Inquilab Logo

یہ دُنیا خوب صورت ہے مگر انسان سمجھے تو!

Updated: February 10, 2024, 10:32 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

ماحولیاتی تباہی سے معاشرتی خرابی تک، یہ خوبصورت دُنیا اگر آلودگی، پریشانی،ظلم و جبر اور خونریزی کی آماجگاہ بن گئی ہے تو یہ کس کی غلطی ہے؟ کیا اکیسویں صدی میں بھی انسان ازخود نہیں سمجھ سکتا کہ اُسے دُنیا میں کس طرح رہنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے؟

From environmental destruction to social breakdown, whose fault is it if this beautiful world has become a haven for pollution, misery, oppression and bloodshed?. Photo: INN
ماحولیاتی تباہی سے معاشرتی خرابی تک، یہ خوبصورت دُنیا اگر آلودگی، پریشانی،ظلم و جبر اور خونریزی کی آماجگاہ بن گئی ہے تو یہ کس کی غلطی ہے۔ تصویر : آئی این این

گلزارصاحب کا اپنا رنگ ہے، اپنا انداز ہے۔ نظم کہیں یا افسانہ لکھیں،دونوں ببانگ دہل اپنے گلزاریؔ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ چند سطریں یا چند مصرعے ہی بتا دیتے ہیں کہ اُن کا خالق کون ہے۔ یہاں گلزار کا ذکر اس لئے آگیا کہ اِس وقت اُنہی کی ایک نظم ’’فضا‘‘ یاد آرہی ہے۔ آپ بھی سن لیں تو آگے بڑھیں:
فضا یہ بوڑھی لگتی ہے، پرانا لگتا ہے مکاں
سمندروں کے پانیوں سےنیل اب اُتر چکا
ہوا کے جھونکے چھو‘تے ہیں تو کھردرے سے لگتے ہیں
بجھے ہوئے بہت سے ٹکڑے آفتاب کے
جو گرتے ہیں زمین کی طرف تو ایسا لگتا ہے
کہ دانت گرنے لگ گئے ہیں بڈھے آسمان کے
فضا یہ بوڑھی لگتی ہے
پرانا لگتا ہے مکاں
اگر اس نظم میں وہ انسان کے ہاتھوں ماحولیات کی تباہی کی طرف اشارہ کررہے ہیں تو نظم ’’اخبار‘‘ میں سماجی حالات او رجرائم کے بڑھتے رجحان کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ ’’اخبار‘‘ بھی ملاحظہ فرمالیجئے:
سارا دن مَیں خون میں لت پت رہتا ہوں
سارے دن میں سوکھ سوکھ کے کالا پڑ جاتا ہے خون
پپڑی سی جم جاتی ہے
 کھرچ کھرچ کے ناخنوں سے چمڑی چھلنے لگتی ہے
ناک میں خون کی کچی بو‘
اور کپڑوں پر کچھ کالے کالے چکتے سے رہ جاتے ہیں
روز صبح اخبار مرے گھر 
خون میں لت پت آتا ہے
ماحولیاتی تباہی کا قصہ تو جانے ہی دیجئے۔ نہ عوام سمجھیں گے کہ وہ کون سی دُنیا اپنے بعد کی نسلوں کے سپرد کرنے والے ہیں نہ ہی حکومتیں اپنے کرتوت سے باز آئینگی۔ لوگ کاربن، کلوروفلورو کاربن، اوزون، نائٹروجن آکسائڈ، کاربن مونو آکسائڈ، سلفر ڈائی آکسائڈ اور نہ جانے کیا کیا روزانہ اپنے پھیپھڑوں میں اُتارتے رہتے ہیں۔ پھر اگر ان کے اثرات کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تو ٹھیک ورنہ کسی دن کسی اسپتال کے آئی سی یو میں بھرتی ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ماہر ڈاکٹر مختلف معائنوں کے بعد بتادیتے ہیں کہ اُن کی بیماری کا نام کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ ہر بیماری کا ایک نام ہوتا ہے اور موجودہ دور میں نئے نئے ناموں کی نئی نئی بیماریوں نے انسانی جسم پر دھاوا بول دیا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مختلف تکالیف میں رہنے والا انسان اتنا ہی جانتا ہے کہ اُس کی تکلیف اُس بیماری کے سبب ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بیماری کا سبب کیا ہے وہ اس پر غور نہیں کرتا جبکہ بیماریو ںکے اسباب جان لینے سے منکشف ہوتا ہے کہ بیماریوں میں سے اکثر ایک ہی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ پولیوشن مگر ’’پولیوشن‘‘ اتنا خوش نصیب ہے کہ اسے کوئی مورد الزام نہیں ٹھہراتا، سب بیماری ہی کو الزام دیتے ہیں۔ 
 پولیوشن جسے ہم اُردو میں آلودگی کہتے ہیں فضائی بھی ہوتی ہے اور آبی بھی۔ صرف فضائی آلودگی سے ہر سال دُنیا میں ۵۰؍ لاکھ لوگ فوت ہوتے ہیں۔ آبی آلو دگی بھی کچھ کم مہلک نہیں۔ اس کی وجہ سے ہر سال دُنیا میں ۳۵؍ لاکھ افراد لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ اگر گلزارؔ کہتے ہیںکہ فضا بوڑھی لگنے لگی ہے تو ایسا نہیں کہ یہ اپنے آپ بوڑھی ہوگئی، اسے اُن لوگوں نے بوڑھا کیا ہے جو اس کی قدر کرتے ہیں نہ تحفظ۔ خود تو دُنیا بھر کے شیمپو، فیس واش، باڈی لوشن، موئسچرائزر اور نہ جانے کیا کیا استعمال کرتے ہیں تاکہ چمکتے دمکتے اور مہکتے چہکتے رہیں مگر جس فضا میں سانس لیتے ہیں اُس کے بارے میں کبھی بیٹھ کر سوچتے تک نہیں ہیں کہ یہ بوڑھی کیوں ہورہی ہے۔ اس پر غور کیجئے تو محسوس ہوتا ہے کہ انسانی غفلت یا بے حسی کے سبب روزانہ تھوڑی تھوڑی زمین بنجر ہوتی ہے، روزانہ چند تالابوں اور کنوؤں کا پانی مرتا ہے، روزانہ بے شمار پیڑ اُکھاڑے جاتے ہیں، روزانہ جنگل کاٹے جاتے ہیں، روزانہ مظاہرفطرت یا اُن کے چند حصوں کو دھواں چاٹ جاتا ہے اور روزانہ فضا کا کچھ حصہ انسان کے شایان شان نہ رہ جانے کا اعلان کرتا ہے۔ اسماعیل میرٹھی کا حمدیہ شعرہے:
پاؤں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
ذرا سوچئے کیا انسان نے فرش کو خاکی رہنے دیا؟ کیا سر پر جو سائباں (آسماں) ہے وہ ہنوز لاجو َردی (نیلا،نیلگوں) ہے؟ 
 یہ ماحولیات کو انسانی تغافل و بے وفائی سے پہنچنے والا نقصان ہے۔ دوسرا وہ نقصان ہے جس کی وجہ سے بقول گلزار ’’اخبار خون میں لت پت رہتا ہے۔‘‘ اِن دنوں ممبئی جیسا شہر ایک الگ قسم کی گروہی جنگ (گینگ وار) دیکھ رہا ہے جس میں سیاستداں یا سیاست کار ایک دوسرے کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ اس نوعیت کے دو سنسنی خیز واقعات گزشتہ دس دنوں میں رونما ہوچکے ہیں۔ فائرنگ ہو یا چاقو زنی، خونیں تصادم ہو یا سڑک حادثہ، یہ خونریزی کی ایک قسم ہے جبکہ اِس کی دوسری قسم بھی ہے۔ اخبار دو طرح کے خون سے لت پت رہتا ہے۔ ایک وہ جو قتل، خود کشی یا حادثات کے سبب بہتا ہے اور بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا وہ جو بہتا ضرور ہے مگر بہتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ تب بہتا ہے جب جھوٹ، سیاسی دغا بازی، دَل بدلی، بے وفائی، حق تلفی،نا انصافی، بلڈوزر بازی، بے جا گرفتاری، نفرت انگیزی، بہتان طرازی، سماجی خلفشار و انتشار، تعلیمی فریب، علمی، ادبی وصحافتی بددیانتی، جانبداری، اقرباء پروری اور حرص و ہوس اپنے شکار پر حملہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے انہیں ’نرم وارداتیں‘کہا جائے جن کا شکار ایک دم سے نہیںمرتا، وہ اُسے تھوڑا تھوڑا مارتی ہیں چنانچہ تھوڑا تھوڑا خون بہتا ہے اور اس طرح بہتا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔ 
 ان وارداتوں کا انسان ہی شکار بھی ہے اور شکاری بھی۔ یہ الگ بات کہ ایک مارتا ہے دوسرا سہتا ہے مگر سہنے والا خود بھی کسی نہ کسی کو مارتا ہے۔ کسی کے جھوٹ کا شکار خود بھی کسی کو اپنے جھوٹ سے شکار کرتا ہے۔ ناانصافی کا ہدف دوسروںکو ناانصافی کا ہدف بناتا ہے۔ یہ خون تھوڑا تھوڑا کرکے بہتا ہی رہتا ہے مگر یہ خونریزی نظر نہیں آتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK