Inquilab Logo Happiest Places to Work

مودی حکومت سے جمہوریت مخالف سوال کرنے پر برطانوی ماہر تعلیم کا او سی آئی کارڈ منسوخ

Updated: May 19, 2025, 9:58 PM IST | New Delhi

برطانوی ماہرتعلیم نتاشاکول نے بتایا کہ ’’مودی حکومت سے ’’جمہوریت مخالف‘‘ سوال کرنے پر ان کا اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) منسوخ کر دیا گیا ہے۔ نتاشا کول نے کہا کہ مودی حکومت میں ’’اقلیت مخالف اورجمہوریت مخالف پالیسیوں‘‘ پر کام کرنے کی وجہ سےان کے خلاف یہ کارروائی کی گئی ہے۔

British educator Nitasha Kaul. Photo: X
برطانوی ماہر تعلیم نتاشا کول۔ تصویر: ایکس

برطانوی ماہر تعلیم نتاشا کول نے اتوار کو کہا کہ ’’ان کا اورسیز سیٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کارڈ منسوخ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’مودی حکومت میں ’’اقلیت مخالف اور جمہوریت مخالف پالیسیوں‘‘ پر کام کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف یہ کارروائی کی گئی ہے۔‘‘ کول، جو لندن یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں پالیٹکس، انٹرنیشنل اسٹڈیز اور کریٹیکل انٹر ڈسیپلینری‘‘ کی طالبہ ہیں، نے کہا کہ ’’یہ قومی مفادات سے بالاتر دباؤ کی ’’بری، انتقامی اور سنگدل‘‘ مثال ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہیگ: غزہ نسل کشی کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر، حکومت سے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ

کول آر ایس ایس پر تنقید کیلئے جانی جاتی ہیں
کول، جو کشمیر پنڈتوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر تنقید کیلئے جانی جاتی ہیں جو بی جے پی کا پیرنٹ ادارہ ہے۔ اوورسیز سیٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) ایک امیگریشن اسٹیٹس ہے جس کے مطابق ہندوستانی نژاد بیرون ملکی افراد کو غیر معینہ مدت تک ہندوستان میں رہنے اور کام کی اجازت دی جاتی ہے۔ اپنے ایکس پوسٹ میں ماہر تعلیم اور مصنفہ نے ’’مودی حکومت کے ساتھ اپنی مبینہ گفتگو شیئر کی ہے جس نے ان پر ’’ہند مخالف سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ۱۰؍ و یں جماعت کیلئے روبوٹکس کی تعلیم کو لازمی قرار دینے والی کیرالا پہلی ریاست

مرکزی حکومت کے پیغام میں کیا کہا گیا ہے
مرکزی حکومت کے ذریعے شیئر کئے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’’ آپ مختلف بین الاقوامی تقریبات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی متعدد تحریروں، تقریروں اور صحافتی سرگرمیوں سے حاکمیت کے معاملے میں روزمرہ کی بنیاد پر ہندوستان کو نشانہ بناتی ہیں۔‘‘ مرکزی حکومت کے ذریعے اپنے او سی آئی کو منسوخ کرنے کے تعلق سے انہوں (کول) نے کہا کہ ’’کول، جو لندن یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں پالیٹکس، انٹرنیشنل اسٹڈیز اور کریٹیکل انٹر ڈسیپلینری‘‘ کی پروفیسر ہیں، نے کہا کہ ’’یہ قومی مفادات سے بالاتر دباؤ کی ’’ انتقامی اور ظالمانہ ‘‘ مثال ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ اب نفرت کے خلاف بولنے پر ہندوستان میں ماہرین تعلیم کو گرفتار کرنا اور ہندوستان سے باہر کے ماہرین تعلیم کیلئے ملک اور خاندان تک رسائی کو ختم کرنا انتہائی آسان بنادیا گیا ہے۔ اس سے اشارہ دیا جارہا ہے کہ ہمیں چیلنج کرنے کی ہمت نہ کریں اور باہر کے شہریوں کو یہ بتانے کی کوشش مت کیجئے کہ ہم کیا کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ’’عوام نتیش حکومت سے پریشان ہوچکے ہیں، تبدیلی چاہتے ہیں‘‘

۲۰۱۹ء میں کول نے امریکی ہاؤس کمیٹی آن فارین افیئرز کے سامنے عینی شاہد تھیں جو کشمیر میں دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یاد رہے کہ دفعہ ۳۷۰؍کی منسوخی کے بعد کشمیر کو ریاست کا درجہ دیا گیا ہے۔ فروری ۲۰۲۴ء کرناٹک حکومت کے مدعو کرنے پر ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں (کول) نے کہا تھا کہ ’’انہیں ہندوستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور مرکزی حکومت کے حکم پر بنگلور ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں ’’جمہوری اور آئینی اقدار‘‘ کے تعلق سے بات چیت کرنے پر ہندوستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK