فرد اگر الزام تراشی سے بلند ہوکر اپنے اندر کی عظمت کو پہچان لے اور اپنی ناکامیوں کو دیوار کے بجائے زینہ بنا لے، تو کوئی طاقت اس کے قدموں کو روک نہیں سکتی۔
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 4:25 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
فرد اگر الزام تراشی سے بلند ہوکر اپنے اندر کی عظمت کو پہچان لے اور اپنی ناکامیوں کو دیوار کے بجائے زینہ بنا لے، تو کوئی طاقت اس کے قدموں کو روک نہیں سکتی۔
تاریخِ انسانی کے افق پر اگر استقامت، حکمت، اور اخلاقی جرأت کا کوئی ستارہ ہمیشہ چمکتا رہا ہے تو یونان کا وہ درویش صفت حکیم ہے، جسے دنیا سقراط کے نام سے جانتی ہے۔ اس مردِ فہم و فراست نے سچائی اور فکری آزادی کو اس وقت حرزِ جان بنایا جب اہلِ عقل، اقتدار کے پاؤں میں جھکتے اور ضمیر کی قیمت پر زندگی کا سودا کرتے تھے۔ سقراط کے خلاف الزام یہ تھا کہ وہ نوجوان اذہان میں سوالات کا بیج بوتا ہے، دیوتاؤں کی توہین کرتا ہے اور ریاستی نظام میں خلل پیدا کرتا ہے۔ مگر دراصل سقراط کا جرم فقط یہ تھا کہ وہ معاشرے کی مصنوعی اقدار اور جھوٹی کامیابیوں کا نقاب چاک کرتا تھا۔ وہ علم کی راہ پر ایسا خستہ حال راہی تھا جو سچ کے پیچھے سولی چڑھنے کو زندگی کا فخر سمجھتا تھا۔
جب عدالت ِ ایتھنز میں اس پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ ہوئی تو سقراط کے چہرے پر نہ کوئی شکن آئی، نہ آواز میں لرزش۔ اس نے نہایت وقار سے کہا: ’’میں اپنے ضمیر کے خلاف نہیں جا سکتا۔ اگر میں نے اپنے اصولوں کو ترک کیا، تو یہ میری زندگی کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی۔ کامیابی میری نظر میں یہ نہیں کہ میں زندہ بچ جاؤں ، بلکہ یہ ہے کہ میں سچائی پر قائم رہوں ۔ ‘‘
سقراط کو زہر کا پیالہ دے کر سزائے موت سنا دی گئی، زہر کا پیالہ! لیکن سقراط نے آخری لمحے تک نہ تو کسی کو مورد الزام ٹھہرایا، نہ ہی حالات کا شکوہ کیا، اور نہ ہی اپنی راہ سے پیچھے ہٹا، بلکہ پیالہ تھام کر اسے یوں نوش کر گیا جیسے کوئی پیاسا علم کا آبِ حیات پیتا ہے۔ اس کے لبوں پر آخری جملہ یہ تھا: ’’دشواری موت سے بچنے میں نہیں ، بلکہ ناانصافی سے بچنے میں ہے۔ ‘‘
کامیابی کا اصل معیار اصولوں پر ثابت قدمی ہے۔ الزام تراشیوں سے ڈر کر راہِ حق چھوڑ دینا شکست ہے۔ جو شخص جفاکشی، صبر اور سچائی کے ساتھ اپنے ہدف پر قائم رہتا ہے، وہی حقیقی کامیاب ہے، چاہے دنیا اسے وقتی طور پر شکست خوردہ سمجھے۔ الزام تراشی انسان کو کمزور بناتی ہے، جب کہ جفاکشی، مقصد سے وفاداری اور صبر انسان کو باطن میں فاتح بناتے ہیں ۔
کامیابی، یہ ایک ایسا سحر انگیز لفظ ہے جو ہر دل کی دھڑکن میں موجود ہے، ہر نگاہ کی جستجو ہے اور ہر خواب کی تعبیر کا نام ہے۔ انسان چاہے کسی بھی خطے، طبقے یا تہذیب سے تعلق رکھتا ہو، اس کے وجود کا ایک محرک اور محراب یہی کامیابی ہے۔ اس کی تعبیر البتہ ہر ذہن میں جداگانہ ہے: کوئی اسے دنیاوی عروج میں ڈھونڈتا ہے، کوئی علمی سربلندی میں ، اور کوئی روحانی سکون میں ۔ مگر ایک قدرِ مشترک ہر جگہ موجود ہے۔ کامیابی محض ایک حالت نہیں ، یہ ایک سفر ہے، ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے، جو صدقِ دل، جفاکشی اور صبر کے ستونوں پر قائم ہوتی ہے۔
زمانۂ حاضر نے تعلیم کے حصول کو کامیابی کا میزان قرار دے دیا ہے۔ اس سے انکار بھی ممکن نہیں ۔ والدین کی بےتابی، اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دینا، حتیٰ کہ گھر بار گروی رکھ دینا، یہ سب اسی آرزو کا مظہر ہے کہ ان کے بچے کامیاب ہوں ۔ مگر جب وہی تعلیم یافتہ طبقہ محرومی کی زبان بولتا ہے اور حالات، نظام، سماج یا مقدر کو کوسنے لگتا ہے تو سوال اٹھتا ہے: کیا محض علم کامیابی کی ضمانت ہے؟ یا اس کیلئے کوئی باطنی اصول اور داخلی قوت درکار ہے؟
تحقیق و تدبر ہمیں بتاتے ہیں کہ اصل کامیابی وہی ہے جو کسی واضح ہدف کے حصول سے عبارت ہو۔ ہدف وہ روشنی ہے جو انسان کی آنکھوں میں چمک پیدا کرتی ہے، اور جب وہ روشنی مادی یا معنوی صورت میں اس کے ہاتھوں میں آجاتی ہے، تو ایک وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ وہی لمحہ کامیابی کا لمحہ ہے۔ لیکن ہدف تک رسائی ہمیشہ ہموار راہوں سے نہیں ہوتی۔ اس سفر میں کانٹے بھی ہیں ، اندھیرے بھی، تھکن بھی اور تنہائی بھی۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان دو راستوں میں الجھتا ہے: یا تو وہ مشکلات سے آنکھ ملا کر آگے بڑھے، یا پھر پست ہمتی کا شکار ہو کر دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتا پھرے۔ الزام تراشی ایک فکری تن آسانی کا مظہر ہے۔ یہ بظاہر ایک فطری ردعمل ہے، مگر حقیقت میں یہ خود اپنے اندر کی شکست کو چھپانے کی چالاکی ہے۔ معاشرتی رویوں میں جب الزام کو بنیاد بنایا جاتا ہے تو فرد کی شخصیت بکھرنے لگتی ہے، اور وہ اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے پہلے ہی شکست تسلیم کر بیٹھتا ہے۔
کامیابی کا حقیقی راستہ کیا ہے؟ یہ راستہ خوداعتمادی، استقامت اور مسلسل جدوجہد سے ہو کر گزرتا ہے۔ جو شخص دستیاب وسائل کو غنیمت جان کر ان کا بہترین استعمال کرے، جو وقت کی تاخیر اور ناکامی کی تلخی کو برداشت کرکے آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھے، جو خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرے، اور جو خود کو روحانی و فکری طور پر مستحکم رکھے، وہی دراصل کامیابی کا اصل وارث بننے کا اہل ہوتا ہے۔ ایسے انسان کو ایک مخلص راہنما، ایک مشفق مشیر، یا ایک ہم نفس کی بھی ضرورت پڑتی ہے، جو تاریک لمحوں میں امید کا چراغ جلا دے، جو تھکے قدموں کو پھر سے قوت دے، اور جو یہ بتا دے کہ کامیابی نہ رونے سے ملتی ہے، نہ الزام دینے سے، بلکہ مضبوط ارادوں ، خاموش کوششوں اور خدا پر غیر متزلزل یقین سے حاصل ہوتی ہے۔
فرد اگر الزام تراشی سے بلند ہوکر اپنے اندر کی عظمت کو پہچان لے، اور اپنی ناکامیوں کو دیوار کے بجائے زینہ بنا لے، تو کوئی طاقت اس کے قدموں کو روک نہیں سکتی۔ وہ ہر مشکل کو ایک سبق، ہر ٹھوکر کو ایک تنبیہ اور ہر رکاوٹ کو ایک موقع سمجھ کر آگے بڑھتا ہے۔ چنانچہ، کامیابی کا راستہ صبر و عمل، خلوص و جفاکشی سے نکلتا ہے۔ الزام تراشی کا رویہ اگرچہ وقتی تسکین دے سکتا ہے، مگر یہ فرد کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اصل کامیاب وہی ہے جو ہر لمحہ اپنے ہدف کے ساتھ جیتااور اسکے حصول کیلئے ہر قربانی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے۔