Inquilab Logo

آج پارلیمنٹ کی منتقلی، ایک عہد کا خاتمہ اور ’نئے عہد‘ کا آغاز

Updated: September 19, 2023, 9:02 AM IST | New Delhi

برطانوی دور، دوسری جنگ عظیم اور صبح آزادی کی گواہ پرانی عمارت کو اراکین پارلیمان کا جذباتی الوداع جس نے ہندوستان کا آئین بنتے اور ملک کو پارلیمانی جمہوریت کے طور پر توانا ہوتے دیکھا ہے

The 96 year old Amin building and the new spacious building.....in one picture
۹۶؍ سالہ تاریخ کی امین پُرانی عمارت اور نئی وسیع و عریض عمارت .....ایک ہی تصویر میں

 آج پارلیمنٹ کی پُرانی عمارت کو خیرباد کہہ دیا جائیگا اور تمام اراکین پارلیمان نئی عمارت میں منتقل ہو جائینگے۔ جب  سے نئی عمارت زیر بحث آئی ہے تب سے معترضین کا ایک ہی سوال تھا کہ اس کی ضرورت کیا تھی؟ شہری منصوبہ بندی کے ماہر اور معروف آرکیٹیکٹ اےجی کے مینن پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حکومت نے مستقبل میں زیادہ جگہ کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے نئی عمارت تعمیر کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس کی ضرورت تھی؟ کیا ہم پرانی عمارت میں ہی سہولتیں اور جگہ بڑھا کر کوئی راستہ نہیں نکال سکتے تھے؟ اگر ایسا کیا جاتا تو اس جمہوری روایت کو برقرار رکھ سکتے تھے جس کی یہ (پُرانی عمارت) پختہ علامت ہے۔ اے جی کے مینن کے مطابق ’’اس طرح کے پروجیکٹ پر پیش رفت سے پہلے وسیع صلاح و مشورہ اور غور وخوض ضروری تھا کیونکہ (یہ اینٹ گارے پتھر کی عام سی عمارت نہیں ہے بلکہ) اس نے آزاد ہندوستان کی پہلی صبح  دیکھی ہے، یہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم  کی پہلی تقریر کی بازگشت کی امین ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں آئین ساز اسمبلی کی نشستیں  ہوئیں،  آئین پر بحث ہوئی  اور آئین حتمی شکل دی گئی نیز اسے قبول کیا گیا۔‘‘ 
  پارلیمنٹ کی نئی عمارت ۴؍ سال کی مدت میں تعمیر ہوئی ہے جس کا افتتاح ۲۸؍ مئی ۲۰۲۳ء کو وزیراعظم مودی نے کیا۔ بعدازیں  پارلیمنٹ کا بارانی اجلاس پرانی عمارت ہی میں ہوا مگر گزشتہ روز سے شروع ہونےوالے خصوصی اجلاس میں آج سب سے اہم کام پارلیمنٹ کی منتقلی کا ہوگا جس کیلئے صبح ۱۱؍ بجے کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ بدھ سے بقیہ تین دنوں کا اجلاس نئی عمارت میں ہوگا۔ 
 پرانی عمارت ۹۶؍ سالہ تاریخ کی امین
 یاد رہے کہ پارلیمنٹ کی پرانی عمارت نہ صرف آزاد ہندوستان کی ۷۵؍ سالہ تاریخ کی امین ہے بلکہ اس نے ملک میں جدوجہد آزادی کے نقطہ عروج کو  اور پھر ملک کو آزاد ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔اسی عمارت میں آئین ساز اسمبلی کی میٹنگیں  ہوئیں، یہیں ہم نے  ایک نیا دستور تیار کیا  اور پھر یہیں سے  پارلیمانی جمہوریت ہونے کا اعلان کیا۔  یہی وجہ  ہے کہ حکومت نے نئی عمارت میں منتقل ہونے کے بعد بھی پرانی عمارت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔نوآبادیاتی حکومت،  دوسری جنگ عظیم اور آزادی کی صبح کی شاہد پارلیمنٹ کی اسی عمارت  میں ملک نے بے شمار قوانین بنائے جن میں سے کچھ تاریخی تھے تو کچھ متنازع قرار پائے۔ 
کونسل ہاؤس سے پارلیمنٹ ہاؤس کا سفر
 سر ایڈوِن لوٹینس اور سر ہربرٹ بیکر کی ڈیزائن کردہ اس عمارت کی تعمیر ۱۹۲۷ء میں مکمل ہوئی اور ۱۸؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو   اس وقت کے وائسرائے لارڈ اِرون  کے ہاتھوں ایک پرشکوہ تقریب  میں اس دائرہ نما عمارت کا افتتاح ہوا تھا جو نہ صرف اُس دور کے فن تعمیرات کاشاہکار تھی بلکہ آج بھی آثار قدیمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے کونسل ہاؤس کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ مورخ مالویکا سنگھ اور رودرانگشو مکھرجی  نے کونسل ہاؤس کے افتتاح کا منظر اپنی کتاب ’’نئی ڈیلہی: میکنگ آف اے کیپیٹل‘‘(نئی دہلی: دارالحکومت کی تعمیر) میں لکھا ہے کہ وائسرائے لارڈ اِرون ’گریٹ پلیس‘ (جسے اب وِجے چوک کے طور پر جانا جاتا ہے) میں پہنچے  اور پھر وہاں سے ’’ سنہری چابی، جو انہیں سر ہربرٹ بیکر نے تھمائی تھی، کو لے کر آگے بڑھے اور کونسل ہاؤس کا صدر دروازہ کھولا۔ ‘‘ یہ عمارت آگے چل کر آزاد ہندوستان میں پارلیمنٹ ہاؤس اور ہندوستان میں جمہوریت کا مندر کہلائی۔  
ہندوستان کے پارلیمانی سفر کی گواہ 
 ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ کا  آغازاسی  پارلیمنٹ ہاؤس کے سینٹرل ہال میں   ۹؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو آئین سازاسمبلی کی پہلی میٹنگ سے ہوا۔ ۲۰۲۳ء کا مانسون سیشن اس عمارت میں  پارلیمنٹ کا آخری اجلاس ہوگا جو ۲۱؍ جولائی سے ۱۱؍ اگست ۲۰۲۳ء تک  چلا۔ ۲۳؍ دن کے اس اجلاس میں   ۱۷؍ نشستیں ہوئیں،  لوک سبھا میں ۲۰؍ اور راجیہ سبھا میں ۵؍ بل پیش کئے گئے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ پرانی عمارت میں  ۵۵۲؍ اراکین پارلیمان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ۲۰۲۶ء میںپارلیمانی نشستوں کی نئی حد بندی ہونی ہے جس میں نشستوں کی تعداد بڑھے گی۔ حکومت  کا کہناہے کہ اُس صورت میں یہ ناکافی ثابت ہوگی۔ 
 نئی  عمارت میں ایک ہزار ۲۷۲؍ نشستیں
 ۶۵؍ ہزار اسکوائر میٹر پر محیط پارلیمنٹ کی مثلث نما نئی عمارت نہ صرف وسیع و عریض ہے بلکہ اس میں راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں کل ملاکر ایک ہزار ۲۷۲؍ نشستیں ہیں۔اس میں ۵۰۰؍ نشستیں  زیادہ ہیں۔ نئی عمارت میں لوک سبھا میں  ۸۸۸؍ اراکین اور راجیہ سبھا میں ۳۸۴؍  اراکین کی گنجائش ہے۔ یہاں حالانکہ پرانی عمارت کی طرح سینٹرل ہال نہیں ہے مگر   لوک سبھا کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسی میں دونوں ایوانوں کی مشترکہ نشستیں  ہوسکتی ہیں۔     

 

parliment Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK