Inquilab Logo

نظام الدین نظام کا شعری نظام

Updated: April 03, 2023, 1:50 PM IST | Maqsood Afaq | Mumbai

نظام الدین گہری فکروں کے بلند شاعر تھے، ان کا شعری نظام بڑا وسیع و عریض ہے جس میں امکانات سے لے کر شعری پائیداری چمکتی اور دمکتی دکھائی دیتی ہے

Nizamuddin Nizam
نظام الدین نظام

نظام کے شعری نظام جس کی وسعت کو ناپنے کا پیمانہ شاید مجھ ناچیز کی دسترس میں نہیں ہے۔ مجھ جیسے چھوٹے سے طالب علم کا ان کی شعریات پہ گفتگو کرنے کی جسارت کرنا کہیں ان کے حق میں توہین آمیز نہ ہو جائے۔ میں نے کچھ سال پہلے جب نظام صاحب کی غزلیں پڑھی تھیں تب سے مجھ میں ان کی شاعری کو لے کر اک عجیب سی تشنگی پیدا ہوگئی تھی۔ ان کا پہلا مجموعہ’’ لاشعور‘‘ پڑھنے کے بعد سے یہ احساس غالب رہا کہ لاشعور نے میرے شعور کے تاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی وقت سے نظام کی شاعری کو پڑھنے کی پیاس اپنے عروج کو پہنچتی رہی اور بڑے طویل انتظار کے بعد آج اس تشنگی کو بڑھانے کا ذریعہ ’’دوسری زمین‘‘ کی شکل میں دستیاب ہوپایا ہے۔
سیکڑوں سال پرانی ہے مرے گھر میں کتاب
روز پڑھتا ہوں مجھے روز نئی لگتی ہے
 نظام الدین نظام کا یہ شعر ان کے کامیاب شاعر ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ غزل کی کرم فرمائی ہر شاعر پر نہیں ہوتی لیکن ایسے شعراء جن کی شعری تربیت میں کتابوں کا سو فیصد کردار رہا ہے یقیناً ایسے شعرا ءغزل کی سلطنت میں شہزادے کا درجہ رکھتے ہیں۔ نظام بھی غزل کی سلطنت کے وہ شہزادے ہیں جن کی تربیت میں کتابوں نے ماں کا کردار ادا کیا ہے۔
ایک جگہ نظام کہتے ہیں کہ...
بھیگے ہوئے بادل کی تمنا بھی کسے ہے 
صحرا میں مرا کام تو ٹھوکر سے چلے گا
یہ شعر نظام کی اس خوداعتمادی سے پردہ ہٹاتا ہے جو ان کی مایوسیوں اور بے بسی پہ ہمیشہ غالب رہا۔ ان کی زندگی جتنی مصائب و آلام کا شکار رہی اس کی پوری پوری تصویر ان کی شاعری میں واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ نظام کی پوری شاعری ان کے حالات زندگی کا عکس ہے۔ انہوں نے اپنے کرب کو اپنی قسمت کا لباس پہنا کر بیان کیا ہے۔ وہ کبھی بے بسی کی دسترس میں نہیں آئے۔ ان کی بیباکی ہی ان کا سب سے بڑا کمال ہے۔ 
 نظام الدین گہری فکروں کے بلند شاعر تھے۔ ان کی وسیع النظری کا ثبوت آج ہم سب کے ہاتھوں میں ہے۔ نظام کا شعری نظام بڑا وسیع و عریض ہے جس میں امکانات سے لے کر شعری پائیداری چمکتی اور دمکتی دکھائی دیتی ہے۔ روایتی اوصاف کی خوشبو نظام کی پہچان ہے۔ ان کی غزلوں میں خیال کی پختگی کے ساتھ تشبیہات اور استعارات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ شاعر کی صاف گوئی اس کا بڑا وصف ہوتی ہے اور اس معاملے میں نظام نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اپنی جگہ ہر حالت میں بیباک نظر آتے ہیں۔ اپنی تخلیقات کے آئینے میں نظام نے کبھی خود کو لاچار نہیں دیکھا ہوگا۔ ان کی شاعری میں ان کی اختیاری روش صاف دیکھی اور محسوس کی  جاسکتی ہے۔
 مضامین کا انتخاب ان کی فکری اونچائی کی دلیل ہے اور انہیں بیان کرنے کا ڈھنگ نظام کو منفرد بناتا ہے۔ ان کی غزلوں سے ان کی کھلی ہوئی اور وسیع ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ ورنہ آج کل غزل پڑھ کر اتنا تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کے خالق کی فکری پرواز کہاں تک ہے۔ 
 نظام الدین کی شاعری میں فلسفے سے زیادہ ان کے ذاتی تجربات کا غلبہ ہے اور ممکن ہے ان کا موقف بھی یہی رہا ہو۔ فلسفیانہ باتوں کی چمک سے کئی زیادہ اہم تجربات کی لَو ہوتی ہے جو انسانی قدروں کی حقیقی تصویر دکھاتی ہے۔انہی کی بدولت ہمیںوہ احساسات اور جذبات نصیب ہوتے ہیں جو بعد میں ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ نظام الدین نظام نے اپنے شعروں میں وہی بات نظم کی جو اُن پر کسی دکھ کی صورت گزری ہے۔ تبھی تو ان کی شاعری شدید جذبات اور احساسات کے پیرہن میں لپٹی ہوتی ہےلیکن یہ شدید جذبات کہیں پر بھی بوجھل نہیں ہوتے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا لازوال دکھ انہیں لازوال شاعر بنا گیا۔ انہوں نے کنارے سے سمندر کا تماشہ نہیں دیکھا بلکہ سمندر میں اتر کر تجربات کئے اور اسے اپنی غزل میں پروکر قارئین کے سامنے پیش کیا۔ آج ہمارے سماج کو اسی حقیقت پسندی پر مبنی شاعری کی اشد ضرورت ہے اور نظام کی شاعری اس کسوٹی پر کھری اترتی ہے۔
  نظام الدین نظام کی زبان انتہائی شائستہ ہے لیکن ابہام اور مشکل پسندی کا گماں ضرور ہوتا ہے اور یہی گماں ان کی شاعری کو لازوال بناتا ہے کیونکہ ابہام شاعری کا حسن ہوتا ہے۔ اسی حسن سے قاری متاثر ہوتا ہے اور شعر کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ قاری اپنی غوروفکر کی صلاحیت کی بنا پر اس حسن کی پرتیں کھولتا جاتا ہے اور اس سے مستفیض ہوتا جاتا ہے۔ یقیناً نظام کی محنت اور مشق کے سبب ان کے کلام میں یہ حسن پیدا ہوا ہے۔  ان کے کلام میں مشکل پسندی کی موجودگی روایتی زمینوں پر ان کے واضح نقش قدم کی پختہ دلیل ہے۔  نظام نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان کی شاعری میں کبھی امید و یاس کی کرنیں اپنا رنگ بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں تو کبھی ان کا انتقامی جذبہ بام عروج پر نظر آتا ہے۔ دوسری زمین کے مطالعے سے ایک بات صاف ہوجاتی ہے کہ ’’شعریت میں قناعت‘‘ کرنا انہیں بالکل بھی گوارا نہ تھا۔ 
 خواب کے پردوں پر تعبیروں کا عکس انہوں نے نہایت سنجیدگی اور شفافیت کے ساتھ بنایا ہے۔ اپنے احساسات کو نظم کرنے کا انداز اور لفظوں کو برتنے کا فن نظام کے مطالعے اور محنت کی گواہی دے رہا ہے۔ مطالعہ کی مدد سے ہی انہوں نے اپنی شعری کائنات تخلیق کی تھی ۔ نظام الدین نظام کی غزلیں عالمِ اداسی میں آتے اس خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح   ہےجو اپنے ساتھ جنوں کی خوشبو اور دیوانگی کا لمس لے آتا ہے۔ دوسری زمین کے مطالعے کے بعد میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ نظام کے بہت سے اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن افسوس ہم نے اور وقت نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
آخر میں نظام کے کچھ چنندہ اشعار  پیش کرنا چاہتا ہوں....
چلو کہ کچھ نہ ہوا گھر تو ہوگیا ہوتا=کچھ اعتبار زمیں پر تو ہوگیا ہوتا
یہی ہوا کہ سفر ہوسکا نہ باطن کا=میں اپنے آپ سے باہر تو ہوگیا ہوتا
 جلتی ہے اختلاف کے شعلوں میں گفتگو =سگریٹ ہے انگلیوں میں لبوں پر دھواں دھواں
ہم ایسے کم نصیب بھی شہرِ سخن میں ہیں=شہکار اک غزل نہ کہی تیس سال میں
 خشک آنکھوں کو کریدا تو سمندر نکلے=جیسے چٹان سے لاوا سا ابل کر نکلے
آگ پھیلے تو ضروری ہے کہ پتھراؤ بھی ہو=تاکہ جب جل نہ سکے خون تو بہہ کر نکلے
 سیکڑوں سال پرانی ہے مرے گھر میں کتاب=روز پڑھتا ہوں مجھے روز نئی لگتی ہے
ہر قدم پر آس کے سوکھے ہوئے اشجار ہیں=نامرادی کے جزیرے میں اتر کر دیکھنا
جدا ہے تیرا سلیقہ ہے تیرا ڈھنگ الگ=لگے ہے سارے مناظر میں تیرا رنگ الگ
غزل کے در پہ بڑا اژدہام ہے لیکن=نظام نام ہے جس کا وہ اک ملنگ الگ
(یہ مقالہ نظام الدین نظام کے دوسرے شعری مجموعے ’’ دوسری زمین ‘‘ کی رسمِ اجراءکے موقع پر پڑھا گیا تھا ۔ اسے قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا گیا ہے۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK