Inquilab Logo

حُجّت وتکرار بہت ہوئی، آئیے اب اُردو اور انگریزی میں دوستی کرائیں

Updated: March 13, 2023, 4:07 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

تعلیمی اور کریئر رہنمائی اجلاس کا جہاں تک سوال ہے اُن میں والدین کی شرکت لازمی ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ابھی تک بچوں کی گاڑی کی ڈرائیونگسیٹ پر والدین ہی بیٹھے ہیں،اسلئے ان کی رہنمائی ضروری ہے۔

If we introduce our students to English terms along with Urdu from the fifth standard, it will be quite easy
اگر ہم پانچویں جماعت سے اپنے طلبہ کو اردو کے ساتھ انگریزی اصطلاحات سے بھی متعارف کراتے جائیں تو کافی آسانی ہوگی



۔۱۶  تعلیمی رہنمائی اجلاس میں والدین کی شرکت لازمی ہے:
  تعلیمی اور کریئر رہنمائی اجلاس کا جہاں تک سوال ہے اُن میں والدین کی شرکت لازمی ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ابھی تک بچوں کی گاڑی کی ڈرائیونگسیٹ پر والدین ہی بیٹھے ہیں،اسلئے ان کی رہنمائی ضروری ہے۔ انگریزی اسکولوں کے پروگرام اور میٹنگوں میں والدین کی حاضری اچھی خاصی ہوتی ہے۔ اُردو اسکولوں میں وہ غائب نظر آتے ہیں۔ اس معاملے میں کیوں نہ اُلٹی گنگا بہے یعنی کنواں پیا سے کے پاس چلا جائے۔ اساتذہ ، والدین تک ذاتی طور پر پہنچ کر ان کی ذہنی رہنمائی کریں؟ اس کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ اوّل تو تعلیم کی تبلیغ کا ایک ماحول بن جائے گا۔ دوم یہ کہ والدین میں یہ احساس جاگے گاکہ ہر تعلیمی نظام میں ان کا بھی کچھ حصّہ ہے۔ ’’والدین سمجھتے ہی نہیں‘‘،’’ والدین غیر ذمہ دار ہیں‘‘ وغیرہ کی ٹکراؤ کی پالیسی سے اب تک اساتذہ و تعلیمی اداروں کو کیا حاصل ہوا ہے؟ جن والدین کے ساتھ بچّہ روزانہ ۱۸؍ گھنٹے رہتا ہے اور انہی کی فکر کو وہ اپناتا ہے۔ اساتذہ اور انتظامیہ کو ان والدین کو اپنے اعتماد میں لینا ہی ہوگا۔ کئی اساتذہ کی بڑی محنت سے تیار کی ہوئی تدریس کی منصوبہ بندی اسلئے ناکام ہورہی ہے کہ ان کی کلاس میں بیٹھے ہوئے طلبہ سے وہ صحیح معنوں میں متعارف ہی نہیں ہیں۔طلبہ کس ماحول سے آرہے ہیں؟ حصولِ تعلیم کے تعلق سے ان کے والدین کا کیا رویہ ہے؟ یہ وہ  جانتے ہی نہیں ہیں، اسلئے وہ طلبہ کلاس میں بیٹھے ہوئے تو ہیں البتہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ نہیں ہیں۔
  اس ضمن میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کائونسلر حضرات کتنی ہی ذہن سازی کریں، طلبہ کی زندگی میں آخری فیصلہ والدین ہی کرتے ہیں۔ اگر والدین منفی سوچ کے حامل رہے ،ان کے پاس صبرنہ ہو اور بصیرت نہ ہو تو بچّے کے کریئر کی پیش رفت میں رکاوٹ آہی جاتی ہے۔ اسلئے کریئر پلاننگ کے اجلاس میں والدین کی صرف حاضری نہیں بلکہ ان کی ذہن سازی کو لازمی بنائیں۔ آپ والدین کومورد الزام نہ ٹھہرائیں کیوں کہ ماحول بن چکا ہے۔ صرف قوالی یا تفریحی پروگرام کیلئے جاگنے والی یہ قوم آج خالص تعلیم جیسے خشک موضوع پر گھنٹوں سن رہی ہے اور پہلو بدلے بغیر سن رہی ہے۔
۔ ۱۷ اُردو اسکولیں اورمسئلہ انگریزی میں روانی کا : 
 اُردو اسکولوں کے ضمن میں سب سے عام شکایت یہ ہے کہ اس کے طلبہ فرّاٹے سے انگریزی میں بات چیت نہیں کر پاتے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ آئیے اس کمزوری کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں۔ 
 اس ضمن میں سب سے اہم  بات یہ سامنے آتی ہے کہ انگریزی کی روانی کے تعلق سے دوسری ساری (بشمول اُردو ) زبان والے بپھر جاتے ہیں اور کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کیا انگریزی میں فرّاٹے سے بات کرنا ہی کامیابی کی دلیل ہے؟ انگریزی روانی سے بات چیت کرنے والا ہی ذہین ہوتا ہے؟ کیا یہی ایک صلاحیت زندگی میں کامیابی کی ضامن ہے؟ 
 اب اِن سب کے جواب سن لیجئے۔ انگریزی میں فرّاٹے سے بات کرنے والا لازمی طور پر بہت ذہین ہوتا ہے، یہ کہنے والے احمق ہیں اور ملازمت یا ترقی کیلئے اس فرّاٹے دار انگریزی کو ہی واحد قابلیت نہیں سمجھا جاتا۔ اربابِ نظر و اختیار یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اُس فرّاٹے دار انگریزی سے سوجھ بوجھ ، دُور اندیشی اور معلومات وغیرہ کا اظہار ہو رہا ہے یا نہیں؟ کتنی گہرائی اور گیرائی ہے اس انگریزی کی روانی میں؟ پھر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب انگریزی میں فرّاٹے سے بات چیت کرنے کو خود اعتمادی کی علامت سمجھا جانے لگا تھا، اس دَور میں دوسری زبان والے کہاں سورہے تھے ؟ انھوں نے اپنی زبانوں کو اس قابل کیوں نہیں بنایا کہ ان میں بات کرنے والوں کو سب پر اہمیت وفوقیت حاصل ہو جائے ؟ وہ روایتی ڈفلی بجاتے اور اپنی زبان کی بقا کیلئے جدید تقاضوں سے آنکھیں چراتے کیوں رہے؟ اس غفلت کی وجہ سے انگریزی زبان ترقی کرتی چلی گئی۔ سارے جدید علوم کو وہ اپنے دامن میں سمیٹتی چلی گئی اور اس طرح یہ رائے قائم ہوتی گئی کہ انگریزی داں زیادہ باخبر بھی ہوتا ہے۔ آئیے یہ دیکھیں کہ انگریزی سے مقابلے کیلئے ہمیں اپنی زبان اور اپنے تعلیمی اداروں کو کیسے تیار کرنا ہے؟
۔ ۱۸ اُردو اور انگریزی میں دوستی کرادیجئے:
  سب سے پہلے یہ طے کریں کہ ہمیں انگریزی سے کوئی بعض نہیں رکھنا ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر ایک طاقتور زبان کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اسلئے اس زبان سے ہم کوئی بغض رکھنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔ اب اس’ بغض‘ کا قصّہ بھی سن لیجئے۔ ہم میں سے کچھ لوگ  بڑی دُور کی کوڑی اور تھیوری لائے تھے کہ انگریزی تعلیم کے حصول کا مطلب ہے انگریزی ثقافت اور مغربی تہذیب کو نہ صرف اپنانا بلکہ اس کا پر چار کرنا۔ اس بنا پر یہ طبقہ انگریزی زبان پر بھی مسلسل اور مستقل طور پر لاحول بھیجتا رہا۔ علی گڑھ کے سیّد کا بھی اُنھوںنے جینا دوبھر کردیا تھا۔ ایک صدی سے زائد عرصہ سے ہم سبھی ان مٹھّی بھر افراد کی منفی سوچ کا خمیازہ بھگت چکے۔ اب انگریزی سے سمجھوتے کا تجربہ کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ کچھ اس طرح کہ اپنی زبان و ثقافت کو زندہ رکھتے ہوئے زندگی کے مختلف محاذ پر سرخرو بھی رہیں۔ انگریزی سے احمقانہ طریقے سے مقابلہ اور بغض کرنے پر کیا ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال ہندی کی ہے۔ سنسکرت آمیز ہندی کو عوام پر تھوپنے کا نتیجہ بڑا بھیانک ہوا ہے جو آج ہمیں ملک کی جنوبی ریاستوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔ چاروں دراوڑ ریاستیں بس پر تول رہی ہیں کہ کب یہ آکاش وانی اور دُور درشن کی ہندی کو ہم پر تھوپنے کی کوشش ہو اور کب ہم بغاوت کر بیٹھیں۔ہمیں ہوشمندی سے کام لینا ہے ،ہمیں اُردو اور انگریزی کی دوستی کرانی ہے۔ زندگی کی ریس میں پیچھے نہ رہیں، اسلئے انگریزی سے ہمیں دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے۔
۱۹۔  انگریزی اصطلاحات کو  اپنانے میںکیا قباحت ہے؟
  کیا یہ ہمارے اُردو اسکولوں میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم کم از کم پانچویں جماعت سے اردو کے ساتھ ہی انگریزی اصطلاحات سے  اپنے طلبہ کو متعارف کراتے جائیں۔ آج مہاراشٹر سمیت کچھ ریاستوں میں یہ سرکاری طور پر ممکن ہے کہ اسکول کے دو مضامین ریاضی اور سائنس کو انگریزی زبان میں پڑھایا جائے اور حکومت اس کیلئے  مالی امداد بھی دیتی ہے۔ آج تقاضا تو یہ بھی ہے کہ ہمارے اردو اسکولوں میں پانچویں جماعت ہی سے سائنس ، ریاضی حتّیٰ کہ تاریخ و جغرافیہ کی ہر اصطلاح کو قوسین میں انگریزی زبان میں بھی (الف) لکھا ئیں (ب) یاد کرائیں اور (ج) اصطلاحات کے علاحدہ امتحانات لے لیں۔ بچّہ اردو میں دائرہ بھی لکھ رہا ہے اور انگریزی میں سرکل بھی۔ کسی بھی مضمون میں مہارت کیلئے اسکولی سطح پر ۵۰۰؍اصطلاحات کی ضرورت ہوتی ہے اور اہم اصطلاحات کو سمجھانا اور یاد کرانا بچّوں کیلئے کھیل ہے بمشکل دو ماہ کا! اس ضمن میں اساتذہ کو یہ شکایت تھی کہ ان کیلئے کوئی رہنما کتاب دستیاب نہیں ہے۔ آج ہزاروں اساتذہ موجود ہیں، وہ یہ فریضہ انجام دے سکتے تھے۔ ہم نے اندازہ لگا لیا کہ اساتذہ اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاہتےکیونکہ محکمہ تعلیم سے ابھی تک ایسا کوئی سرکیولر جاری نہیں ہوا ہے،اسلئے وہ اسے کیوں رائج کریں؟
 اسلئے ۱۵؍ سال قبل ہم نے اس ضمن میں ایک کتاب مرتّب کی ’دوستی انگلش۔ اردو کی‘ جو مہاراشٹر اور کرناٹک کے کئی اسکولوں میں رائج ہے البتہ سائنس کے تعلق سے اس ضمن میں کام ابھی ادھورا ہے۔ کیا ہمارے سائنس کے اساتذہ اس تعلق سے کچھ جدّ و جہد کریں گے اور سائنسی اصطلاحات کی انگریزی اردو کی ایسی لغت مرتّب دیں گے جو (الف ) اردو کے پہلی سے دسویں جماعت کے طلبہ کیلئے کارآمد ثابت ہو اور (ب) جس میں اردو کے طلبہ کو انگریزی میں سائنس پڑھانے کیلئے تدریس کی منصوبہ بندی کی اساتذہ کیلئے رہنمائی بھی کی گئی ہو۔کچھ اساتذہ شاید یہ کہیں کہ اصطلاحات کی ایسی لغت کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ طلبہ آن لائن اِن اصطلاحات کے معنی معلوم کرسکتے ہیں۔ اُن سے یہ عرض ہے کہ آن لائن کا معاملہ صرف کسی ناگہانی آفت میں ممکن تھا۔ کلاس روم میں اسمارٹ فون کا عمل دخل ابھی نہیں ہے۔ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK