Inquilab Logo

سیاست میں روایت، قدامت اور اقدار پسندی

Updated: May 28, 2023, 10:30 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

حکمراں جماعت کو دائیں بازو کی جماعت کہا جاتا ہے چنانچہ دائیں بازو کی تعریف کے مطابق اسے قدامت پسند ہونا چاہئے تھا مگر یہ چونکانے والے اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔

New Parliament Building
پارلیمنٹ کی نئی عمارت

ہندوستانی پارلیمان کو کئی مسائل درپیش ہیں مثلاً بحث و مباحثہ کا معیار گر رہا ہے، اہم مسودہ ہائے قوانین پر تبادلۂ خیال پر صرف ہونے والا وقت کم سے کم تر ہوگیا ہے، ایوان میں ہونے والی تقاریر کا معیار بھی رو بہ زوال ہے، شوروغل اور رسہ کشی زیادہ ہونے لگی ہے، اراکین پارلیمان (اور اسمبلی) کی خریدو فروخت کے واقعات بڑھ رہے ہیں، حزب ِاختلاف کی اہمیت کو سمجھا نہیں جارہا ہے بلکہ اُن کی تحقیر کی جارہی ہے اور ایسے افکار و خیالات جن کی تائید کرنے والے اراکین کی تعداد کم ہے اُنہیں سنا ہی نہیں جاتا۔
 ان میں سے چند مسائل کا حل پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں نکل سکتا ہے مگر اس کی اُمید یا تو کم ہے یا لکل نہیں ہے۔ اس کی مثال وندے بھارت ٹرین سے دی جاسکتی ہے۔ بعض اوقات ایسے مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے جن کا وجود ہی نہیں ہے۔ اگر کچھ نئی رسوم کو راہ دی جاتی ہے تو اُن کے تعلق سے بھی شفافیت اور سمت کا تعین نہیں کیا جاتا کہ ان کے ذریعہ ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ موجودہ دور میں نئی نئی چیزیں روایت پسندی کے نام سے شروع کی جارہی ہیں۔ روایت پسندی سے ملتا جلتا لفظ ہے قدامت پسندی۔ اس کا معنی ہے روایتی اقدار کے تئیں کمٹمنٹ اور ندرت یا جدت کی مخالفت۔ اگر ہم اس معنی یا تعریف کو درست مان لیں تو سوال یہ ہوگا کہ روایت پسندی یا روایتی اقدار کیا ہیں؟ یہ وہ اقدار ہیں جن کی جڑ میں قدامت پسندی ہے، یہ (اقدار) برسہا برس سے عمل میں لائی جارہی ہیں اور روایت کا درجہ رکھتی ہیں۔ واضح رہنا چاہئے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ ایک ایسی عمارت میں ہے جو ۹۰۰؍ سال پرانی ہے۔ ہنری سوم کے دور ِ اقتدار میں ۱۲۶۳ء میں، اس کے بعد ۱۲۹۸ء میں، پھر ۱۵۱۲ء میں اور پھر ۱۸۳۴ء میں اس میں آگ لگی۔ آتشزدگی کے ہر واقعے کے سبب عمارت کا کچھ حصہ تباہ ہوگیا تو ہر بار اُتنے حصے کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہ ہے روایت پسندی اور قدامت پسندی، اور یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں ایوان عام (ہاؤس آف کامنس) اور ایوان خاص (ہاؤس آف لارڈس) کی قدرومنزلت کبھی کم نہیں ہوئی۔ 
 اگر آپ نے برطانیہ کے پارلیمانی مباحث کی ویڈیو دیکھی ہو تو اس بات کی گواہی دیں گے کہ حسب مراتب کا لحاظ، برسہا برس سے چلی آرہی رسوم کی پابندی اور اِن پر اراکین کا اِصرار اس حد تک ہے کہ نہ تو کوئی رسم چھو‘ٹتی ہے نہ ہی اُصول ِمراتب کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ روایت پسندی کو دونوں پارٹیاں قبول کرتی ہیں اور ہر رُکن اس کی پابندی کرتا ہے۔
 ہندوستان کے پارلیمنٹ ہاؤس کی ابتداء ۱۹۲۷ء میں ہوئی لیکن اب اس کی دیرینہ روایات کو بدلا جارہا ہے اور اس کی جگہ جو نئی باتیں لائی جارہی ہیں اُن کے تعلق سے شفافیت ہے نہ ہی اس کی غرض و غایت کا پتہ ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ اب تک اس بات کی وضاحت نہیں ہوسکی کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کو نئی عمارت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ افتتاح کے ساتھ مذہبی رسوم ادا کی جائینگی جو اس بات کی علامت ہے کہ ہم روایت کی پاسداری کررہے ہیں مگر روایت پسندی کا جو وسیع تر مقصد تھا ہم نے اُسے تج دیا۔ وہ مقصد پرانی عمارت ہی میں رہ گیا۔   
 نظریہ یا آئیڈیالوجی کی جڑیں اُصولوں میں ہونی چاہئیں چنانچہ اگر ہم قدامت پسندی پر توجہ مرکوز کررہے ہیں تو اس کا ترشح ہر جگہ اور ہر شعبے میں دکھائی دینا چاہئے۔ یہ آسان نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے روایت اور اقدار پسندی فوری فائدہ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ روایت اور اقدار پسندی حکمراں طبقہ کو روکتی ٹوکتی ہے، کہتی ہے اپنی رفتار کم کیجئے، دخل در معقولات سے باز رہئے، آپ کو جو کچھ وراثت میں ملا ہے اس کی قدر اور تحفظ کیجئے اور یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اب تک جو چلا آرہا ہے وہ اتنے طویل عرصہ تک کیوں جاری رہا؟
 روایت اور اقدار پسندی میں اس بات کا فہم موجود ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرنے جارہے ہیں اس کی حدود ہیں۔ روایت پسندی ان حدود کی بھی قدر کرتی ہے۔ اداروں کے درمیان تال میل کے کچھ غیر تحریر شدہ اُصول ہوتے ہیں جن پر روایت پسند اور اقدار پسند اصرار کرتے ہیں کہ ماضی میں یہ ہوچکا ہے یا ہوتا آیا ہے لہٰذا اس کو جاری رہنا چاہئے۔ ایسے لوگ کسی جدت یا ندرت کی مخالفت کرتے ہیں بالخصوص تب جب اداروں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہو۔
 مگر، جو شخص روایت شکن ہو یا جس کے سوچنے سمجھنے کا نیا انداز روایت اور اقدار پسندی کی نفی کرتا ہو (جسے انگریزی میں ریڈیکل کہتے ہیں) تو وہ قدامت پسندی، روایت پسندی اور اقدار پسندی وغیرہ کو اچھی طرح جاننے کے باوجود نہ تو روایت کی فکر کرتا ہے نہ ہی اقدار کی۔ اس کا مقصد ماضی میں جو کچھ ہوا اُسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سیاست اور سماج کو یکسر بدل دیا جائے جس میں دیرینہ روایات ہوں نہ ہی اقدار کی پاسداری ہو۔ وہ شدت پسندی کے ساتھ سماجی اور سیاسی تبدیلی کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ 
 ہندوستانی کرنسی (دو ہزار کا نوٹ) کی موجودہ غیر یقینی صورتحال کا تعلق نہ تو قدامت سے ہے نہ ہی روایت پسندی سے۔ یہ روایت شکنی کا مظہر ہے بالکل اُسی طرح جیسے ۲۰۱۶ء کا اقدام تھا جس کے تحت بازار میں رائج ہر قیمت کی کرنسی کالعدم قرار دی گئی تھی۔ برطانیہ ور امریکہ جیسے روایت پسند معاشروں میں اس قسم کے تجربوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہاں کے لوگ اپنی کرنسی کو سینت سینت کر رکھ سکتے ہیں کیونکہ اُنہیں اُس پر یقین ہوتا ہے کہ اُس کرنسی کو آج بھی قبولیت حاصل رہے گی، کل بھی اور مستقبل کے ہر دور میں ۔ 
 روایت پسندی کے تحت عمل میں لائے جانے والے اقدام کو آئین کی تائید حاصل ہونی چاہئے۔اگر اِس اقدام سے اُن اقدار کی توثیق ہوتی ہے جن کی توثیق آئین کرتا ہے تو اس پر اصرار ہونا چاہئے اور لازماً ہونا چاہئے۔ اسے سمجھنے کیلئے کشمیر کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے۔ کشمیر میں آج جو غیر یقینی صورت حال ہے وہ اس لئے ہے کہ اس کے تعلق سے جو اقدام کیا گیا اُس کی نہ تو کوئی روایت ہے نہ ہی قدامت پسندی اس کی اجازت دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی حکمراں جماعت دائیں بازو کی ہے تو اسے دوسروں سے زیادہ قدامت پسند اور روایت پسند ہونا چاہئے تھا مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کی کارروائیاں نہ تو قدامت پسندی کے ذیل میں آتی ہیں نہ ہی روایت پسندی کے ذیل میں۔ اس کا طریق کار تو بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ غلط اہداف کا تعاقب کرتی ہے اور اب تک کے نو سال میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا جب یہ محسوس ہوا ہو کہ ایک ہدف غلط تھا تو اسے نظر انداز کردیا جائے۔ نظر انداز اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ حکمراں جماعت ہر وقت کسی نئے ہدف کا تعاقب کرتی ہے۔n

parliment Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK