Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کی لرزہ خیز صورتحال اور اطفال غزہ

Updated: February 07, 2024, 1:33 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

غزہ، غزہ، غزہ۔ دُنیا کے ایک ایک گوشے سے انسانی اقدار پر یقین رکھنے والوں کی آواز تسلسل کے ساتھ اُٹھ رہی ہے، فریاد کی جارہی ہے اور مختلف ملکوں کے حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اب تک تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 غزہ، غزہ، غزہ۔ دُنیا کے ایک ایک گوشے سے انسانی اقدار پر یقین رکھنے والوں  کی آواز تسلسل کے ساتھ اُٹھ رہی ہے، فریاد کی جارہی ہے اور مختلف ملکوں  کے حکمرانوں  کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اب تک تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں  ہوا ہے۔ اس کے برخلاف، جنگ کے نتائج منظر عام پر ہیں  اور آج سے نہیں  جنگ شروع ہونے کے چند روز بعد ہی سے ہیں ۔ دُنیا کی اس سب سے بڑی کھلی جیل پر ہونے والی اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے مجموعی طور پر ساڑھے ستائیس ہزار افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں  جن میں  بڑی تعداد خواتین اور بچوں  کی ہے۔ یہ اس لئے ہوا ہے کہ ہتھیاروں  پر یقین رکھنے اور اُنہی کی پرستش کرنے والی طاقتیں  انسانی درد کو نہیں  سمجھ سکتیں ۔ اِس درد کو وہ حکومتیں  بھی نہیں  سمجھ سکتیں  جن کے نزدیک اقتدار اور مادّی وسائل سے بڑھ کر کچھ نہیں  ہے۔ یہ لوگ ستائیس ہزار نہیں  پچاس ہزار افراد کو بھی موت کے غار میں  دھکیل سکتے ہیں  کیونکہ جسے ایک جان کی قدروقیمت کا احساس نہیں  اُسے  ہزاروں  جانوں  سے کھلواڑ میں  تکلف اور پس و پیش نہیں  ہوتا۔ یونیسیف کی جانب سے موصولہ اطلاع کے مطابق غزہ میں  کم از کم سترہ ہزار بچے ایسے ہیں  جن کی کوئی سرپرست نہیں  ہے۔ ان کے سرپرست یا تو فوت ہوچکے ہیں  یا نامعلوم جگہ پر پناہ گزیں ہیں ۔ انہیں  ڈھونڈ نکالنا فی الحال ممکن نہیں ۔ یونیسیف کے الفاظ میں : ’’اِس وقت غزہ، بچوں  کیلئے دُنیا کی سب سے خطرناک جگہ ہے۔‘‘   
 فوت ہوجانے والے بچوں  کا جتنا افسوس کیا جائے کم ہے مگر زندہ بچ رہنے والوں  کا ایک ایک لمحہ کیسے گزر رہا ہوگا اس کا اندازہ کوئی نہیں  کرسکتا۔ چاروں  طرف ملبہ ہے، اسرائیلی بمباری ہنوز جاری ہے، لوگ پریشان ہیں ،کھانے کی اشیاء اور پینے کے پانی کی قلت ہے، بقول یونیسیف قحط جیسی صورت حال زیادہ دور نہیں  ہے، مصیبت زدگان کیمپوں  میں  رہائش پزیر ہیں  جنہیں  یہ علم نہیں  کہ جنگ بندی کا اعلان ہوگا یانہیں  ہوگا، اُن کی زندگی کسی حد تک معمول پر آئیگی یا نہیں ۔ 
  غزہ کے زندہ بچ رہنے والے بچے بدترین جبر کے ماحول میں  سانس لے رہے ہیں ، ان میں  سے کئی علیل ہیں ، کئی ایسے ہیں  جو اپنے اطراف پھیلے ہوئے حالات کو ذہنی و نفسیاتی طور پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں  ہیں ، صدمے کی حالت میں  ہیں ، خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں  اور اُن کے سر پر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں  ہے۔ماں  باپ ساتھ نہیں  ہیں ، وہ اس دُنیا میں  ہیں  بھی یا نہیں  کوئی نہیں  جانتا، زندگی میں  دوبارہ اُن سے ملاقات ہوسکے گی یا نہیں  اس کا بھی کسی کو علم نہیں ، وہ اسکول تباہ ہوچکے ہیں  جن میں  وہ پڑھتے تھے، وہ گلیاں  نہیں  رہیں  جن میں  وہ کھیلتے تھے، نگاہیں  اُن ہمجولیوں  کو تلاش کررہی ہیں  جن کے ساتھ اُن کا فارغ وقت گزرتا تھا۔ یہ ہزارو ں  بچے نہیں ، مسائل و مصائب کی ہزار داستانیں  ہیں ۔ ان کا حال بھی غیر محفوظ ہے اور مستقبل بھی۔ یہ تو طے ہے کہ جس طرح کی زندگی یہ نونہال جی رہے تھے، دوبارہ میسر نہیں  آئیگی مگر اتنی کوشش تو بہرصورت ہوسکتی ہے کہ انہیں  مزید پریشانیوں  سے بچا لیا جائے۔ یہ تبھی ہوگا جب اقوام عالم تل ابیب کی سفاک  حکومت پر فی الفور دباؤ ڈالیں ، جنگ روکیں ، جنگ سے متاثرہ عوام کیلئے بہتر زندگی کا سامان مہیا کرائیں  اور اگر اسرائیل اُن کی نہ سنتا ہو تو اُس کا ہر طرح سے بائیکاٹ کریں  یا اُسے سبق سکھانے کے دیگر طریقوں  کو آزمائیں ۔ دیگر ملکوں  کا یہ بھی فرض ہے کہ غزہ کے اِن بچوں  کو کم از کم بھوک، پیاس اور بیماریوں  سے بچا لیں  ۔ 

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK