ٹیرف کے معاملے میں امریکہ نے چین کی حوصلہ شکنی کی کوشش تو کی مگر اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی۔ اس سے چین کو وقت مل گیا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اب اس کی حکمت عملی کیا ہوگی۔
EPAPER
Updated: May 17, 2025, 10:05 PM IST | New Delhi
ٹیرف کے معاملے میں امریکہ نے چین کی حوصلہ شکنی کی کوشش تو کی مگر اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی۔ اس سے چین کو وقت مل گیا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اب اس کی حکمت عملی کیا ہوگی۔
مورخ میکس ہسٹنگز نے جنگ عظیم دوئم کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ دو خونخوار لوگوں کے درمیان جاری تھی، نازی فوج کے سربراہ اڈولف ہٹلر اور سوویت فوج کے قائد جوزف اسٹالن کے درمیان۔ ان کے علاوہ جو تھا مثلاً ونسٹن چرچل کی تقریریں اور پیسفک میں جاپان کے خلاف امریکہ کی جدوجہد، اُس کی حیثیت حاشئے پر ہونے والی سرگرمیوں جیسی تھی۔ جنگ عظیم دوئم کے مہلوکین کے ناموں پر توجہ دیجئے تو اس بات کی توثیق ہوتی ہے۔
ہمارے دور کی رسہ کشی بھی دو عظیم طاقتوں کے درمیان ہے۔ ایک ہیں ڈونالڈ ٹرمپ اور دوسرے ژی جن پنگ یعنی امریکہ اور چین۔ بقیہ دُنیا یہاں بھی حاشئے پر سرگرمیاں انجام دینی والی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان رسہ کشی فوج نوعیت کی نہیں ہے، کم از کم فی الحال تو نہیں مگر خطرہ تو ہے اور بعض اوقات خطرہ سنگین معلوم ہوتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ رسہ کشی مغرب اور ایشیاء کے درمیان عالمی معاشی غلبہ کی ہے جس میں ہمیں ایشیائی طاقت کی حمایت کرنی چاہئے لیکن مَیں اپنے ہم وطنوں کو دیکھتا ہوں تو وہ خود کو عدم محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اُن کے سامنے کوئی بڑا ویژن نہیں ہے۔ خیر، اس موضوع کو کسی اور وقت کیلئے اُٹھا رکھئے، فی الحال یہ دیکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چین کیا چاہتا ہے؟ چین وقت چاہتا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں جب ہندوستان آزاد معیشت کی راہ پر گامزن ہوا تھا جسے لبرلائزیشن کہا جاتا ہے تب معاشی اعتبار سے ہم چین کے برابر تھے، ہم پلہ کہا جاسکتا ہے۔ ایک عام ہندوستانی پیداوار کے معاملے میں ایک عام چینی شہری کے برابر تھا۔اس میں شک نہیں کہ اُس کے ایک دہائی پہلے سے چین خودکو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں تھااور یہی کوشش ہم پر اُس کی سبقت کے طور پر ظاہر ہوئی مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے مذکورہ کوشش تب شروع کردی تھی جب وہ ہندوستان سے کافی پیچھے تھا۔ صنعت اور زراعت کے شعبے میں وہ دُنیا سے الگ تھلگ تھا اور یہ کیفیت کئی دہائیوں تک جاری رہی تھی۔ ہندوستان کی یہ کیفیت نہیں تھی۔ علاوہ ازیں چین کی قیادت نے اپنے شہریوں کو ظلم و جبر کا ہدف بنایا ہوا تھا۔ اس کے بعد کے ۳۵؍ برسوں میں چین جی ڈی پی کی نمو (گروتھ) میں ۹؍ فیصد کے قریب آیا۔ مغرب میں کسی بھی ملک نے اتنی معاشی ترقی نہیں کی تھی بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ کسی بھی مغربی ملکوں نے ایسی ترقی کبھی نہیں کی تھی۔ اس نے امریکہ دُنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت تھا مگر چین نے اُس پر بھی سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ پوری دُنیا میں نمبر دو کی حیثیت پر وہ ۱۵۰؍ برس تک قائم رہا۔ اُس کی یہ حیثیت بھی امریکہ کو ناگوار گزرتی رہی۔ مغرب کے سیاسی سائنسداں جان میئرشیمر نے کہا تھا کہک چین کی معاشی بالادستی کے سبب ایک دن وہ آئے گا جب بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تلواریں کھنچنے کی نوبت آ جائیگی۔ جان میئرشیمر نے جو تھیوری پیش کی تھی اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ نمبر دو کی پوزیشن پر رہنے والے ملک کو نمبر ایک کی پوزیشن والا ملک برداشت نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں تشدد بھی ہوسکتا ہے، نہ ہو تب بھی نمبر ون پوزیشن نمبر ٹو کو ہر زاوئیے سے گھٹنوں پر لانے کی کوشش کرے گا۔
بعض مبصرین اس تھیوری کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حالات کو مغربی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ ان مبصرین کا خیال ہے کہ ایشیائی ممالک عالمی اُمور میں دخل اندازی کے قائل نہیں، اُس انداز میں تو بالکل نہیں جو یورپ اور امریکہ کا انداز ہے اور جس کا مظاہرہ گزشتہ دو صدیوں میں ہوا ہے۔ ان مبصرین کے مطابق چین کی بالادستی امریکہ کیلئے خطرہ نہیں بنے گی ، آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر اس کے غلبہ پر سوالیہ نشان نہیں لگائے گی۔ اسی لئے، اُن کے خیال میں، امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ چین کی معاشی بالادستی کا مطلب کیا ہے۔ مگر ہاں، ابھی ہم یہ نہیں جانتے کہ جب چین، امریکہ کو معاشی طاقت کے طور پر پیچھے چھوڑ دے گا تب اُس کا انداز اور عمل کیسا ہوگا۔
پچھلے آٹھ سالوں میں امریکہ نے چین کی معاشی پیش رفت کو روکنے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس نے ایڈوانسڈ سیمی کنڈکٹر تک چینی کمپنیوں کی رسائی میں دقتیں پیدا کیں۔ اس نے چینی مصنوعات پر بھاری ڈیوٹی عائد کی۔ اس نے چین پر صنعتی شعبے میں گنجائش سے زیادہ کارکردگی کا الزام لگایا جبکہ چین نے جو کچھ بھی کیا وہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر معترض ہوا جائے۔ اُس کی جانب سے ہونے والی سپلائی ڈیمانڈ کے مطابق تھی۔ اب ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار میں اس نےچینی برآمدات پر محصولات کی شرح اتنی زیادہ کردی کہ بیجنگ واشنگٹن کو کچھ برآمد کر ہی نہیں سکتا۔یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کو اپنا طور طریقہ بدلنا پڑا۔ اسٹاکس اور بونڈ کی کمپنیوں نے ٹرمپ کو سمجھا دیا کہ چین پر بھاری ٹیرف لگانے سے بیجنگ کا کم مگر امریکہ کا کافی نقصان ہوگا اس لئے چین کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ٹھیک نہیں۔
امریکہ کے توقف کی وجہ سے چین کو وقت مل گیا ہے۔ میرے خیال میں اُسے اتنا وقت تو مل ہی گیا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کو نتیجہ خیز بناسکے۔ چونکہ ۲۰۲۶ء کے وسط میں کانگریس کے انتخابات ہونے ہیں اس لئے ٹرمپ اپنی جارحانہ پالیسی کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس سے بھی چین کو وقت ملے گا۔
گزشتہ آٹھ برسوں میں چین نے خود کو تجارتی جنگ یا رسہ کشی کیلئے تیار کیا تھا۔ اُس نے اپنی سرزمین پر تعمیراتی منصوبوں کی حوصلہ شکنی کی تاکہ وہاں کے پیسے کا بہاؤ صنعتوں کی طرف ہو۔ اس نے دُنیا کے مختلف ملکوں میں برآمدات کی مارکیٹ تیار کی ہے نیز افریقہ اور لاطینی امریکہ میں ’’سپلائی چین‘‘ تشکیل دی ہیں۔ اب امریکہ، جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں اور یورپی یونین کے بعد چین کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے یعنی اُس کا امریکہ پر اتنا زیادہ انحصار نہیں ے۔ اس نے مستقبل کی تکنالوجی پر محنت کی ہے ۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو ۲۰۰؍ سال کے عرصہ میں پہلی بار ایک ایشیائی ملک سب سے بڑی معاشی طاقت ہوگا جبکہ یہ اعزاز مغرب کا رہا ہے۔n