رپورٹ کے مطابق عروس البلاد ممبئی میں کتابوں کے شیدائیوں نے ایک نیا ٹھکانہ ڈھونڈلیا ہے۔ گھر نہ دفتر، وہ باغوں اور باغیچوں میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے اس عمل سے خوش ہیں۔
EPAPER
Updated: May 12, 2025, 12:28 PM IST | Mumbai
رپورٹ کے مطابق عروس البلاد ممبئی میں کتابوں کے شیدائیوں نے ایک نیا ٹھکانہ ڈھونڈلیا ہے۔ گھر نہ دفتر، وہ باغوں اور باغیچوں میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے اس عمل سے خوش ہیں۔
دُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو کہے گاکہ کتاب بے فیض ہے یا کتاب بینی کار ِلاحاصل ہے مگر اسی دُنیا میں رفتہ رفتہ یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ اب کتاب خواں کم ہوگئے ہیں۔ اس تاثر کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا۔ بلاشبہ کتاب خواں کم ہوئے ہیں مگر آج بھی کتابوں کے ایسے چاہنے والے موجود ہیں جنہیں مذکورہ تاثر کے خلاف بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔ معاصراخبار ٹائمس آف انڈیا میں دیبارتی ایس سین کی ایک رپورٹ خاصی دلچسپ ہے۔ اس میں ایک نئے رجحان کا اشارہ ملتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عروس البلاد ممبئی میں کتابوں کے شیدائیوں نے ایک نیا ٹھکانہ ڈھونڈلیا ہے۔ گھر نہ دفتر، وہ باغوں اور باغیچوں میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے اس عمل سے خوش ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ باغیچے میں مطالعہ کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ان میں کئی ایسے شائقین ہیں جو گروپ کی شکل میں آتے ہیں مگر اُن کا مقصد مل بیٹھ کر گفتگو کرنا یا کسی کتاب کے مشمولات پر اپنی اپنی رائے پیش کرنا نہیں ہوتا۔ اُن کا مقصد پڑھنا ہوتا ہے، صرف پڑھنا۔ رپورٹ میں ۶۵؍ سالہ اُمیش ٹھاکور کا بیان نقل کیا گیا ہے جنہوں نے کہا: ’’ہم سب (گروپ کے لوگ) ایک چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر اپنی اپنی کتاب کے ذریعہ الگ الگ دُنیاؤں کی سیر کرتے ہیں، یہ احساس اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ ‘‘ جن شائقین کتب کے بیانات رپورٹ میں شامل کئے گئے ہیں اُن میں اگر اُمیش ٹھاکور جیسے سن رسیدہ اشخاص ہیں تو کمسن (عمر ۷؍ سال) لیرا شاہ بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ اجنبیوں کے ساتھ بیٹھ کر کتاب پڑھنا اچھا لگتا ہے۔
ایسے دور میں جب سوشل میڈیا کے ذریعہ ہم مشرب و ہم مذاق لوگوں سے رابطہ مشکل نہیں رہ گیا ہے، ان شائقین کتب نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی ایک دوسرے کو تلاش کیا۔ ان کا مطالعہ کیلئے کسی ایک جگہ یکجا ہونا کسی من گھڑت داستان جیسا معلوم ہوتا ہے مگر چونکہ یہ حقیقت ہے اس لئے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے اس دور میں لوگوں کے مشاغل اور معمولات کتنے ہی بدل گئے ہوں، وہ کتنے ہی مصروف ہوگئے ہوں، کتاب اور قاری کا رشتہ برقرار ہے چنانچہ ایسے افراد، جو کتاب کی اہمیت سے واقف ہیں، مطالعہ سے حظ اُٹھانے اور اپنا ذہن روشن کرنے کا نہ صرف یہ کہ وقت نکال رہے ہیں بلکہ مطالعہ کا ایک نیا انداز اپنا کر اسے پُرکشش بنانے کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ ان گروپس میں نئی نسل کے افراد کی شمولیت خوش آئند ہے۔
پارک یا باغیچہ میں شمع مطالعہ روشن کرنے والے یہ لوگ ’’تیسری جگہ‘‘ کے طور پر کسی اور جگہ مثلاً کیفے کا بھی انتخاب کرسکتے تھے مگر انہوں نے پارک یا باغیچہ کا انتخاب کیا، شاید اس لئے کہ آتے جاتے لوگ دیکھیں اور اُنہیں بھی کتابوں سے رغبت ہو۔ نیا دَور برقی کتب کا بھی دَور ہے مگر یہ لوگ روایتی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے ذریعہ یہ پیغام عام کرنا بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ مطالعہ کا صحیح لطف اُٹھانا ہے تو روایتی کتب کو ترجیح دیجئے، اس سے مطالعہ میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے، بینائی متاثر نہیں ہوتی، مشمولات زیادہ عرصہ تک یاد رہتے ہیں، اس کے صفحات کو موڑا جاسکتا ہے، اُن پر نشانات لگائے جاسکتے ہیں ، حاشئے پر اپنے تاثرات لکھے جاسکتے ہیں اور کسی دوسرے شخص کو کتاب عاریتاً یا تحفتاً پیش کی جاسکتی ہے۔