Inquilab Logo

وہ ۲؍ بہادر خواتین جنہوں نے بلقیس بانو کے کیس کی بنیاد کو مضبوط کیا

Updated: January 21, 2024, 6:12 PM IST | Anurag Modi

اگربلقیس کوگجرات کی دو خاتون افسران کی دیانت دارانہ اور جرأت مندانہ حمایت نہ ملی ہوتی تو شاید یہ لرزہ خیز واقعہ منظر عام پر ہی نہیں آپاتا۔ سب سے پہلے گودھرا ضلع کی اُس وقت کی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جینتی روی ہیں... اور دوسری افسر گودھرا سول اسپتال کی ڈاکٹر روہنی کُٹی ہیں۔ ڈاکٹر کٹی کی تصویر اور ان کی تفصیلات نہیں مل پائیں۔

Jayanti Ravi. Photo: INN
جینتی روی۔ تصویر : آئی این این

بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ  کےحکم نے ایک بار پھر ظاہر کیا کہ انصاف کی لڑائی طویل ہے اور اجتماعی تعاون کے بغیر اس میں کامیابی مشکل ہے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ، جس میں اس نے آبروریزی اور۱۴؍ افراد کے قتل کے۱۱؍مجرمین کی سزا کی معافی کے حکم کو منسوخ کر کے انہیں واپس جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ یہ ایک ۲۰؍ سالہ طویل قانونی جنگ کا نتیجہ ہے۔ اس فیصلے میں بلقیس بانو کے ساتھ ہی پروفیسر روپ ریکھا ورما، سبھاشنی علی، ایڈوکیٹ شوبھا گپتا، صحافی ریوتی لال، سابق آئی پی ایس افسر میرا چڈھا بورونکر اور سابق لوک سبھا رکن مہوا موئتراکے کردار کو بھی سراہا جا رہا ہے۔ ان کے کردار کی سراہنا ہونی بھی  چاہئے.... لیکن، انصاف کی اس جنگ میں ۲؍ اور خواتین افسران ہیں ، جن  کے اہم کردار پر بات کرنا آج ضروری ہے۔
 اگربلقیس کے ساتھ پیش آنے والے۲۰۰۲ء کے واقعے کے ایک دو دن بعد گجرات کی دو خاتون افسران کی دیانت دارانہ اور جرأت مندانہ حمایت نہ ملی ہوتی تو شاید یہ لرزہ خیز واقعہ منظر عام پر ہی نہیں آپاتا۔ سب سے پہلے گودھرا ضلع کی اُس وقت کی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم/کلکٹر) جینتی روی ہیں... اور دوسری  افسر گودھرا سول اسپتال کی ڈاکٹر روہنی کُٹی ہیں۔
 فی الحال ان دونوں کے کردار پر کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ شاید اسلئے بھی کہ بات آگے بڑھی تو اس کیس میں کئی اہم کردار سامنے آگئے جنہوں نے معاملے کو منزل تک پہنچانے میں معاونت کی۔ اس کے باوجود اس بات کا صرف تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ گجرات انتظامیہ پر اوپر سے نیچے تک فسادات میں پوری طرح سے ملوث ہونے کاالزام تھا اور شواہد کو تباہ کرنےکی سازش میںشریک سمجھا جارہا تھا، مذکورہ دونوں افسران نے اپنا سرکاری کردار خلوص نیت سے نبھایا اور بعد میں ٹرائل کورٹ میں اپنے بیانات بھی پوری ایمانداری کے ساتھ دیئے، وہ واقعی ایک مثال اور قابل تعریف ہے۔ 
 یہ پوری کہانی کچھ یوں ہے۔
 ۳؍ مارچ۲۰۰۲ء کو انسانیت اور دھرم کے تمام اصولوں اور ضابطوں کو شرمندہ کرنے والا یہ واقعہ انجام دیا گیا تھا۔ اپنی۳؍ سالہ بیٹی، ماں، دو بھائی، دو بہنیں، دو چاچی،چچا اور بہن کی نوزائیدہ بچی سمیت۱۴؍ افراد کے قتل کو اپنی آنکھوںسے دیکھنے والی اجتماعی آبروریزی کی شکار بلقیس بانو کو مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ بلقیس کو ہوش آیا تو جیسے تیسے وہ کسی طرح  بچتے بچاتے ۴؍ مارچ کو لمکھیڑا پولیس اسٹیشن پہنچیں۔وہاں پولیس نے جوایف آئی آر درج کی، اس میں نہ تو اس نے عصمت دری کا ذکر کیا، نہ ہی کسی ملزم کے نام لکھا۔ اسی طرح  لمکھیڑا ‘پی ایچ سی‘ میں ہونے والے اس کے طبی معائنے میں وہاں موجود ڈاکٹر نے نہ توآبروریزی کا ذکر کیا، نہ ہی اس واقعہ کا کوئی ریکارڈ درج کیا۔ 

اس طرح۵؍مارچ کو بلقیس کو گودھرا ریلیف کیمپ بھیج دیا گیا۔ وہاں ۶؍ مارچ کو جب گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی پہنچیں تو اُن کی ملاقات بلقیس سے ہوئی۔ اس کے بعد ہی اس واقعے کی حقیقی ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ بلقیس کی کہانی سن کر وہ سمجھ گئیں کہ یہ کوئی خاص معاملہ ہے۔ اُس وقت تک انہیں معلوم نہیں تھا کہ لمکھیڑا میںدرج ایف آئی آر کی نوعیت کیا ہے؟ لیکن شاید انہیں اُس وقت گجرات کی انتظامی صورتحال کا اندازہ تھا۔ اسلئے انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے تحصیلدار (ایگزیکٹیو مجسٹریٹ گووند پٹیل) سے بلقیس کا مکمل بیان ریکارڈ کرنے کیلئے کہا۔اس کے بعد، انہوں نے بلقیس کو۷؍ مارچ کو طبی معائنے کیلئے گودھرا سول اسپتال بھیجا۔ انہوں نے اندازہ لگایا ہوگا کہ میڈیکل بھی درست نہیں  ہواہوگا۔ وہاں پر بلقیس کی ملاقات ایک اور خاتون افسر سے ہوئی جنہوں نے اپنے فرائض کیلئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ وہ ڈاکٹر روہنی کُٹی تھیں۔ انہوں نے ایمانداری سے بلقیس کے واقعے سے متعلق تمام حقائق درج کئے اور ان کا طبی معائنہ کیا۔
 گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی یہیں نہیں رکیں، انہوں نے ۷؍ مارچ کو ہی داہود کے ایس پی ، جن کے ضلع میں یہ واقعہ پیش آیا تھا، کو آگے کی کارروائی کیلئے پہلا خط لکھا۔ ساتھ ہی وہ بیان بھی بھجوائیں جو بلقیس نے ریکارڈ کرایا تھا۔ پھر ۱۱؍ مارچ کو ایک ریمائنڈر بھیج کر پیش رفت کی رپورٹ طلب کی۔ اس کے بعد ۱۸؍ مار چ کو داہود کے ڈپٹی ایس پی کو خط  لکھ کر کیس سے متعلق  پیش رفت کی رپورٹ طلب کی۔ پھر ۳؍ مئی کو داہودایس پی کو خط لکھ کر پوچھا کہ  ابھی تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی ہے۔ ڈپٹی ایس پی نے جب کوئی رپورٹ نہیں بھیجی تو انہوں نے خط لکھا کہ ابھی تک کوئی پروگریس رپورٹ کیوں نہیں بھیجی گئی۔ اس کے بعد تھک ہارکر انہوں  نے  ایک بار پھر ۸؍ جولائی۲۰۰۲ء کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری، ہوم ڈپارٹمنٹ، حکومت گجرات کو اس معاملے میں کارروائی کیلئے ایک خط لکھا۔ ان خطوط کو گجرات حکومت اور انتظامیہ نے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا، لیکن یہی خطوط عدالت میں ایک بڑا ثبوت بن گئے۔
 فروری۲۰۰۳ء میں گجرات پولیس نے عدالت میں کلوزر رپورٹ پیش کی۔ اس کے بعد جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، سپریم کورٹ میں کچھ این جی اوز کی درخواست کے بعد اور عدالت کے حکم پر دسمبر۲۰۰۳ء میں اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ سپریم کورٹ نے واقعے میں ملوث۱۲؍ افراد، جانچ میں شامل لمکھیڑا تھانے کے۵؍ پولیس اہلکار، ڈی ایس پی اورپی ایچ سی کے  ۲؍ ڈاکٹروں کو بھی ملزم کے طور پر نامزد کیا۔ ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کے بعد  معاملہ ہائی کورٹ پہنچا۔
 ہائی کورٹ میں دفاعی فریق نے کہاکہ متاثرہ بلقیس نے لمکھیڑا پولیس اسٹیشن میں درج کروائی گئی اپنی ابتدائی ایف آئی آر اور بیان میں کسی ملزم کا نام نہیں بتایا تھا، نہ ہی طبی معائنے میںآبروریزی کی بات سامنے آئی تھی۔  لیکن فیصلہ کرنے والی جج، جسٹس وی کے تاہل رمانی اور جسٹس مردولا بھاٹکر نے اپنے فیصلے  میں گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی کے۶؍ اور ۷؍ مارچ کو ریکارڈ کئے گئے بیان  اورگودھرا سول اسپتال کی ڈاکٹر روہنی کٹی کی میڈیکل رپورٹ کو ایک اہم ثبوت کے طور پر تسلیم کیا۔ان دونوں افسران نے اس کیس میں ٹرائل کورٹ میں ایمانداری سے اپنے بیانات بھی دیئے۔ ڈاکٹر روہنی کٹی نے بطور گواہ نمبر۱۷؍ اور ڈی ایم جینتی روی نے بطور گواہ نمبر۱۸؍ اپنی گواہی ریکارڈ کرائی۔
 میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ فوجداری کیس میں پولیس کی تفتیش کے ابتدائی مراحل میں جس طرح سے پردہ پوشی کی جاتی ہے، اس سے کیس بہت کمزور ہوجاتا ہے اور ایسے مقدمات کا ٹرائل کورٹ میں باقی رہ پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ گودھرا کی ڈی ایم جینتی روی اور ڈاکٹر روہنی کٹی کا کردار یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب تک افسران ایمانداری سے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے، اور سیاسی یا دیگر مداخلت کو بالائے طاق رکھ کر کام نہیں کریں  گے،صرف قانون کا نام بدلنے سے کچھ نہیں بدلنے والا ہے۔
 جینتی روی کے بارے میں انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق، وہ فی الحال ’اورویل فاؤنڈیشن‘ کی سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے تعارف میں انہیں ایک استاذ، مفکر اور سائنسدان بھی بتایا گیا ہے۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی اور گجرات کیڈر سے۱۹۹۱ء بیچ کی آئی اے ایس آفیسر ہیں۔ ڈاکٹر روہنی کٹی کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے۔اس سے زیادہ  ان کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں۔
مضمون نگار’ سماج وادی جن پریشد‘  اور’شرمک آدیواسی سنگٹھن‘ سے وابستہ ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK