Inquilab Logo

کل صبح یہ عَلم اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور رسولؐ سے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں

Updated: February 03, 2023, 11:21 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں غزوۂ خیبر کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں پڑھئے کہ بیس دن کے محاصرے کے بعد حضرت علی ؓ نے خیبر کے انتہائی اہم قلعے کو کس طرح فتح کیا اور یہودی مرحب کے رجزیہ اشعار کا کیا جواب دیا

The monument of Khyber forts still remains today and pilgrims try to reach there
خیبر کے قلعوں کی یادگار آج بھی باقی ہے اور زائرین وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں

خیبر کے قلعے
خیبر میں آٹھ قلعے تھے: اَلنَّطْأَۃ، الشَقُّ، اَلْکُتَیْبَہ، اَلْوَطِیْح النَّاعِم، السُّلَالِم، قلعہ صَعْب بن مَعاذ، الْقَمُوصْ۔ تمام قلعے کشادہ اور مضبوط ومستحکم تھے۔ان میں سب سے بڑا قلعہ قموص تھا، جو مَرْحَبْ بن عنترنامی یہودی کا تھا، یہ شخص نہایت طاقتور تھا، اس کو قوت میں ایک ہزار آدمیوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ یہودیوں نے جنگی حکمت عملی کے تحت اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک پرانے قلعے میں رکھ چھوڑا تھا، کھانے پینے کی چیزیں قلعہ ناعم اور صعب میں تھیں، تمام فوجی جوان النطاۃ میں جمع تھے، (السیرۃ النبویؐ فی ضوء مصادرہا الاہلیہ ص:۵۰۱) 
مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ النطأۃ پر حملہ کیا اور اسے فتح کرلیا۔بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ سب سے پہلے قلعۂ ناعم فتح ہوا۔ یہاں ایک صحابی حضرت محمود بن سلمہؓ کی شہادت کا واقعہ  پیش آیا، یہ صحابی بڑی بہادری اور دلیری سے لڑ رہے تھے، دیر تک لڑتے رہے، تھک گئے تو قلعے کی دیوار کے نیچے سستانے کے لئے بیٹھ گئے اور انہیں  اونگھ آگئی۔ قلعے کی فصیل سے کنانہ بن ربیع نے ان کے اوپر چکی کا پاٹ گرا دیا، جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد قلعہ صعب کا محاصرہ ہوا، اس میں اشیائے خورد ونوش بڑی مقدار میں جمع تھیں، مسلمانوں نے آسانی کے ساتھ اس کو بھی فتح کرلیا۔ یہاں سے کھانے پینے کی چیزیں مال غنیمت میں ملیں، جس سے لشکر اسلام میں غذائی قلت کی شکایت دور ہوگئی۔ حافظ ابن اسحاقؒ لکھتے ہیں کہ انہی دنوں قبیلہ بنو سہیم کے لوگ مسلمان ہوئے تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یارسولؐ اللہ! بھوک سے بے حال ہیں، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی کچھ نہ تھا جو انہیں دیتے، آپؐ نے دعا فرمائی: یااللہ! تو ان کے حال سے واقف ہے، میرے پاس بھی ان کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے، تو کوئی ایسا قلعہ فتح کرادے جس سے ان کی عسرت دور ہوجائے۔ اس کے بعد صعب بن معاذ کا قلعہ فتح ہوا۔ یہاں کھانے پینے کی چیزوں کا بڑا ذخیرہ تھا، اس کے بعد مسلمانوں نے قلّہ نامی قلعہ کی طرف پیش قدمی کی۔ یہ ایک پہاڑی چوٹی پر بنا ہوا تھا، اسی لئے اس کو حصن قلّہ کہا جاتا تھا۔ قلعہ انتہائی مضبوط تھا اور وہاں تک پہنچنا سخت دشوار تھا، مسلمانوں نے تین روز تک اس کا محاصرہ جاری رکھا، مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ ایک دن کسی یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آکر عرض کیا کہ آپؐ ایک مہینے تک بھی محاصرہ جاری رکھیں گے، تب بھی کچھ بھی نہ ہوگا، کیوں کہ ان کے پاس کھانے کا سامان وافر مقدار میں ہے، رہا پانی تو وہ لوگ رات کے وقت قلعے سے نکل کر پہاڑی کے دامن میں واقع چشمے سے پانی بھر کر لے جاتے ہیں جو انہیں ایک دن کے لئے کفایت کرجاتا ہے۔ اگر آپ یہ قلعہ فتح کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس چشمے پر اپنے آدمی متعین کیجئے اور ان لوگوں کے وہاں تک پہنچنے کا راستہ مسدود کردیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پانی بند کردیا، مجبور ہوکر وہ لوگ قلعے سے باہر نکل آئے، جنگ ہوئی، دس یہودی مارے گئےاور کچھ مسلمان بھی شہید ہوئے۔ تھوڑی سی مزاحمت کے بعد مسلمانوں نے اس قلعے پر قبضہ کرلیا۔ (الکامل لابن اثیر: ۲/۱۴۸، سیرۃ ابن ہشام: ۳/۲۴۷، دلائل النبوۃ للبیہقی: ۴/۲۲۴)
قلعۂ قموص کی فتح
مسلمانوں کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا قلعۂ قموص کی فتح کے موقع پر کرنا پڑا۔ جس وقت مسلمان قلعہ قموص کی سمت بڑھے  قلعے کا مالک مرحب قلعے کے اندر موجود تھا اور فوجی کارروائی کی نگرانی کررہا تھا۔ اس قلعے کا محاصرہ تقریباً بیس روز جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درد شقیقہ کی وجہ سے محاذ جنگ تک تشریف نہ لے جاسکے۔ پہلے دن علَم حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حوالے کیا گیا، اس دن قلعہ فتح نہیں ہوسکا، دوسرے روز حضرت عمر فاروقؓ تشریف لے گئے، شدید جنگ ہوئی، لیکن قلعہ فتح نہیں ہوا۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں کل صبح کو یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ ورسولؐ اس سے محبت کرتے ہیں، وہ شخص یہ قلعہ زبردستی فتح کرلے گا۔سہل ابن سعد ایک راوی ہیں وہ کہتے ہیں، اس دن صبح کو ہر شخص یہ تمنا کررہا تھا کہ کاش آج کے دن جھنڈا اس کو مل جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: علیؓ کہاں ہیں؟ حضرت علیؓ حاضر خدمت ہوئے، عرض کیا: یارسول اللہ! میری آنکھیں دکھنے لگی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگادیا، جس سے ان کی تکلیف اس طرح جاتی رہی جیسے کبھی تھی ہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم اہل قموص کے پاس جاؤ، ان کو اسلام کی دعوت دو، اگر وہ انکار کردیں تو ان سے جنگ کرو۔ حسب الحکم حضرت علی کرم اللہ وجہہ افواج اسلام کے ساتھ قلعہ قموص تک گئے۔ یہودی قلعے کی فصیلوں سے جھانک رہے تھے، حضرت علیؓ نے ان کو اسلام کی دعوت دی مگر انہوں نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور جنگ کا بگل بجا دیا، سب سے پہلے مرحب یہودی پہلوان رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا قلعے سے باہر آیا، ایک شعرہ یوں تھا: 
قد علمت خیبر إنی مرحب
شاکی السلاح بطل مجرب
یعنی سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، مسلح ہوں، اور تجربہ کار جنگ جو ہوں۔ 
اس کے جواب میں حضرت علیؓ نے فرمایا:
انا الذی سمتنی اُمّی حیدر
کلیث غابات کریہ المنظر
یعنی میں وہ ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے، میں جنگل کے خوف ناک شیر کی طرح ہوں۔
 روایات میں ہے کہ مرحب نے انتہائی حقارت سے حضرت علیؓ کی طرف دیکھا اور کہا کہ کیا عربوں کی فوج میں تم سے بہتر کوئی آدمی نہیں تھا، حضرت علیؓ نے کہا: ذرا سامنے آؤ، مرحب آگے بڑھا اور حضرت علیؓ پر تلوار سے وار کیا، حضرت علیؓ اچھل کر ایک طرف کو ہوگئے، دوسرا وار حضرت علیؓ نے اس چابک دستی سے کیا کہ تلوار اس کے خود اور کھوپڑی کو چیرتی ہوئی نکل گئی، مرحب زمین پر گر کر مر گیا۔ اس کی فوج بھاگ نکلی، اس طرح پورے بیس روز بعد یہ قلعہ فتح ہوگیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اسی لئے فاتح خیبر کہتے ہیں کہ انہوں نے مرحب یہودی کو قتل کرکے خیبر کی فتح کا راستہ آسان کردیاتھا۔ (صحیح مسلم: ۹/۳۰۴، رقم الحدیث: ۳۳۷۲، فتح الباری: ۱۲/۱۸، البدایہ والنہایہ: ۴/۲۱۳)
ان تمام قلعوں پر فتح پانے کے بعد افواج اسلام نے وطیح اور سَلَالِم کی طرف پیش قدمی کی۔ یہود نے اپنے اکثر قلعے کھو دیئے تھے، اب ان کا پورا زور انہی دو قلعوں کی حفاظت پر تھا، چودہ دن تک ان دوکا بھی محاصرہ رہا، مجبور ہوکر یہودیوں نے صلح کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمائی۔ ابن أبی الحقیق مصالحت پر گفتگو کے لئے آیا، آپ نے اس شرط پر ان کی جان بخشی کی کہ اس سرزمین سے فوراً نکل جائیں، اپنے ساتھ سونا چاندی اور دیگر قیمتی چیزیں ہتھیار وغیرہ لے کر نہ جائیں، کوئی چیز چھپاکر نہ لے جائیں۔ اس شرط کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ و رسول بری الذمہ ہیں، شرط پر عمل کرتے ہوئے یہودیوں نے اپنا تمام مال قلعوں میں چھوڑ دیا اور خود باہر نکل گئے، مسلمانوں کو ان دو قلعوں کے اندر سے ایک سو زرہیں، چار سو تلواریں ایک ہزار نیزے اور پانچ سو تیروکمان ملے۔
 (دلائل البیہقی: ۴/۲۲۵)
مگر یہودیوں نے اس شرط کی خلاف ورزی کی۔ حی بن اخطب کا ایک تھیلا جس میں اس کے زیورات اور نقد سرمایہ محفوظ تھا، غائب ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنانہ بن الربیع کو بلاکر پوچھا کہ وہ تھیلا کہاں ہے اس نے کہا کہ سارا پیسہ لڑائیوں میں خرچ ہوگیا، آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہوسکتا، پیسہ بہت زیادہ تھا، دوسرے لوگوں سے بھی معلومات کی گئیں سب نے یہی کہا سارا پیسا خرچ ہوگیا، آپؐ نے ایک انصاری صحابی کو حکم دیا کہ وہ قلعے میں جائیں، تھیلا فلاں درخت کی جڑ میں چھپاکر رکھا گیاہے اور ان لوگوں سے کہا کہ اگر تھیلا مل گیا تو تمہاری خیر نہیں، انصاری صحابی گئے اور کچھ ہی دیر میں انہیں وہ تھیلا ایک درخت کی جڑ میں دبا ہوا مل گیا، اس میں دس ہزار دینار کی مالیت کے زیورات تھے۔ بہرکیف کنانۃ بن الربیع اور سعیہ وغیرہ یہودی لیڈروں کو اس جرم میں قتل کردیا گیا۔  کنانۃ بن الربیع ویسے بھی حضرت محمود بن سلمہؓ کا قاتل تھا، اس کو ان کے قصاص میں بھی قتل کیا گیا، باقی لوگوں کو معافی دے دی گئی، اور وہ لوگ قلعے خالی کرکے چلے گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام، سیرۃ حلبیہ: ۳/۳۴)۔
اس غزوے میں ترانوے یہودی مارے گئے، چودہ یا پندرہ صحابہ نے شہادت کا جام نوش کیا، فتح کے بعد جب مال غنیمت اور قیدی جمع کئے گئے تو ان میں یہودیوں کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی اور کنانۃ بن الربیع کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، وہ ابھی کچھ ہی دن پہلے رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئی تھیں کہ غزوہ خیبر شروع ہوگیا، کنانۃ ابن الربیع کو ایک صحابی کو شہید کرنے اور حی ابن اخطب کو مال کے متعلق غلط بیانی کرنے کے جرم میں قتل کردیا گیا تھا۔
جنگی قیدیوں میں حضرت صفیہ بنت اخطب رضی اللہ عنہا اور ان کی دو چچا زاد بہنیں بھی تھیں، حضرت صفیہ نہایت حسین وجمیل اور کم عمرخاتون تھیں، حال ہی میں کنانۃ بن الربیع بن الحقیق سے ان کی شادی ہوئی تھی، ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ چاند میری گود میں آگیا ہے، صبح کو انہوں نے اپنے شوہر سے خواب کا تذکرہ کیا مگر وہ خواب سن کر بپھر گیا اور اس زور سے ان کے رخسار پر طمانچہ مار ا کہ چہرے پر نیلگوں داغ پڑ گیا، اس نے غصے سے کہا کہ تو بادشاہِ مدینہ کی تمنا کرتی ہے، حضرت صفیہؓ کہتی ہیں کہ مجھے اس وقت تک آپؐ  کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ تھا۔(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK