Inquilab Logo

خبطیوں کو چننے والے بھی سزا کے مستحق ہیں

Updated: January 12, 2021, 9:49 AM IST | Hasan Kamal

ٹرمپ نے بالکل آخری دن تک یہ کوشش کی کہ مشتعل ہجوم کی مدد سے سینیٹ کی کارروائی روکی جائے، لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔ ٹرمپ جیسے پاگل حکمراں دنیا میں کم ہی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے روم کے ایک بادشاہ نیرو کے بارے میں سنا جاتا تھا کہ جب روم جل رہا تھاتو وہ بانسری بجا رہا تھا۔

White House
وہائٹ ہاؤس

بالآخر ۶ ؍جنوری ۲۰۲۱ء کے دن امریکی سینیٹ نے نئے امریکی صدر جو بائیڈن کے چار سالہ ٹرم کے آغاز پر مہر تصدیق ثبت کر ہی دی۔ امریکہ اور دنیا کو اس فاطر العقل اور خبطی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار سے نجات مل گئی، جس نے امریکہ اور دنیا کو بے یقینی کی آماجگاہ بنا رکھا تھا۔ ٹرمپ نے بالکل آخری دن تک یہ کوشش کی کہ مشتعل ہجوم کی مدد سے سینیٹ کی کارروائی روکی جائے، لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔  ٹرمپ جیسے پاگل حکمراں دنیا میں کم ہی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے روم کے ایک بادشاہ نیرو کے بارے میں سنا جاتا تھا کہ جب روم جل رہا تھاتو وہ بانسری بجا رہا تھا۔ لیکن عوام کے چنے ہوئے حکمراں بھی ایسی ہی بے حسی اور شقیق القلبی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، یہ اب دیکھا جا رہا ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے۔
 ٹرمپ نے اپنا اقتدار قائم رکھنے کیلئے اخلاقیات اور شفافیت جیسے الفاظ اپنی لغت سے اٹھا کر کہیں دور پھینک دیئے تھے۔ وہ جھوٹ بولتے رہے۔روز جھوٹ بولتے رہے۔ بار بار جھوٹ بولتے رہے۔ جب بھی امریکی عوام کسی افتاد سے دو چار ہوئے وہ گولف کھیلنے نکل گئے۔کورونا کی وبا نے امریکہ کو دبوچا تو پہلے تو انہوں نے اس کے وجود ہی سے انکار کیا۔ پھر نئے نسخے تجویز کرنے لگے ۔کبھی کہا کہ جراثیم کش دوائوں کا انجکشن لے لیا جائے۔ کبھی کہا کہ یہ تو چند دنوں کی بات ہے، بہت جلد گزر جائے گی۔ ان کے دور میں امریکی معیشت ایسی تباہ ہوئی ہے کہ اسے سنبھلنے میں برسوں لگ جائیں گے۔ انہوں نے ہمیشہ نہایت خوشامد پسند، خود پسند اور خود غرض انسان ہونے کا ثبوت دیا اور کیوں نہ دیتے آخر کو تو وہ بنیے اور بقال ہی تھے۔ 
 ایسا نہیں ہے کہ ان تمام عیوب کی وجہ سے تمام کے تمام امریکی ٹرمپ سے بیزار ہوں۔ امریکیوں کا ایک  بڑا طبقہ انہیں بہت پسند بھی کرتا ہے۔امریکہ میں ایک بڑا طبقہ ان نوجوانوں کا بھی ہے جنہیں خواندہ تو کہا جا سکتا ہے، تعلیم یافتہ نہیں ۔ یعنی وہ لکھ پڑھ تو ضرور سکتے ہیں، لیکن اعلیٰ تعلیم سے بے بہرہ رہے ہیں۔ایسے افراد کی  ان امریکی  ریاستوں میں بہت بڑی تعداد ہے جو ’بائبل اسٹیٹس‘ کہلاتی ہیں۔ یہ عام طور پر سفید فام نسل پرست عیسائی ہوتے ہیں۔ یہ ہر غیر سفید فام سے نفرت کرتے ہیں خواہ وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ لبرل امریکیوں سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں۔ اسی طبقہ کے لوگ ٹرمپ کے زبردست حامی ہیں۔ چنانچہ ٹرمپ کی بیشتر پالیسیاں اسی ووٹ بینک کو خوش رکھنے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف ضدی اور بے حس حکمراں ہی قصور وار نہیں ہوتے۔ وہ بھی قصور وار ہوتے ہیں جو انہیں چنتے ہیں۔  یہ بھی سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ یقین جانئے حالیہ الیکشن میں بھی اس طبقے نے ٹرمپ کو کامیاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اگر لبرل عیسائی اور تمام غیر سفید فام ایک ہی پلیٹ فارم پر آئے اورانہوں نے ٹرمپ کو ہرانے کا تہیہ کرلیا تو اس کا سہرا امریکی میڈیا اور امریکہ کی عدالتوں کے سر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میڈیا میں ٹرمپ کے حامی نہ رہے ہوں۔ ان کا سب سے بڑا حمایتی میڈیا سرمایہ دار روپرٹ مرڈوک ہے، جو فاکس میڈیا ہائوس کا مالک ہے۔ یہ وہی روپرٹ مرڈوک ہے، جس نے ہندوستان میں اسٹار ٹی وی چینل شروع کیا تھا۔ یہ ٹرمپ کی ہر صحیح اور غلط پالیسی کا بکھان کرتا تھا، لیکن جب اسے یقین ہونے لگا کہ ٹرمپ ہار جائیں گے تو وہ بھی ڈوبتے جہاز کے چوہے کی طرح جہاز سے کودگیا۔ بہر حال اب یہ تمام باتیں ماضی کی داستان کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اب تو ساری دنیا کی توجہ۲۱؍ جنوری پر ہے، یعنی جو بائیڈن کی حلف برداری کے بعد کے دن پر۔ جب یہ نظرآنے لگے گا کہ ٹرمپ کے بعد کا امریکہ کیا ہوگا اور کیسا ہوگا۔ 
 دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت امریکہ کیلئے چاہے جتنی با برکت ہو، لیکن دنیا کیلئے خصوصاََ ایشیا کیلئے کبھی اتنی بابرکت نہیں رہی ہے۔ کوریا، ویتنام، لائوس اور کمبوڈیا جیسے ممالک امریکہ کی ’جمہوریت پسندی‘کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ مسلم ممالک پر تو امریکہ کی ’نظر عنایت‘ اسی دن ہو گئی تھی، جب عرب دنیا میں تیل دریافت ہوا تھا۔ امریکہ نے عرب دنیا کے خود پسند اور مطلق العنانی کے دلدادہ حکمرانوں کی کمزوریوں کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ کبھی اس نے ایک خوشحال عراق کو صدام حسین کے ’جبر‘سے بچانے اور عراقی عوام کو جمہوریت کا ’’تحفہ‘‘ دینے کیلئے عراق کو کھنڈر میں بدل دیا ۔ تو کبھی  لیبیا کے عوام کو معمرقذافی کے ’’ظلم و ستم‘‘ سے محفوظ رکھنے کیلئے قذافی کو بم سے اڑادیا اور لیبیا کو عدم تحفظ اورعدم اطمینان کے اس جہنم میں دھکیل دیا جس سے وہ آج تک نہیں نکل پا رہا ہے۔  اس نے افغانستاں کے عوام  کو ۹/۱۱  کی اس دہشت گردی کی سزا دینے کیلئے دس لاکھ افغا نی مردوں ، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، حالانکہ اس دہشت گردی میں ایک بھی افغان شریک نہیں تھا۔ امریکہ نے شام کو بھی بشارالاسد کی آمریت  سے ’’نجات‘‘ دلانے کیلئے دولت داعش جیسی تنظیم کھڑی کر دی، جو آج تک دنیا بھر میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر چکی ہے۔ پاکستان میں چند ہی دنوں پہلے دس ہزارہ قبیلے کے کار کنوں کی شہادت اس کا تازہ ترین ’’کارنامہ‘‘ ہے۔  
 اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے اپنے دور میں کچھ ایسے کام کئے تھے جنہیں نیک اور مثبت کہا جاسکتاہے۔ انہوں نے ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوجانے  والے ملک شمالی کوریا سے گفتگو کی جس کی جرأت  امریکہ کاکوئی صدر نہیں کر سکا تھا۔انہوں نے عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد نصف سے بھی کم کر دی۔ شام سے امریکہ کی تمام فوجیں واپس بلا لیں۔ افغانستان میں نہ صرف فوجوں کی بڑی تعدا نکال لی، بلکہ طالبان سے کامیاب امن مذاکرات بھی کئے جو اب آخری مرحلہ میں ہیں۔انہوں نے امریکہ کو ایشیا کے معاملات سے نکالنے کیلئے کافی محنت کی ۔لیکن ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا، اس نے ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ یقین کیا جاتا ہے کہ ایک صلح جو اور امن کے خواہاںجو بائیڈن اپنا کام اسی مرحلہ سے شروع کریں گے۔وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کو جنوبی بحرالکاہل میں چین کو للکارنے جیسی فضولیات میں نہیں پڑنے دیں گے۔ عام حالات میں ایک خبطی ٹرمپ کے بجائے ایک سلجھے ہوئے ذہن کے مالک جو بائیڈن ہندوستان کیلئے زیادہ کارآمد ہو سکتے تھے۔ یہ اس لئے کہ امریکہ کا ہر ڈیمو کریٹ صدر ہندوستان کیلئے نرم گوشہ رکھتا رہا ہے۔ لیکن ہمارے ’پردھان سیوک ــ‘ کے اب کی بار ٹرمپ سرکار کے نعرے نے معاملات کو خاصا الجھا دیا ہے۔ جو بائیڈن نے امریکی اقلیتوں ، خواتین اور بالخصوص سیاہ فام امریکیوں کیلئے جس خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے ، اس نے دنیا کونئے اور بدلے ہوئے امریکہ کی بشارت تو بہر حال دی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK