ہے کیوں کہ یہ نصاب طلبہ کی زباندانی کی ضرورت کے مطابق ہی مرتب کیا جا تا ہے۔ اب یہ ٹیچر کی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ اس نصاب سے بچوں کو کتنا قریب کر پاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نصابی کتاب میں سبق کے آخر میں نئے الفاظ دئیے جاتے ہیں ، ان کے مطلب بھی بتائے جاتے ہیں ، ساتھ ہی ان کے تلفظ کا طریقہ بھی بیان ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں سوچنے سمجھنے کے لئے بھی بھرپور مواد دیا جاتا ہے۔  ریاضی ، انگریزی یا سائنس کے ٹیچر کو ملنے والی اہمیت سےاردو کے ٹیچر کو ملنے والی اہمیت کم ہو گئی ہے ؟ اس سوال پر انیسہ انصاری نے کہا کہ اسکولوں کی سطح پر تو ایسا کہنا ٹھیک نہیں ہے لیکن محکمہ تعلیم کے رویے سے یہ واضح ہو تا ہےکیوں کہ انہوں نے ۱۱؍ ویں اور بارہویں میں کسی بھی زبان کے مضمون کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ’آپشنل ‘ کردیا ہے۔یعنی آپ آئی ٹی لے لو یا اردو پڑھ ، آئی ٹی لے لو یا مراٹھی یا ہندی پڑھ لو ۔ اس رویے سے واضح ہوتا ہے کہ  ارباب اقتدار کا زور زبان کی تدریس پر نہیں ہے، انہیں صرف ڈاکٹرس ، انجینئرس اور تکنیکی شعبوں میں کام کرنے والے لوگ چاہئیں لیکن میرا سوال ہے کہ یہ لوگ جب زبان ہی نہیں سیکھیں گے تو اظہار خیال کیسے کریں گے؟ آپ کسی کمپنی کے سی ای او بھی بن جائوگے لیکن اپنی بات ملازمین تک پہنچانے کے لئے آپ کو اسی زبان کی ضرورت پڑے گی۔ 
 انجمن اسلام کرلا بوائز ہائی اسکول کےمعلم عبد الرحیم ریاض احمدجو ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کو اردو پڑھاتے ہیں، نے کہا کہ اردو  زبان کی تدریس کے لئے ہمارے اساتذہ نے جو طریقے متعین کردئیے ہیں وہ بہترین ہیں لہٰذا ہم بھی اسی طریق کار پر عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اردو زبان کی تدریس کا بنیادی طریقہ یہی ہے کہ طلبہ کو مشکل الفاظ کے معنی سمجھائےجائیں، انہیں نئے الفاظ یاد کرنے کی مشق کروائی جائے، ان کا تلفظ اور اِملا درست کیا جائے۔ عبد الرحیم سر کے مطابق اس کے علاوہ ایک بہت کارگر طریقہ مضمون نویسی ہے جس کی مشق وہ  اپنی کلاس میں اکثر  طلباء سے کرواتے ہیں لیکن یہاں پرمسئلہ وقت کا ہو تا ہے کیوں کہ  ۳۵؍ سے ۴۰؍ منٹ کے پیریڈ میں نصاب مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء پر اس زاویے سے دھیان دینا مشکل ہوتا ہے۔  انہوں نے بتایا کہ انجمن اسلام گروپ آف اسکولس کے تمام اسکولوں میں ہرسبجیکٹ کے اساتذہ مل کر منصوبہ بندی کرتے ہیں جو سال کے شروع میں ہوجاتی ہے اور اس میں زباندانی پر خصوصی توجہ رہتی ہے۔ اس لئے طلبہ کی ذہنی استعداد کے لحاظ سے اسباق کی تدریس کے طریقے پر غور کیا جاتا ہے اور اپنا لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے ۔عبد الرحیم سر نے یہ اہم بات بھی بتائی کہ انجمن اسلام کے اسکولوں میںکورونا  کے دور  سے قبل ڈاکٹر شفیع شیخ  اردو کےاساتذہ کے لئے ورکشاپ منعقد کرتے تھے جس میں گروپ کے تمام اسکولوں کے اردو کے اساتذہ نہ صرف شامل ہوتے تھے بلکہ اس ورکشاپ سے خاصے مستفید ہوتے تھے۔نصاب سے مدد ملنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ نصاب اپنے آپ میں مکمل دستاویز ہےلیکن اس میں ایک چیز کی کمی کھلتی ہے اور یہ ہے کہ اب طلبہ پر ہجّے کرکے پڑھنے پر زور نہیں دیا جاتا ہےبلکہ انہیں پیرا گراف دے دیا جاتا ہے جس میں سے پڑھ کر انہیں جواب لکھنا ہوتا ہے۔ یہ کام طلبہ تبھی کرسکیں گے جب انہیں درست طریقے سے پڑھنا آتا ہو۔ ہمارے زمانے میں اساتذہ ہجے کرواکر پڑھنا سکھادیتے تھے اور اسی درمیان طلبہ تلفظ سے بھی آگاہ ہوجاتے تھے۔ اب یہ طریقہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے حالیہ دور میں زبان و بیان کی تدریس میں آنے والی سب سے بڑی پریشانی کورونا کے دوران اسکول بند ہونے کو قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے ۲؍ سال تک اسکول بند رہے اور جو بچے (مثال کے طور پر) چوتھی میں تھے اب وہ ساتویں میں آگئے لیکن ان کی ذہنی استعداد اب بھی چوتھی کے طالب علم کے برابر ہے۔ ان طلبہ کو ساتویں کا نصاب پڑھانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ انہیں ’پک اپ ‘ کرتے کرتے ۴؍ سے ۵؍ سال لگ جائیں گے ۔کورونا کے لاک ڈائون نے ہماری نسلوں کا یہ  بہت بڑا نقصان کیا ہے جسے ہم لاشعوری طور پر بھی محسوس نہیں کر پا رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK