Inquilab Logo

حقوق العباد کی بھی فکر کیجئے

Updated: May 21, 2021, 4:53 PM IST | Maulana Arshad Madni

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جو احکام دیئے ہیں ان میں دو قسم کے فرائض بندوں پر لازم ہوتے ہیں : ایک وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو بندے پر اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر عائد ہوتی ہیں جیسے ایمان لانا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا وغیرہ۔ اِن فرائض کو حقوق اللہ کہاجاتا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جو احکام دیئے ہیں ان میں دو قسم کے فرائض بندوں پر لازم ہوتے ہیں : ایک وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو بندے پر اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر عائد ہوتی ہیں جیسے ایمان لانا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا وغیرہ۔  اِن  فرائض کو حقوق اللہ کہاجاتا ہے۔ دوسرے وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ایک بندے پر دوسرے کیلئے لازم کی ہیں۔ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ یہ حقوق العباد (بندوں کے حقوق)  ، اس اعتبار سے زیادہ اہم ہیں کہ ان میں اگر کوتاہی ہو جائے اور بندہ اگر ان کو ادا نہ کر سکے تو صرف توبہ واستغفار سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ ان کو ادا نہ کر دے یا جس بندے کے حق میں کوتاہی کی ہے وہ معاف نہ کر دے، جب کہ حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) صرف توبہ واستغفار سے معاف ہو جاتے ہیں بلکہ اگر بندہ توبہ بھی نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ آخرت میں سزا دیئے بغیر صرف اپنے فضل وکرم سے معاف کر سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے  : ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو (سزا دے کر بھی) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے (بلکہ ہمیشہ سزا میں مبتلا رکھیں گے) اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں (خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ) جس کے لئے منظور ہوگا (بلا سزا) وہ گناہ بخش دیں گے۔‘‘  (بیان القرآن) (سورۃ النساء آیت :۴۸)دوسری طرف حقوق العباد کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ   کا ارشاد مبارک ہے: ’’شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔‘‘ (مسلم شریف) کسی شخص کا قرض کسی کے ذمے میں ہے تو جب تک ادا نہ کر دے وہ معاف نہیں ہو سکتا خواہ کتنا ہی بڑا نیک عمل کر لے، یہاں تک کہ اللہ کے راستے میں اپنی جان ہی کیوں نہ دے دے۔  امام نووی ؒ  نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرض سے مراد تمام حقوق العباد (بندوں کے حقوق) ہیں۔ ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ   نے بندوں کے حقوق کی اہمیت اس انداز سے بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں کوتاہی نہ صرف یہ کہ آخرت میں سخت باز پرس کا سبب بنے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے ادا کئے ہوئے حقوق بھی اکارت ہو جائینگے، بندوں کے حقوق میں غفلت اور زیادتی کرنے والے لوگ اپنی نماز، روزے اور دیگر عبادتوں کا ثواب حاصل نہ کر سکیں گے، ان عبادتوں کا ثواب ان مظلوم بندوں کو دے دیا جائے گا جن کے حقوق ان عبادت گزار بندوں نے پامال کئے ہوں گے۔ مزید برآں اگر ظلم اور زیادتی کی تلافی ظالموں کی نیکیوں سے نہ ہو سکی تو مظلومین کے گناہوں کا بوجھ ظالموں کے سروں پر ڈال دیا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے  : ’’کہ تم لوگ جانتے ہو فقیر کون ہوتا ہے؟  صحابہؓ نے عرض کیا کہ فقیر تو وہ ہے جس کے پاس پیسہ کوڑی نہیں ہے۔ آپ ﷺ  نے فرمایا کہ میری امت میں (در اصل) فقیر وہ ہے جو کل قیامت کے دن نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی عبادتیں لے کر حاضر ہوگا لیکن دنیا میں کسی کو گالی دی تھی، کسی پر جھوٹا الزام لگایا تھا، کسی کا ناحق مال لیا تھا، کسی کی عزت پر حملہ کیا تھا، کسی کو ظلماً مارا تھا اور کسی کو ناحق قتل کیا تھا، اب قیامت کے دن ہر مظلوم آدمی اس ظالم کی نماز ، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے ثواب سے ظلم کے بقدر ثواب لے کر جائے گا۔ اب اگر ظالم کے اچھے کاموں کے ثواب سے سب کا حق ادا ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ باقی مظلوموں کے گناہوں کو سمیٹ کر اس ظالم پر ڈال دیا جائے گا اور جہنم میں ڈھکیل دیا جائیگا۔‘‘ (مسلم شریف)کن کے حقوق واجب ہیں  ؟:اب ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ ہم پر کن کن لوگوں کے حقوق واجب ہیں تو اس سلسلہ میں قاعدہ تو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کا ایک دوسرے پر حق نہ ہو۔ علماء کرام نے اس حوالے سے ایک آیت کریمہ کو بنیاد بنایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ جامع وبلیغ کلام ہے  :  ’’وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے فائدے کیلئے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہے سب کا سب۔‘‘ (سورۃ البقرہ:۲۹)  اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہر شے سے وہ نفع اٹھایا جائے جس کیلئے اللہ نے اس کو پیدا کیا ہے اور ان موقعوں پر اس کو صَرف کیا جائے جن میں صَرف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کا دنیا کی ہر چیز سے نفع کا تعلق ہے، ایک طرح کا لگاؤ ہے، اس لگاؤ کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس کی ترقی و حفاظت کی کوشش کی جائے اور ہر اس پہلو سے بچایا جائے جس سے اس کا نفع ختم ہو جائے یا نفع پہنچانے میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو اور اسی کا نام حق ہے جس کو خود ادا کرنا ضروری ہے۔ اس آیت کے ضمن میں علماء نے لکھا ہے کہ ہر شے کے، خواہ جاندار ہوںیا غیر جاندار، ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔  شاید اسی لئے، اس آیت سے کچھ پہلے کفار و فساق کی بُری صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے  : ’’یہ فاسق اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے  والے ہیں ۔‘‘(سورۃ البقرہ :۲۷) حضرت تھانویؒ  فرماتے ہیں کہ اس میں تمام تعلقات شرعیہ داخل ہیں، خواہ وہ تعلقات ہوں جو بندے اور خدا کے درمیان ہیں یا وہ جو اس کے اور اقرباء اور رشتہ داروں کے درمیان ہیں اور جو عام اہل اسلام کے درمیان ہیں اور عام انسانوں کے درمیان ہیں۔      (بیان القرآن)
 آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حقوق کو ادا نہ کرنا دُنیا میں فساد و بے امنی کی بنیاد اور جڑ ہے۔
 یہ تو ایک عام ضابطہ ہوا، اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں اس قدر تفصیل سے بندوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے کہ شاید ہی دوسرے حقوق پر اتنی تفصیل وارد ہوئی ہو، مثلاً ارشاد خداوندی ہے:  ’’اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی، اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غرباء کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضے میں ہیں۔‘‘ (سورۃ النساء:۳۶)
 اس آیت کریمہ کی جامعیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے عالم کے انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی وصیت فرمادی گئی اور لطیف پیرائے میں ان کے اہل حقوق میں ترتیب بھی قائم ہو گئی کہ والدین کا حق اہل قرابت پر مقدم ہے اور اہل قرابت کا یتیموں وغیرہ پر، اسی طرح تمام اہل حقوق میں ترتیب ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ ترتیب اسی وقت ہے جب کہ یہ اہل حقوق (یعنی جن کا حق ہے وہ) حق پر قائم ہوں اور اگر کوئی باطل پر ہے مثلاً اہل قرابت اور یتیموں کا کوئی معاملہ ہے اور یتیم حق پر ہیں تو محض قرابت کی بنیاد پر اہل قرابت کا تعاون نہیں کیا جائے گا۔  اس کو عصبیت کہا جاتا ہے جو شریعت میں انتہائی مذموم عمل ہے۔
کیا کیا حقوق واجب ہیں؟
 ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ بندوں کے کیا کیا حقوق ہم پر واجب ہیں:  تو اس سلسلے میں بات اصل وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی کہ ہر اس پہلو سے بچا جائے جس سے اس کا نفع ختم ہو جائے یا اس کے نفع پہنچانے میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو۔  اس کی تفصیل یہ کی جاسکتی ہے کہ خلق خدا کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔  دولت، عزت، علم اور جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں ہم کو دی ہیں ان کو بانٹا جائے۔ والدین، رشتہ دار، پڑوسی اور ضرورت مندوں کی خدمت کریں، ان کی مشکلات میں سہارا بنیں، کسی کا مال نہ کھائیں، اپنے ماتحتوں سے ہمدردی کریں اوران کے  آرام و ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔ حق تو یہ ہے کہ یہ چیزیں اس وقت معلوم ہو سکتی ہیں جب دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ دین میں مجھ سے کیا کیا تقاضے وابستہ ہیں اور یہ جذبہ علماء کرام اور اولیاء کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے جس کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے۔
زمین دبانے پر وعید
 بندوں کے حقوق کی تفصیلات تو بہت ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور سے اندازہ ہو گیا اور کوتاہیاں بھی بہت زیادہ ہیں، دنیا کی ہوس اس قدر دلوں میں گھر کر گئی ہے کہ کوئی کسی کا حق ادا کرنے کو تیار نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ اولاد کے ہاتھوں والدین کے قتل تک کی خبریں اخبارات کی زینت بننے لگی ہیں جبکہ یہ سب سے مقدس رشتہ ہے، تاہم کچھ حقوق ایسے ہیں جن میں ابتلاکثرت سے ہے اور جن کی وجہ سے باہم قتل وغارت گری اور مقدمہ بازی کی نوبت آتی رہتی ہے۔ ان میں سے زمین پر ناحق قبضہ کرنے، کسی کی مینڈ اور ڈول کاٹنے یا  پانی کے حق کو چرانے کا معاملہ ہمارے معاشرے میں عام ہے حالانکہ حدیث شریف میں زمین پر ناحق قبضہ کرنے پر شدید وعید وارد ہوئی ہے۔  ارشاد نبویؐ  ہے
 ’’جوشخص ایک بالشت بھی زمین ناحق غصب کر لے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا اتنا حصہ اس کے گلے کا طوق بنا دیں گے۔‘‘  (مسلم شریف حدیث:۱۶۱۰ )  اس حدیث کے ضمن میں مسلم شریف میں ایک انتہائی عبرت ناک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت سعید ؓ بن زید  کے خلاف ’’اروی‘‘ نامی ایک عورت نے ایک زمین کے بارے میں مقدمہ کر دیا، تو حضرت سعیدؓ  نے فرمایا کہ زمین کو اس عورت کے ساتھ چھوڑ دو؛ کیونکہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جو شخص ناحق ایک بالشت زمین بھی لے لے گا تو ساتوں زمینوں کا اتنا حصہ قیامت کے دن اس کا طوق بنا دیا جائے گا۔‘‘ (پھر بد دُعا دی اور کہا)  اے اللہ اگر یہ جھوٹی ہے تو تو اس کو اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کی زمین میں بنا دے، حضرت سعیدؓکہتے ہیں کہ میں نے اس عورت کو اندھا دیکھا وہ دیواروں کو پکڑ کر چلتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ مجھے سعید بن زید کی بد دعا لگ گئی۔ ایک دن وہ  اپنے احاطے کے کنویں کے پاس سے گزر رہی تھی کہ کنویں میں گر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔  (صحیح مسلم حدیث: ۱۶۱۰)
 اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین غصب کرنے اور مال ہڑپنے کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی دے سکتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ہی ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK