Inquilab Logo

’’محنت و ریاضت کے بغیر شاعری کا کوئی تصور نہیں ہے‘‘

Updated: January 02, 2023, 5:16 PM IST | mubasshir akbar | MUMBAI

نوجوان شاعر مقصود آفاق کے مطابق صرف چونکانے والے شعر کہنے سے مقبولیت تو مل جاتی ہے لیکن وہ ناپائیدار ہوتی ہے۔پیش ہے انٹر ویو سیریز کی دوسری قسط

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم ۱۰؍ نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچائیں گے ۔ اس سلسلے کی  دوسری  قسط کے تحت نوجوان شاعر مقصود آفاق کا انٹر ویو پیش کیا جارہا ہے۔ مقصود آفاق کا نام قارئین کے لئے نیا نہیں ہے۔ وہ نئی نسل کے شعراء  کے اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ شاعری کو دوبارہ اپنے زریں دور میں لے جائیں گے ۔ مقصود آفاق اپنی شاعری میں روایتی موضوعات کوجدید انداز فکر سے پیش کرنے میں مہارت حاصل کرتے جارہے ہیں۔ ان کا تعلق اردو کے لئے زرخیز خطے ودربھ کے واشم ضلع سے ہے۔وہ ممبئی میونسپل کارپوریشن میں طلبہ کو  زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں ۔ مقصود آفاق سے اتنی امیدیں وابستہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی پہلی کتاب ’اعتبار‘ جو ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی  تھی، اس پر مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی نے انہیں انعام سے نوازا تھا جبکہ ۲۰۲۱ء میں ان کی دوسری کتاب ’گریہ ‘ شائع ہوئی تو انہیں مرکزی ساہتیہ اکیڈمی نے ’یوا ایوارڈ ‘ سے نوازگیا۔ وہ حال ہی میں دہلی میں منعقدہ تقریب میں یہ ایوارڈ حاصل کرکے ممبئی واپس آئے ہیں۔ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ’زعم‘  زیر ترتیب ہے جو جلد ہی منظر عام پر آئے گا۔  
 آپ نے لکھنا کب سے سے شروع کیا ؟ شروعات میں لکھتے وقت کیا دقتیں آئیں؟
 میں نے باقاعدگی سے شعر کہنے کا آغاز ۲۰۱۰ء سے کیا ۔ ابتدا میں اکولہ کے شاعر ساجد محشر میری رہنمائی کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں کافی دقتیں آئیں،اوزان کا معاملہ ہو یا عنوانات کا اور اگر یہ ٹھیک بھی ہوجاتا تو شعر میں شعریت پیدا نہیں ہوپاتی تھی۔ظاہر ہے یہ دشواریاں وقتی تھیں، عروض کے ساتھ شعر کہنے کی مشق کرتے کرتے اتنی صلاحیت تو پیدا ہو ہی جاتی ہے کہ شاعر باوزن شعر کہہ سکے البتہ شعریت پیدا کرنے کی جدو جہد آج بھی جاری ہے ۔
 اظہار خیال کیلئے شاعری ہی کیوں؟
 شاعری سے لگاؤ مجھے بچپن سےتھا۔ میرے والد ادبی  محفلوں میں شعر پڑھا کرتے تھے اور سامعین کی واہ واہ مجھے شاعری کی طرف متوجہ کرتی تھی ۔ بچپن سے ہی زندگی آزمائش پہ اتر آئی تھی اور حالات ایسے بن گئے تھے کہ مجھے اس وقت صرف شعروں سے حوصلہ ملتا تھا یہی  وجہ ہے کہ میں شعر کہنے لگا۔حالانکہ شاعر بننے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا  ۔ 
  جب آپ کسی خیال کو شعرمیں پیش کرتے ہیں تو اس وقت آپ کو سب سے زیادہ مدد کس سے ملتی ہے؟ 
    یہ شاعر کی اپنی صلاحیت اور مشق پہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کس طرح پیش کرتا ہے۔ کسی خیال کو نظم کرتے وقت شاعر کی قوت احساس بہت معنی رکھتی ہے۔ شاعر جس حد تک محسوس کرسکے گا اسی سطح پر شعر کہے گا۔ البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ میں کسی احساس کو شعر میں پرونے کی کوشش اس وقت تک نہیں کرتا جب تک میں اس کی تہہ میں نہ اتر جاؤں  اور وہ کیفیت خود پہ طاری نہ کرلوں ۔ 
آپ کے استاد آپ کے رہنما ہیں یا آپ کا مطالعہ؟
  میرے رہنما میرے استاد بھی  ہیں اور مطالعہ بھی، شاعر وقتاً فوقتاً دونوں سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ مطالعے کی اہمیت زیادہ  زیادہ اس لئےہے کہ مطالعہ کرتے وقت میں روایتی شاعری اور روایتی ادوار کو بہت قریب سے دیکھتا ہوں جس سے نئی اور جدید شاعری کے لئے راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
  بطور قلم کار مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں ـ 
 مطالعے کے بغیر قلمکار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ مطالعہ تو غذا ہے جو ضرورت کے مطابق نہ ملے تو قلمکار بالکل ناتواں ہو جاتا ہے۔ مطالعہ ہی سے قلمکار نئے مضامین، روایتی فکر، روایتی طرز، پرانے حالات اور شعری حوالوں سے واقف ہوتا ہے۔ شاعری کے حوالے سے بھی مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ تخیلات میں وسعت بغیر مطالعہ  کے پیدا ہوہی نہیں ہوسکتی۔ 
 آپ اپنے تخلیقی شعبے میں کسے اپنا آئیڈیل مانتے ہیں؟ 
 غالب سے زیادہ اور کون آئیڈیل  ہوسکتا ہے۔ غالب کے ہم عصر شعراء بھی مطالعے میں رہے ہیں اور جدید شعراء بھی۔ مجھے دور حاضر کے کچھ چنندہ شعراء نے بہت متاثر کیا ہےلیکن یہاں صرف غالب کی بات کروں گا کہ غالب وہ شاعر ہے جسے پڑھنے کے بعد اسے سمجھنے کی لگن ہوتی ہے اور غالب کی فکر اور تخیل کی پرواز اتنی وسیع ہے کہ ہر شاعر غالب کی فکر سے استفادہ کرسکتا ہے۔ غالب کو پڑھنے سے غالب سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہ ضرور سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے اندر گہرائی و گیرائی رکھنے والا شعر کہنا کوئی آسان کام نہیں۔ غالب کے تخیل کا کمال یہ ہے کہ غور کرنے پر مضامین کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور قاری اپنی فکر کی مناسبت سے شعر کا مفہوم اخذ کر سکتا ہے۔
 بنیادی طور پر آپ کے لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
 کوئی منصوبہ بند مقصد نہیں ہے البتہ اپنی کیفیات اور احساسات کو شعری شکل دے کر تھوڑا بہت خوش ہوجاتا ہوں۔  حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مقصد بنا لیا ہے کہ میری شعری تخلیقات پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن و دل پر وہ  تمام کیفیات طاری ہوں جو میں نے بیان کی ہیں  اور اسے شعر  پڑھ کر اک تسلی ملے ۔ 
 کیا آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟ 
   فی الحال تو اس کا جواب مشکل ہےکیوں کہ اگر مطمئن ہوجاتا توشاید قلم جمود کا شکار ہوجاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی شاعر اپنی  شاعری سے مطمئن نہیں ہو سکتا ۔ وہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ جو شعری تخلیقات مجھ سے سرزد ہوتی رہیں گی وہ کیا ہیں اور کیسی ہیں یہ پڑھنے والے طے کریں۔
 ادب میں جونیئر ہونے  کے سبب کوئی دشواری ہوتی ہے؟ 
    دراصل دشواری تب ہوگی جب وقت سے پہلے پیر جمانے کی کوشش کروں گا۔ میرا ماننا ہے کہ میں شعری تخلیقات پر خوب محنت کروں اور ایمانداری سے اپنا کام کروں تو پیر خود بخود جمتے جائیں گے جمانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اپنے اصول یا مزاج کی وجہ سے اپنی شعری صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
 آپ کے نزدیک ادب کیا ہے؟ اور کیا آج کی  تیز رفتار زندگی میں ادب کی ضرورت ہے؟ 
 ادب ہمارے معاشرے کاعکاس ہوتا ہے۔ادب کی ضرورت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ ادب کا طرز، ادب پڑھنے اور لکھنے کا اسٹائل زمانے کے ساتھ یقیناً  تبدیل ہوا ہے مگر ادب کی ضرورت میں کمی نہیں آئی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس بات کو کم محسوس کیا جاتا ہو۔ زمانے کی تیز رفتاری سے صرف ادبی تقاضوں میں فرق آیا ہے لیکن ادب کی اہمیت آج بھی قائم ہے اور ہمیشہ رہے گی۔  
عصری ادبی منظر نامے میں شاعر و ادیب کا کردار بیان کیجیےـ 
 شاعر و ادیب سے ہمیشہ بہت توقعات وابستہ رہی ہیں۔ آج کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شاعر و ادیب پہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ سماجی اور معاشرتی مسائل کا حل پیش کرے۔ اپنے گرد و پیش کے معاملات پہ سنجیدگی سے گفتگو کرے اور اپنی فکر و تخیل کے ذریعے حل تلاشنے کی کوشش کرے۔ شاعر اور ادیب سماج کا آئینہ دار ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ سماج کی سچی تصویر پیش کرے۔ ساتھ ہی   ادیب کا غیر جانبدار ہونا بہت ضروری ہے۔
کیا متفق ہیں کہ عصری شاعری کا معیار کم ہو رہا ہے؟ اگر ہاں تو چند ایک وجوہات  بتائیں ـ
 کسی حد تک متفق ضرور ہوں کیوں کہ ہم نئے موضوعات پیش کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کیونکہ انسانی مسائل ہوں یا زندگی کی تلخیاں آج بھی وہی ہیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں صرف طرز زندگی اور ٹکنالوجی کی رفتار کا فرق ہے، ایسے میں ہمیں نئے موضوعات تلاش کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ شاعری کے معیار سے گرنے کی اک اور وجہ ہے کہ نئے شعراء سطحی شعر کہہ کر نوجوان طبقے کو متاثر کرنے اور چونکانے میں لگے ہوئے ہیں۔شاعر کو مقبول ہونا چاہئے لیکن اس کیلئے محنت سے جی نہیں چرانا چاہئے۔ 
نئے قارئین پیدا ہوں اس کے  لئے آپ کیا کرنا چاہیں گے؟ 
 آج جدید بھاگ دوڑ والی زندگی میں نئے قارئین پیدا کرنا ایک طرح کا چیلنج  ہے۔ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی تخلیقات قدرے آسان زبان میں نئی نسل تک پہنچائیں کیونکہ جو متن سمجھ میں آتا ہے اسی کے تئیں دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نئے قارئین کا رجحان اگر ادب کی طرف موڑنا ہو تو ہم  سوشل میڈیا، ویب سائٹس، موبائل فون سمیت  ان تمام جدید ذرائع کا استعمال کرسکتے ہیں ۔
 موجودہ حالات میں نوجوان ادیبوں کا کردار
 موجودہ دور میں نوجوانوں سے جتنی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں وہ سب درست ہیں لیکن نوجوان ادیبوں کی تربیت و پرورش میں آنے والی رکاوٹوں کا ازالہ بہت ضروری ہے تاکہ نوجواں ادباء اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہوجائیں۔ ساتھ ہی وہ محنت و ریاضت سے جی نہ چرائیں۔

poetry Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK