Inquilab Logo

تیسری مخلوق

Updated: October 11, 2020, 11:42 AM IST | Prof Syed Iqbal

روبوٹ چاہے جتنی ترقی کرجائیں، دنیا کا کاروبار چلانے کیلئے انسان ہی درکار ہوں گے۔ وال مارٹ کی پانچ سو شاخوں میں کام کرنے والے ہزاروں روبوٹ چاہے سامان لاد لاد کر الماریوں اور شورم میں سجالیں مگر ان کے پاس نہ انسانوں کی صورت ہے ، نہ اظہار کیلئے جذبات ۔ یہ آج بھی ایک ڈبہ نظر آتے ہیں جن کے پاس مسکراتا ہوا چہرہ ہوتا ہے، نہ محبت بھری آنکھیں ۔ کاش روبوٹ کے خالق اس بات کا اقرار کرلیں کہ جس خالق حقیقی نے انسان بنائے ہیں، دنیا کے انجینئر اس کا عشر عشیر بھی نہیں بناسکتے

Robot - Pic : INN
روبوٹ ۔ تصویر : آئی این این

جاپان میں ایک بھکشو ہیں، تینشو گھیٹو نام ہے، نہایت سادہ مزاج اور عبادت گزار۔ اپنی زندگی بدھ مت کی تبلیغ کیلئے وقف کردی ہے۔ کمیونٹی کے عبادت خانے کے منتظم ہیں اوراپنے لوگوں میں بے حد پسند کئے جاتے ہیں۔ کمیونٹی ہال میں مہاتما بدھ کی قد آدم مورتی کے سامنے جب وہ آنکھیں بند کئے عبادت میں مشغول رہتے تو ان کے ذہن میں اکثر یہ سوال اُبھرتا کہ اگر مہاتما سے دوبدوبات ہوجاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ ہم اُن سے اپنی مشکلات بیان کرتے، مرادوں کا ذکر کرتے اور ان سے مبارک کلمات سن کر کس قدر خوش ہوتے۔ بجائے اس کے ہم ان کے سامنے شمعیں جلاتے ہیں اور چند ساعتوں تک آنکھیں بند کرکے خاموش کھڑے رہتے ہیں اور بس۔ اس دوران انہیں پتہ چلا کہ ’جعلی ذہانت‘  (Artificial Intelligence) نامی کوئی شئے دریافت ہوئی ہے جس کے ذریعہ مشینوں کی دنیا میں انقلاب آگیا ہے لہٰذا وہ اس کی حقیقت جاننے کیلئے اوسا کا یونویرسٹی پہنچے ۔ وہاں کے سائنس دانوں سے رابطہ قائم کیا اور وہاں بھی یہی سوال دُہرایا کہ مہاتما بدھ بولنے لگیں تو ان کے پیروکاروں کو جیتے جی جنت مل جائے گی۔ سائنس دانوں نے ان کی بات سنی ، کچھ نے حیرت کا اظہار کیا اور کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ چند برسوں کی محنت کے بعد سائنسدانوں نے انہیں ایک ایسا ’خدا‘ دے ہی دیا جو اپنے ماننے والوں کو دیکھتا بھی ہے اور خطبہ بھی دیتا ہے۔ تینشوپرامید ہیں کہ کل ہوسکتا ہے یہ روبوٹ ان سے باتیں کرنے لگے اوران کے سوالوں کے جواب دینے کے بھی قابل ہوجائے۔
 ویسے کچھ سیانوں نے گڑیا نما روبوٹ بنانے کی کوششیں شروع کردی  ہیں۔ سان ڈیاگو کی ایک کمپنی اس پر برسوں سے کام کررہی ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ جلد ہی ایک ایسی حسین وجمیل لیڈی روبوٹ بنانے میں کامیاب ہوجائے گی جسے دیکھتے ہی لوگ اس پر عاشق ہوجائیں گے۔  اس قتالہ کی آنکھوں میں خمار اور ہونٹوں پر پیار ہوگا یعنی بات کرے گی تو پھول جھڑیں گے اور وہ اتنی پرکشش اور جاذب نظر ہوگی کہ کسی بھی گاہک کو چار تا پانچ ہزار ڈالر دے کر اسے اپنانے میں ذرہ برابر تکلف نہیں ہوگا۔ سلی کون کی مدد سے اس کی جلد صاف وشفاف بنائی گئی ہے، چہرے پر تاثرات پیدا کئے گئے ہیں اوراس کی آواز بھی مسحور کن ہے۔ بس ایک کمی ہے۔ اس کے بنانے والے محبت کے جذبات اور اعتماد کی دولت اسے نہیں دے سکے ورنہ حضرتِ انسانی اسے بھی پروگرام کردیتے۔
  ایک ذاتی بات ،  ان گنہگار آنکھوں نے حال ہی میں چینی رقص کے پروگرام کی ایک کلپ دیکھی ہے۔ اس بزم رقص و سرور کو دیکھنے کیلئے شائقین گھنٹوں قطار میں کھڑے تھے اور پانچ سو یووان کے ٹکٹ خرید کر لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔ اسٹیج پر ایک نوجوان جوڑا  رومانٹک موسیقی کے پس منظر میں دیوانہ وار رقص کرتا ہے۔ مردوجاہت کا نمونہ ہے اور رقاصہ دل کشی کا مرقع۔ جوں جوں رقص تیز ہوتا جاتا ہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں اور جب اعلان ہوتا ہے کہ مسحور کن رقص کرنے والا جوڑا انسان نہیں بلکہ روبوٹ ہیں تو ہال تالیوں سے گونجنے لگتا ہے۔
  روبوٹ دراصل ایک صدی قبل زیکوسلواکیہ کے ایک ڈراما نویسKarl Capak کا تخلیق کردہ ایک مشینی کردار  تھا جو انسانوں کی شکل میں نمودار ہوکر انسانی بستی میں رہنے لگا تھا۔ بستی والوں کیلئے اس کی محبت وہمدردی ایسی بے مثل تھی کہ کسی کو گمان تک نہیں گزرا کہ وہ کوئی انسان نہیں بلکہ روبوٹ ہے۔ جوں جوں ڈراما آگے بڑھتا جاتا ہے، روبوٹ کی بدمعاشیاں عیاں ہونے لگتی ہیں اور ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ بستی کے سارے انسانوں کو قتل کرکے فرار ہوجاتا ہے۔ بعد کے دنوں میں سائنسدانوں نے اس مشین کو جو انسانوں کے حکم پر کام کرتی ہے، روبوٹ کا  نام دیا ۔ سائنس فکشن میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اوراس کردار پر فلمیں بھی بنیں۔Terminater میں اسے نیک کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور Star Wars میں اس کی منفی صلاحیتیوں کو اجاگر کرکے انسانوں سے اس کی جنگیں بتاتی گئیں۔ اس وقت تک لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ روبوٹ پردۂ سیمیں کی خیالی زندگی سے نکل کر ہماری حقیقی زندگی میں داخل ہوجائے گا۔ لیکن آج یہی روبوٹ کھیتوں میں کام کررہے ہیں، تعمیراتی پروجیکٹ کا حصہ ہیں، صنعت کاروں کی ضرورت بن چکے ہیں اور نظام صحت کی کامیابی میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کہیں وہ پھل پھول چننے کا کام کرتے ہیں تو کہیں فیکٹریوں میں مصروف کار نظر آتے ہیں، کہیں گوداموں سے سامان اٹھانے پر مامور ہیں تو کہیں سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں۔کہیں خوردنوش کے سامان کی سپلائی کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اسپتالوں میں جراثیم کش دوائیاں چھڑکتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں مویشیوں کا دودھ دوہتے ہیں توکبھی سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اور ریڈیائی آلائش سمیٹتے ہیں۔ صنعت کاروں کا خیال ہے کہ Repetitive کام کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کے ٹوٹنے پھوٹنے اور زخمی ہو جانے کا بھی سوال نہیں اٹھتا۔ توکیا ہم انہیں انسانوں اور جانوروں کے بعد کرہ ارض کی تیسری مخلوق سمجھ لیں؟ جی ہاں!کیونکہ یہ کوئی سائنس فکشن نہیںبلکہ حقیقت ہے۔ خواہ ہم ان کی موجودگی پر حیرت کریں یا ان کی مخالفت پر اُترآئیں مگر روبوٹ ہمارے کاموں کی ہوبہو نقل کرنے میں اتنی مہارت حاصل کرچکے ہیں کہ انہیں انسانوں کا نعم البدل سمجھا جانے لگا ہے۔
 روبوٹ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم آج ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں مشینوں کے بغیر جینا محال ہے۔ یہی دیکھئے کہ ہمارے بچوں نے قلم دوات تو پہلے ہی طاق پر رکھ دی تھی اب ہاتھوں سے لکھنا بھی چھوڑ دیا۔ کمپیوٹر پر لکھتے ہیں اور بٹن دبا کر اپنی تحریر دوسرے کمپیوٹرمیں منتقل کردیتے ہیں اوراس پیغام کو وصول کرنے والا بندہ بھی اسکرین پر اصلاح کرکے کمپیوٹر کے راستے اسے لوٹا دیتا ہے۔ سارے اخبارات ورسائل کمپیوٹر پر تیار ہوتے ہیں اور بٹن دباتے ہی تیار شدہ صفحہ پر نٹنگ مشین کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ جب موسم کی پیش گوئی سے بینکوں کے معاملات تک کے سارے کام انٹرنیٹ پر ہونے لگیں تو روبوٹ کتنے عرصے تک دہلیز کے باہر کھڑا رہے گا جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ روبوٹ کی وجہ سے زندگی بڑی آسان ہوگئی ہے۔ اسلئے اکثر حکومتیں روبوٹ کے استعمال پر سبسیڈی دینے لگی ہیں۔ اس پر غضب  یہ کہ یہ چھٹی بھی نہیں مانگتے، میڈیکل انشورنس کا مطالبہ نہیں کرتے، پنشن نہیں چاہتے اور یونین کس چڑیا کا نام ہے، یہ بھی نہیں جانتے۔ اس کے علاوہ نہ سے غلطیاں صادر ہوتی ہیں، نہ یہ تھکتے ہیں اور نہ بیمار ہوتے ہیں تو ایسے وفادار ملازم کہاں ملیں گے جن سے وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوسکے۔ جاپان میں تو روبوٹ بوڑھے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ایمرجنسی ان کے عزیزوں کو فون کرتے ہیں، اسپتال لے جاتے ہیں اور ایک پروگرام کے تحت گھر کے سارے کام بھی انجام دیتے ہیں لہٰذا ایسے بے زبان غلاموں کو آزاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
  لوگوں کو صرف ایک بات کا خدشہ ہے ۔ ان کی آمد سے نہ جانے کتنی ملازمتیں جاتی رہیں گی اور بیروزگاری کتنی بڑھے گی؟ مگر یہ تو ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔ کیا صنعتی انقلاب کے بعد مشینوں نے بےوزگاری میں اضافہ نہیں کیا؟ کیا Automation نے لوگوں سے ملازمتیں نہیں چھینیں؟ وہ لوگ سمجھدار تھے جنہوںنے مشینوں سے مصالحت کرلی اورنئے زمانے کے نئے ہنر سیکھ کر اپنی روزی روٹی بچالی۔ بصورت دیگر آج ہم بھی اپنے شاندار ماضی کا حوالہ دے دے کر رورہے ہوتے۔ ایک لمحے کیلئے صرف موبائل کا مصرف ذہن میں لایئے جس کے ذریعہ کتنی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ بازار سے اشیاء منگانے سے لے کرمیلوں دور بیٹھے عزیزوں سے ہم یوں باتیں کرتے ہیں جیسے وہ سامنے بیٹھے ہوں۔ اسلئے یہ بھی قبول کرلیجئے کہ روبوٹ سے فرار ممکن نہیں۔ اب یہ ہر جگہ نظر آئیں گے۔ ہاں! ایک قابل اطمینان بات یہ ہے کہ روبوٹ وہی کرتے ہیں، جو اُن میں فیڈ کیا جاتا ہے یعنی ان کے مشینی خانوں میں جو پروگرام ترتیب دے دیاجائے ، یہ اسی کے غلام ہوتے ہیں۔ البتہ ان میں کامن سینس نہیں ہوتا، اسلئے غیر متوقع حالات پیدا ہوجائیں تو یہ چُست وفعال مخلوق منہ دیکھتے رہ جائے گی۔ مثال کے طورپر آج تک روبوٹ کے ہاتھ اتنے مکمل نہیں بن سکے کہ یہ کسی چیز کو آسانی سے اپنی گرفت میں لے سکے۔ یہی حال ان کے پیرو ں کا ہے۔ یہ فٹ بال توکھیل لیں گے مگر انسانوں سے بہتر نہیں کھیل سکتے۔ یہ چل پھر تو لیں گے مگر انسانوں کی سی پُر اعتماد چال نہیں دکھا سکتے۔ یہ ہوٹل میں گاہکوں کیلئے میز تو سجا سکتے ہیں، کھانا بھی پیش کرسکتے ہیں مگر ذائقہ دار کھانا نہیں بنا سکتے۔ اس طرح بینک میں یہ چیک دیکھ کر پیسے تو دے سکتے ہیں، ڈپازٹ کیلئے آئے ہوئے پیسوں کو گن کر جمع بھی کر سکتے ہیں، حساب کتاب بھی رکھ سکتے ہیں مگر بینک کی پالیسی نہیں بنا پائیں گے۔ اسی طرح نہ یہ شعر کہہ سکتے ہیں، نہ تصویر بناسکتے ہیں، نہ ڈراما لکھ سکتے ہیں، نہ دھن ترتیب دے سکتے ہیں۔
 یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انسانی معاشرے میں ’کام ‘ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ مکمل نہیں ہوتا۔ کام ہی اس کا سماجی رتبہ طے کرتا ہے بلکہ اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی عطا کرتا ہے ۔ اسلئے روبوٹ چاہے جتنی ترقی کرجائیں، دنیا کا کاروبار چلانے کیلئے انسان ہی درکار ہوں گے۔ یہ بھی نہ بھولیں کہ وال مارٹ کی پانچ سو شاخوں میں کام کرنے والے ہزاروں روبوٹ چاہے سامان لاد لاد کر الماریوں اور شورم میں سجالیں مگر ان کے پاس نہ انسانوں کی صورت ہے ، نہ اظہار کیلئے جذبات ۔ یہ آج بھی ایک ڈبہ نظر آتے ہیں جن کے پاس مسکراتا ہوا چہرہ ہوتا ہے، نہ محبت بھری آنکھیں ۔ کاش روبوٹ کے خالق اس بات کا اقرار کرلیں کہ جس خالق حقیقی نے انسان بنائے ہیں، دنیا کے انجینئر اس کا عشر عشیر بھی نہیں بناسکتے۔ کیا کسی نے غور کیا ہے کہ زمین کی کشش ثقل کے باوجود ایک انسان کس شان سے زمین پر چلتا ہے، ٹھوکر کھاکر گرجائے تو فوراً سنبھل بھی جاتا ہے کیونکہ جس لازوال ہستی نے اس میں پروگرام فیڈ کئے ہیں، وہ دنیا کے سارے پروگراموں کا خالق ہے اوراس کے پروگرام اتنے مکمل ہیں کہ روز ازل سے لے کر آج تک اس کی بنائی ہوئی مخلوق مزے سے زندہ ہے اور اس کے سارے کام بھی خالق کائنات کی ہد ایت پر انجام پارہے ہیں۔ ویسے روبوٹ کتنے ہی ترقی یافتہ ہوجائیں، یہ فیصلہ تو انسان ہی کرے گا کہ انہیں کہاں اور کب استعمال کرنا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK