Inquilab Logo

شیوراج سنگھ چوہان کا دُکھ

Updated: October 20, 2023, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ریاستی اسمبلیوں کا الیکشن اگر راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں ہونے جارہا ہے تو مدھیہ پردیش (ایم پی) کیلئے بھی پولنگ کی تاریخیں ظاہر کی جاچکی ہیں مگر جتنی اہمیت ایم پی کو مل رہی ہے اُتنی دیگر ریاستوں کو نہیں۔

Shivraj Singh Chauhan. Photo: INN
شیوراج سنگھ چوہان۔تصویر:آئی این این

 ریاستی اسمبلیوں کا الیکشن اگر راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں ہونے جارہا ہے تو مدھیہ پردیش (ایم پی) کیلئے بھی پولنگ کی تاریخیں ظاہر کی جاچکی ہیں مگر جتنی اہمیت ایم پی کو مل رہی ہے اُتنی دیگر ریاستوں کو نہیں۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ریاست روزانہ کی خبروں پر اس طرح چھائی رہے گی جیسے چند سال پہلے ’’ویاپم‘‘ گھوٹالہ چھایا ہوا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی وجہ شیو راج او راُن کے اقتدار کے خلاف زوروں سے چل رہی وہ لہر ہے جو ’’اقتدار مخالف لہر‘‘ یا ’’اینٹی اِن کمبَنسی‘‘ کہلاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ  یہ لہر اچانک نہیں چلی۔ اِس میں ’’ماما‘‘ کہلانے والے وزیر اعلیٰ  اور اُن کی حکومت کی مسلسل ناقص کارکردگی اور چھوٹے بڑے بے شمار گھپلوں کی طویل داستان پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے چوہان حکومت کو ۲۰۱۸ء میں عوام نے مسترد کردیا تھا مگر جیوترا دتیہ سندھیا کی کانگریس سے بغاوت کی وجہ سے کمل ناتھ حکومت کا تختہ پلٹ گیا۔ عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ بی  جے پی نے اُن کی منتخب کی ہوئی حکومت کو بے دخل کیا تھا؟
 ۲۰۱۸ء کے الیکشن کے بعد کمل ناتھ سرکار کےپندرہ ماہ کو چھوڑ دیا جائے تو شیوراج کو تقریباً دو دہائی کا طویل عرصہ ملا جس میں وہ حسن ِ کارکردگی کا نقش قائم کرسکتے تھے مگر واجپئی اور اڈوانی کے دور کے اِس سیاستداں نے، جنہیں ۲۰۱۴ء میں اُمیدوار برائے وزارت عظمیٰ کے طور پر دیکھا  جارہا تھا،  خدمت ِ عوام کا سنہرا موقع گنوا دیا اور عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے اُن میں بے دلی اور بددلی پیدا ہونے دی۔ اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے اُنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی گڈ بُک میں رہنے کی جدوجہد شروع کی  اور خودداری  اور عزت نفس تک کو داؤ پر لگادیا۔ اپنے اقتدار کیلئے اس حد تک جانا قطعی غیر مناسب تھا مگر شیوراج سنگھ کو بالکل بھی تردد نہیں ہوا۔ اُنہوں نے مودی کو غیر معمولی شخصیت قرار دے کر اپنے تحفظ کی کوشش کی مگر مودی اور امیت شاہ کی بی جے پی ’’نئی بی جے پی‘‘ ہے جس میں پارٹی کے پُرانے مقبول لیڈروں کیلئے جگہ یا تو ہے ہی نہیں   یا بہت تنگ ہے۔ 
 یہ سب کرتے ہوئے شیو راج شاید اس سیاسی اُصول کو بھول گئے کہ اقتدار عوام کا مرہون منت ہوتا ہے، پارٹی اور اس کے اعلیٰ لیڈروں کا نہیں۔پارٹی اور اعلیٰ لیڈروں کو خود بھی عوام ہی کے درمیان جانا پڑتا ہے، وہ عوام سے بالاتر نہیں ہوتے۔ یہ جمہوریت کی بہت بڑی خوبی ہے۔ سیاستدانوں کو عوام کا آشیرواد مل جائے تو اُن کی پرواز بلند تر ہوسکتی ہے، نہ ملے تو زمین پر پَر پھڑپھڑانا بھی دوبھر ہوجاتا ہے۔ بی جے پی اعلیٰ کمان نے شیو راج کے خلاف عوام کے موڈ کا کئی سال تجزیہ کیا اور جب یہ نتیجہ برآمد ہونے  لگا کہ اُن کے چہرے پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا تب پارٹی چوکنا ہوگئی۔ ۲۵؍ ستمبر کو اُن سے کنارہ کشی کا پلان جگ ظاہر ہوگیا جب بھوپال کی رَیلی میں وزیر اعظم مودی نے نہ تو شیو راج کا تذکرہ کیا نہ ہی اُن کی جاری کردہ کسی اسکیم کا۔ اُن کا نام بھی چوتھی لسٹ میں آیا جسے پہلی لسٹ میں ہونا چاہئے تھا۔ اِن دنوں ایم پی میں لگی  انتخابی ہورڈنگز میں وزیر اعظم مودی کی تصویر نمایاں ہے، بقیہ تمام لیڈر ایک ہی صف میں ہیں، گویا شیوراج کی حیثیت بہت سوں میں سے ایک کی ہوگئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذِلت پر ذِلت اُٹھانے کے باوجود ہوس ِ اقتدار کے اسیر ہیں۔ الیکشن بعد اگر اُنہیں مارگ درشن منڈل بھیجا گیا تو تعجب نہیں ہوگا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK