Inquilab Logo

’’خِرمن میں صرف شاعری نہیں ،محبتیں بھی شامل ہیں‘‘

Updated: December 05, 2022, 9:58 AM IST | Mumbai

معروف شاعر و نغمہ نگار جا وید اختر نے ممبئی یونیورسٹی میں منعقدہ جلسےمیں مضطر کی کلیات ’ خرمن‘ پر منفرد انداز میںگفتگو کی جو من و عن یہاں پیش کی جارہی ہے

Renowned lyricist and script writer Javed Akhtar delivering the keynote speech; Photo: INN
معروف نغمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر جاوید اختر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے;تصویر :آئی این این

گزشتہ دنوں کو شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی  نے کلیاتِ مضطر خیرآبادی ’’خرمن‘‘ پر محاضرے کا انعقاد کیا۔اس موقع پر جاوید اختر نے کلیدی خطبہ دیا جس میں انہوں نےاردو زبان ادب کے تعلق سے اپنے آباو اجداد کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کلیاتِ مضطر کی ترتیب اور اشاعت کے مقصد پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر جاوید اختر نے جو کلیدی خطبہ دیا وہ قارئین کیلئے ذیل پیش کی جارہی ہیں۔
’’خرمن ‘‘ کی بازیافت
 ’’میرے والد جانثار اختر کو گزرنے کے چند برسوں بعد میری سوتیلی والدہ بھی انتقال فرما گئیں۔وقت گزرتا گیا اور پھر والد صاحب کے انتقال کے تقریباً ۲۰؍ برس بعد میرے بھائی شاہد نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا ۔ظاہر ہے کہ گھر کام سارا سامان اب دوسرے گھر جانا تھا ۔ایک مسہری کے نیچے سے ایک خاصہ پرانا دفتی کا ڈبہ بھی نکلا۔ جس میں کچھ پرانے رسالے اور کاغذات بھرے تھے۔ شاہد نے یہ اعتبار کرکے کہ میں بہتر سمجھ سکوں گا کہ ان میںسے کوئی کاغذ کام کا ہے یا نہیں ،وہ ڈبہ جوں کا توں مجھےبھیج دیا ۔میں نے بھی سرسری دیکھ کراسے احتیاط سے اپنے گھر کے ایک گودام نما کمرے میں رکھوا دیا کہ کسی دن فرصت سے اسے دیکھیں گے۔ اب یہ بات الگ ہے کہ ممبئی جیسے صنعتی شہر کی مشینی زندگی میں عنقا تو پھر بھی دستیاب ہوجائے،فرصت ملنے کے امکانات ذرا کم ہوتے ہیں۔یقین کیجئے،میں نےپلک جھپکائی اور تقریباً ۸؍ برس گزر گئے۔پھر جو ہوا اسے ایک دن ہونا ہی تھا۔ ایک دن بس بیٹھے بیٹھے مجھے اس ڈبے کا خیال ، منگوایا کہ چلو دیکھتے ہیں کہ ہے کیا اس میں ۔کچھ پرانے رسالے ۔کچھ دھوبی کے حساب کی کاپیاں۔کچھ اختر صاحب کے مداحوں کے محبت نامےاور ایسے خط بھی ملے جو یقیناً قیمتی تھے اور ان سب کے نیچے سرخ کپڑے میں بندھا کاغذات کا ایک پلندہ۔میں نے یہ گھٹری جو کھولی تو ششدرہ رہ گیا۔سنا ہے راجاؤںاور نوابین کے غریب ورثا کو اپنی پرانی،موروثی حویلیوں میں محلات کے فرش کے نیچے دبے خزانے آج تک کبھی کبھار مل جاتے ہیں ۔ میں اپنے دور کے اہل قلم ،اہل ادب ،شاعری کی دولت سے مالا مال،بزرگوں کا ایک غریب وارث حیرت اور عقیدت سے اس خزانے کو دیکھ رہا تھا ۔مضطر کے غیر مطبوعہ کلام کا ایک مسودہ ’’خرمن‘‘ ، ان کے لکھے ہوئے چند خطوط،ان کے بیٹے جاں نثار اختر کا ان کی حیات و شاعری پر ایک مضمون ملا۔‘‘
خرمن کی ترتیب و تدوین کا  آغاز
 ’’ابھی کچھ عرصے پہلے مجھے میری بہن عنیزہ نے بتایا کہ ان کی والدہ مرحومہ محترمہ خدیجہ جاں نثارنے ،اختر صاحب کے انتقال کے بعد ایک ذمہ دار بیوی اور ادب شناس خاتون ہونے کے ناطے اس مسودے کی کتابت بھی کروائی تھی کہ اسے شائع کروایا جاسے،مگر غالباً ان کی علالت اور پھر انتقال کے بعد بات وہیں کی وہیں رہ گئی۔ وہ کتابت شدہ صفحات تو نہ جانے کہاں گئے اور زندگی کی نفسا نفسی میں یہ مسودہ بھی ایک بار پھر سب کے دھیان سے اوجھل ہوگیا ۔‘‘
کلام کے حصول میں مختلف شہروں کا سفر
 اسے خوردبین سے میں نے دیکھا یہ الگ بات ہے ورنہ واقعتاً یہ مسودہ اشاعت کیلئے کافی تھا۔تاہم، مجھے مناسب،صحیح اور ضروری یہی لگا کہ اب اگر اتنے برسوں کی تاخیر کے بعد کلام مضطر ایک مجموعے کی شکل میں منظر عام پر آتا ہے تو کچھ تاخیر اور سہی مگر اب ان کا کلام جہاں سے بھی ،جتنا بھی مل سکتا ہے،حاصل کیا جائے۔یہ جانے کتنے پرانے مخطوطات،نہ جانے کتنے شہروں اور ذاتی کتب خانوں میں بکھری ہوئی چھپتی ہوئی ،کھوئی ہوئی مضطر خیر آبادی کی شاعری،مصرع مصرع مل جائے یہ تو ممکن نہ تھا، کہ وقت نے کلیات کا سنگ میل چھونے کے امکانات تو معدوم کردیئے تھے مگر پھر بھی اتنا یقین تھا کہ بہت کچھ کلام،کوشش کی جائے تو اب بھی مل سکتا ہے۔ یہ بیڑا میرے دو نوجوان دوستوں عبید اعظم اعظمی اور سہیل اختر وارثی نے اٹھالیا۔خیر آباد،لکھنو،ٹونک،ماؤنٹ آبو، رامپور، اندور، گوالیار، بھوپال اور جہاں جہاں زندگی مضطر خیر آبادی کو لے گئی تھی،وہاں وہاں ان کے کلام کی تلاش کی گئی۔کہیں کم کہیں زیادہ کامیابی بھی ملی ۔‘‘
 تدوین کے دوران ایک حیرت انگیز واقعہ 
 ’’ممبئی میں قلابہ کے علاقے میں ایک  آرٹ گیلری ہے،وہاں  مجھےایک پروگرام کیلئے مدعو کیا گیا تھا ۔وہاں کافی گہما گہمی تھی۔اس ہنگامے میں ایک لڑکی میرے پاس آئی اور انتہائی ادب سے نہایت شستہ اردو میں مجھ ےس بات کرنے کی اجازت مانگی۔اس کی زبان اور شائستگی نے مجھے متوجہ کرلیا۔اس نے اپنا نام زیبا بتایا  اور مجھے مضطر اور اپنے پر دادا کے حوالے سے ایک  ایسی بات بتائی کہ میرے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ میں اس آرٹ گیلری سے نکلنے کے بعد اس کے ساتھ سیدھا اس کے والد کے نیاز اور ان سے مضطر کے متعلق مزیدمعلومات حاصل کرنے نہ جاتا۔زیبا کے والد  مقبول حسین خان صاحب کا گھر دراصل گھر کم اور لائبریری زیادہ لگ رہا تھا ۔بڑے خلوص سے ملے ،انہوںنے مجھے بتایا کہ وہ ایک عرصے سے مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ مقبول حسین خان کے دادا مرحوم سر اسرار حسن خان صاحب ریاست بھوپال میں نواب سلطان جہاں بیگم اور ولی عہد بھوپال نواب محمد نصر اللہ خان کے دور میں جوڈیشیل منسٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ مضطر سے گہری دوستی تھی۔نواب نصرت اللہ کے انتقال کے بعد مضطر بھوپال سے اندور منتقل ہوگئے اور اس عمل میں مضطر کے ایک قصیدے کا قلمی نسخہ اور دیگر کاغذات وہیں شیش محل میں رہ گئے،جنہیں سر اسرار حسن خان نے امانت سمجھ کر رکھ لیا ۔یہ امانت کبھی واپس نہیں کی جاسکی اس لئے کہ ۱۹۲۷ء میں مضطر کا  گوالیار میں انتقال ہوگیا ۔‘‘
مضطر کے قلمی نسخہ اور کاغذات  مل گئے
  ’’مضطر کا یہ قلمی نسخہ اور کچھ ذاتی کاغذات سر اسرار حسن خان کے بعد ان کے بیٹے خان بہادر خادم حسن خان کی تحویل میں رہے اور پھر ان کے  گزر جانے کے بعد ان کے بیٹے مقبول حسن خان صاحب کے ذاتی کتب خانے میں آگئے۔ مقبول  حسن خان صاحب نے مجھے مضطر کے طویل قصیدے،کاشانۂ دل کا قلمی نسخہ دیا جو مضطر کی خطاطی کا نادر نمونہ بھی تھا۔میں اسے صرف دیکھتا رہا ،ظاہر ہے مانگنے کی جرات تو نہیں کر سکتا تھا ۔انہوںنے وعدہ کیا اگلی بار ملاقات کریں گے تو کچھ مزید ضروری کاغذات ڈھونڈ کر رکھیں مگر زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی۔مقبول حسن کے انتقال کے بعد ان کی بیٹیوں نے مجھ سے رابطہ کیا ۔ میں ملنے گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ یہ قلمی نسخہ اور لفافہ بدست خود آپ کے حوالے کریں۔میں کہاں سے الفاظ لاتا کہ اس سادگی اور شرافت کا مکمل شکریہ ادا کرسکتا۔‘‘کلیاتِ مضطر کی پانچ ضخیم جلدیں ہیں جس کے مرتبین جاوید اختر، عبید اعظم اعظمی اور سہیل اختر وارثی ہیں، جن کی برسوں کی دیدہ ریزی اور اَن تھک کوششوں کے بعد یہ کلیات پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

poetry love Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK