Inquilab Logo

میک اِن اِنڈیا کو اس طرح کامیاب کیا جاسکتا ہے

Updated: November 02, 2020, 12:03 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

ہمارے اُن تاجروں کو اپنے ہی ملک میں مینوفیکچرنگ کا موقع ملنا چاہئے جو چین میں مال تیار کرنے کے بعد اپنا مال خود ہی ہندوستان میں درآمد کرتے ہیں۔

Make in India - Pic : INN
میک ان انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے متنبہ کیا ہے کہ ہندوستان کو ’معاشی حصار بندی‘ (محفوظیت، پروٹیکشنزم) کا راستہ نہیں اپنانا چاہئے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے درآمدٹیکس بڑھا کر درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا تاکہ مقامی یعنی دیسی صنعتوں کا تحفظ ہو۔ چند مصنوعات کے سلسلے میں حالیہ مہینوں میں ایسا کیا گیا ہے۔ ہم نے معاشی حصار بندی کی پالیسی ۱۹۹۱ء کی معاشی اصلاحات سے پہلے اپنائی تھی جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے تھے۔ اس وقت لائنس پرمٹ راج جاری تھا جس سے چند منتخب دیسی کمپنیوں کو اجارہ دارانہ نفع کمانے اور سیاسی لوگوں نیز اعلیٰ سرکاری افسروں کو باہمی ساز باز کے ذریعہ کرپشن میں مبتلا ہونے اور جیب بھرنے کا موقع مل گیا تھا۔ حکومت نے درآمدات کو روکنے کیلئے ۱۵۰؍ فیصد امپورٹ ڈیوٹی ہی عائد نہیں کی تھی بلکہ کئی دوسری پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دیسی تجارتوں اور صنعتوں کو امپورٹ سے پوری طرح روک دیا گیا تھا۔ وہ اپنی اشیاء کو جس قیمت پر چاہتے فروخت کرتے تھے کیونکہ اُنہیں درآمد شدہ اشیاء سے مقابلہ آرائی کا خطرہ نہیں تھا جو سستے داموں فروخت ہوسکتی تھیں۔ تاجر اور صنعتکار بھرپور منافع کی شکل میں جو رقم حاصل کرتے اس کا کچھ حصہ سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی نذر کیا کرتے تھے۔ اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھئے:
  فرض کرلیجئے ایک ٹیوب لائٹ کی تیاری پر ہندوستان اور چین دونوں ہی ملکوں میں ۵۰۰؍ روپے کی لاگت آتی تھی۔ حکومت نے ۲۰۰؍ روپے امپورٹ ڈیوٹی لگا دی۔ اس کی وجہ سے امپورٹیڈ ٹیوب لائٹ کی قیمت ۷۰۰؍ روپے ہوگئی۔ ایسی صورت میں دیسی صنعتکاروں نے ٹیوب لائٹ کی قیمت اتنی ہی (۷۰۰؍ روپے) مقرر کردی جتنی کہ چین سے درآمد شدہ ٹیوب لائٹ کی تھی۔ ان صنعتکاروں کو کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ ان کے خلاف نہ تو غیر ملکی مقابلہ آرائی ممکن تھی نہ ہی لائسنس پرمٹ راج کی وجہ سے مقامی مقابلہ آرائی کا سامنا تھا۔ صنعتکاروں کو ایک ٹیوب لائٹ پر ۲۰۰؍روپے کمانے کا سنہرا موقع مل گیا تھا۔ اس طرح اُنہیں جو بھرپور منافع حاصل ہورہا تھا اس کا کچھ حصہ وہ سیاستدانوں کی نذر کرتے اور کچھ اعلیٰ سرکاری افسران کی خدمت میں پیش کرتے۔ رگھو رام راجن نے امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کے ناخوشگوارنتائج کے خلاف متنبہ کرکے بہت اچھا کیا ہے مگر اس افسوسناک حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ حکومت سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی اُس ملی بھگت کو روکنے میں ناکام ہے جو جبراً وصولی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس لئے ہمیں کسی متبادل منصوبے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی معاشی حصار بندی درمیان میں آجاتی ہے تاہم موجودہ صورتحال تین نکات کی وجہ سے معاشی اصلاحات سے قبل کی صورتحال سے مختلف ہے:
  پہلا فرق یہ ہے کہ ماضی میں درآمدات کی حوصلہ شکنی اور دیگر پابندیاں جاری تھیں جس کی وجہ سے کوئی خواہشمند تاجر یا صارف چاہتا بھی تو ۱۵۰؍ فیصد امپورٹ ڈیوٹی ادا کرکے کار درآمد نہیں کروا سکتا تھا۔ مگر اب ہم امپورٹ ڈیوٹی میں معمولی اضافہ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر حکومت ٹیوب لائٹ پر ۲۰۰؍ روپے کی امپورٹ ڈیوٹی عائد کرتی ہے تو سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو ۲۰۰؍ روپے وصول کرنے کا موقع مل جائیگا ۔ 
 دوسرا فرق یہ ہے کہ ۸۰ء کی دہائی میں دیسی کمپنیوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا تھا۔ مثال کے طور پر، ٹاٹا گروپ کار سازی کا خواہشمند تھا مگر حکومت نے اسے لائسنس نہیں دیا کیونکہ اسے برلا گروپ کی اجارہ داری کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ یہ اجارہ داری اس وقت ختم ہوئی جب سنجے گاندھی جیسے سیاستداں نے مداخلت کی۔    اب ہم نے لائسنس پرمٹ راج ختم کردیا ہے چنانچہ بڑی کمپنیوں کے درمیان مقابلہ آرائی جاری رہتی ہے جس کے نتیجے میں کمپنیوں کے پاس اجارہ دارانہ منافع کمانے کا موقع نہیں رہ گیا ہے۔ 
 تیسرا فرق یہ ہے کہ ماضی میں ہمارے صنعتکار اور تاجر بیرونی ملکوں کے صنعتکاروں اور تاجروں سے استفادہ نہیں کرپاتے تھے۔ اس کا موقع یا تو بالکل نہیں تھا یا بہت محدود تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سے ہندوستانی صنعتکاروں نے چین میں مینوفیکچرنگ کے اپنے یونٹ قائم کردیئے ہیں اور چین میں اپنا ہی تیار کردہ مال ہندوستان میں خود ہی درآمد کرتے ہیں۔ ہمارے صنعتکاروں اور تاجروں کے پاس اعلیٰ تکنالوجی ہے۔ آج اگر امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی گئی تو وہ حالت نہیں ہوگی جو ۸۰ء کی دہائی میں ہوئی تھی حالانکہ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی کمائی بڑھ جائے گی۔
 اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دیسی مارکیٹ میں مصنوعات کی قیمت بڑھ جائے گی۔ ٹیوب لائٹ ہی کی مثال لی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس کی قیمت ۵۰۰؍ سے ۷۰۰؍ ہوجائیگی اور سیاستداں نیز سرکاری افسران حصار بندی کے سبب ایک ٹیوب لائٹ کے پیچھے ۱۰۰؍ روپے کما سکیں گے مگر فائدہ یہ ہوگا کہ بڑی کمپنیوں کے درمیان مقابلہ آرائی کی وجہ سے اجارہ دارانہ منافع کا امکان کم سے کم ہوجائیگا۔ میرا اندازہ ہے کہ دیسی سطح پر تیار کئے گئے ٹیوب لائٹ کی قیمت ۶۰۰؍ روپے ہوگی جبکہ درآمد شدہ ٹیوب لائٹ کی قیمت ۷۰۰؍ روپے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ہندوستانی تاجر جو چین میں مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کرکے وہاں مال تیار کرتا ہے اور ہندوستان درآمد کرتا ہے وہ اپنی مصنوعات ہندوستان ہی میں تیار کرنے کو ترجیح دے گا اور ’’میک اِن انڈیا‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ اس پس منظر میں میری رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم، سابق گورنر رگھو رام راجن جیسے ماہرین کی رائے قبول نہ کریں جو رائے دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان میں سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی ملی بھگت بھی ہے جو ہمارے ملک کو کنٹرول کرتی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK