Inquilab Logo Happiest Places to Work

بے شمار حقائق ہیں کس کس سے چشم پوشی کی جائیگی؟

Updated: October 01, 2023, 10:26 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

بیرونی ملکوں میں جب بی جے پی کے وزراء اور لیڈروں سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ حقائق سے چشم پوشی والے ہی جوابات دیتے ہیں۔

This is the first time in the history of independent India that not a single Union Minister is a Muslim. Photo. INN
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک بھی مرکزی وزیر مسلمان نہیں ہے۔ تصویر:آئی این این

چار سو سال پہلے سفیر سر ہنری واٹن نے سفارتکار کیا ہوتا ہے یہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ ایماندار اور شریف النفس (جنٹلمین) شخص جسے  اپنے ملک بھلائی کے مقصد سے جھوٹ بولنے کیلئے کسی دوسرے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔‘‘ ہمارے وزیر خارجہ ایس جے شنکر حکومت کے اچھے ترجمان ہیں۔ سابقہ حکومت کی بھی اُنہوں نے اچھی ہی  ترجمانی کی تھی جب وہ وزیر نہیں بلکہ سرکاری افسر تھے۔ اس لئے وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اُسے اُن کی ذاتی رائے نہیں کہا جاسکتا۔ وہ اپنے ملک کی بھلائی کیلئے بیرونی ملکوں میں جھوٹ کا سہارا لے لیتے ہیں۔ آج کل وہ واشنگٹن میں ہیں اور دُنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان میں ایسا کیا کیا ہے جو بہت اچھا ہورہا ہے۔ایک میٹنگ میں، ایک صحافی نے اُن سے وہی سوال کیا جس کا سامنا بیرونی ملکوں میں بی جے پی کے لیڈروں کو ہوتا ہے۔سوال یہ تھا کہ آپ کی حکومت دیگر ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو کیوں ہدف بناتی ہے؟ نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق ایس جے شنکر نے اس سوال کے جواب میں کہا: ’’میں کہتا ہوں کہاں امتیاز برتا جارہا ہے آپ اس کا ثبوت پیش کریں۔‘‘ جو حالات اور واقعات بالکل سامنے ہیں وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی بالخصوص اُن کو جن کے آنکھیں اور کان ہیں، لیکن چونکہ صحافی نے ہدف بنائے جانے کا دعویٰ کیا تھا اس لئے اُس کا جواب دیا جانا چاہئے تھا، سو دے دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی تین سطحوں پر امتیاز برتتی ہے۔ 
 (۱) الگ تھلگ کرکے: یہ کیسے ہوتا ہے اس پر بھلے ہی زیادہ غوروخوض نہ کیا گیا ہو مگر یہ سچ ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک بھی مرکزی وزیر مسلمان نہیں ہے، حکمراں جماعت کا ایک بھی رکن پارلیمان مسلمان نہیں ہے اور حکمراں جماعت کا ایک بھی رکن اسمبلی مسلمان نہیں ہے (ملک بھر میں پارٹی کے ایک ہزار اراکین اسمبلی ہیں)۔  یہ سچ ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سچ پر کسی کو حیرانی نہیں ہے، افسوس تو دور کی بات ہے۔ اگر امریکی صدر جو بائیڈن کی پارٹی میں ایک بھی افریقی امریکی یا ہسپانوی نمائندہ سینیٹ میں نہ ہو، رُکن کانگریس نہ ہو یا قانون ساز نہ ہو تو اسے بہت بڑا گھپلہ مانا جائیگا۔ ہمارے ملک میں مسلم نمائندوں کی ’’گمشدگی‘‘ کو معمول بنالیا گیا ہے۔ 
 (۲) (الف) قانون کے ذریعہ اقلیتوں کو ہدف بنانا: بھارتیہ جنتا پارٹی قانون بناکر بھی اقلیتوں کو نشانے پر رکھتی ہے۔ ملک میں بیف رکھنے یا اس سے متعلق ہونے پر کوئی شخص ہجومی تشدد کا نشانہ بن سکتا ہے جو دراصل وزیر اعظم کے اُس بیان کی شکل میں ملنے والا تحفہ ہے جس میں اُنہوں نے ’’گلابی انقلاب‘‘ کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد بی جے پی کے اقتدار والی دو ریاستوں (پہلے مہاراشٹر اور پھر ہریانہ) میں قانون بنائے گئے جن کا مقصد بیف رکھنا قانوناً جرم قرار دے دیا گیا۔ ہجومی تشدد کے واقعات اس کے بعد ہی سے رونما ہونے لگے جن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
 (۲)  (ب) ملک میں مسلمان واحد فرقہ ہے جس کیلئے طلاق قابل تعزیر (سزا کا حقدار) جرم ہے۔ دیگر فرقوں کیلئے ناپسندیدہ شہری عمل ہے جسے قانونی زبان میں ’’سول رونگ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے بیک وقت تین طلاق کا طریقہ تب قابل تعزیر ہوا جب ۲۰۱۹ء میں قانون میں تبدیلی کی گئی ۔
 (۲) (ج) ۲۰۱۸ء سے بی جے پی ریاستوں نے بین مذہبی شادیوں کے خلاف قوانین بنانے شروع کئے۔ ایک فرقہ کا لڑکا یا لڑکی دوسرے فرقے کی لڑکی یا لڑکے سے شادی کرے تو متعلقہ قانون کے مطابق یہ عمل قابل تعزیر ہے۔ایسی شادیوں کو ’’لوَ جہاد‘‘ نام دیا گیا حالانکہ حکمراں جماعت پارلیمنٹ میں واضح کرچکی ہے کہ لوَ جہاد نام کی کوئی شے ملک میں نہیں پائی جاتی اس کے باوجود ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، اترپردیش، گجرات، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور ہریانہ میں قوانین بنائے گئے۔
 (۳) آبادیوں کے خلاف کارروائی کے ذریعہ: ۲۰۱۹ء میں گجرات کے ایک قانون میں ترمیم کی گئی جس کا نتیجہ یہی ہونا تھا کہ مسلمان، مخصوص علاقوں میں رہنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس قانون کے ذریعہ ضلع کلکٹر کو یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ پراپرٹی فروخت کرنے یا پٹے (لیز) پر دینے کے معاملات کو ’’نامناسب کلسٹرنگ‘‘ قرار دے کر روک دے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ گجراتی مسلمان گجرات میں پراپرٹی خریدنا یا کرائے پر لینا چاہے تو وہ کسی روک ٹوک کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا جبکہ غیر ملکی شہری چاہیں تو ان پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہے۔قانون کی مذکورہ ترمیم کی وجہ سے حکومت ِ گجرات کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ مسلمانوں کو اُن کی اپنی بستیوں میں محدود رکھے۔ 
 ۲۰۱۷ء میں گجرات میں گئو کشی کی سزا عمر قید مقرر کی۔ دیکھا جائے تو یہ معاشی جرم ہے۔ ہندوستان میں کوئی معاشی جرم ایسا نہیں ہے، خواہ وہ کروڑوں روپوں کی بینک دھوکہ دہی ہی کیوں نہ ہو، جس کی سزا عمر قید ہو مگر گجرات میں گئو کشی کی سزا عمر قید ہے۔ 
 اترپردیش کی حالیہ خبروں میں بتایا گیا کہ نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت جن ۱۳۹؍ لوگوں کو جیل میں بند کیا گیا ہے ان میں سے ۷۶؍ ایسے ہیں جن پر مویشی ذبح کرنے کا الزام ہے۔ قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو ہدف بنانے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
 (۳) ایک مسلم گجراتی خاتون (بلقیس بانو) کی عصمت دری کے سزا یافتہ مجرموں کو ۲۰۲۲ء میں جیل سے رہا کردیا گیا۔ ۲۰۱۸ء میں ہجومی تشدد کے سزا یافتہ مجرموں کو رہائی ملی تو جے شنکر صاحب کے ایک ساتھی وزیر نے پھول ہار پہنا کر اُن کا سواگت کیا۔ جے شنکر کی پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے اپنے مسلم ہم منصب کو پارلیمنٹ میں گالیاں دیں۔ ایسے لوگوں کی گوشمالی تک نہیں ہوتی بلکہ اُنہیں انعام دے دیا جاتا ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں بہت آسانی سے دی جاسکتی ہیں۔ میں نے محض چند کا ذکر کیا تاکہ یہ بتاسکوں کہ ایس جے شنکر نے امریکی صحافی سے جو کہا کہ وہ ثبوت دے تو یہ اور ایسے سیکڑوں ثبوت ہیں کہ کس طرح اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK