لغت میں شکر کا اصلی معنی یہ ہے کہ جانور میں تھوڑا سا چارہ ملنے پر بھی تروتازگی پوری ہو اور دودھ زیادہ دے۔ اس سے انسانوں کے محاورے میں یہ معنی پیدا ہوئے کہ کوئی کسی کا تھوڑا سا بھی کام کردے تو دوسرا اس کی پوری قدر کرے۔
EPAPER
Updated: January 13, 2023, 5:12 PM IST | Allama Syed Sulaiman Nadvi | MUMBAI
لغت میں شکر کا اصلی معنی یہ ہے کہ جانور میں تھوڑا سا چارہ ملنے پر بھی تروتازگی پوری ہو اور دودھ زیادہ دے۔ اس سے انسانوں کے محاورے میں یہ معنی پیدا ہوئے کہ کوئی کسی کا تھوڑا سا بھی کام کردے تو دوسرا اس کی پوری قدر کرے۔
لغت میں شکر کا اصلی معنی یہ ہے کہ جانور میں تھوڑا سا چارہ ملنے پر بھی تروتازگی پوری ہو اور دودھ زیادہ دے۔ اس سے انسانوں کے محاورے میں یہ معنی پیدا ہوئے کہ کوئی کسی کا تھوڑا سا بھی کام کردے تو دوسرا اس کی پوری قدر کرے۔ یہ قدر شناسی تین طریقوں سے ہوسکتی ہے: دل سے، زبان سے اور ہاتھ پاؤں سے، یعنی دل میں اس کی قدر شناسی کا جذبہ ہو، زبان سے اس کے کاموں کا اقرار ہو اور ہاتھ پاؤں سے اس کے ان کاموں کے جواب میں ایسے افعال صادر ہوں جو کام کرنے والے کی بڑائی کو ظاہر کریں۔
شکر کی نسبت جس طرح بندوں کی طرف جاتی ہے، خدا نے قرآن پاک میں اپنی طرف بھی کی ہے اور ان سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذرا ذرا سے نیک کاموں کی پوری قدر کرتا ہے اور ان کو ان کا پورا بدلہ عطا فرماتا ہے۔
شکر کی ضد کفر ہے، اس کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں اور محاورہ میں کسی کے کام یا احسان پر پردہ ڈالنے اور زبان و دل سے اس کے اقرار اور عمل سے اس کے اظہار نہ کرنے کے ہیں، اسی سے ہماری زبان میں ’’کفرانِ نعمت‘‘ کا لفظ رائج ہے اور عام طور پر استعمال میں ہے۔
یہی (کفر) وہ لفظ ہے جس سے زیادہ کوئی برا لفظ اسلام کی لغت میں نہیں۔ اللہ پاک کے احسانوں اور نعمتوں کو بھلا کر دل سے اس کا احسان مند نہ بننا، زبان سے ان کا اقرار اور عمل سے اپنی اطاعت شعاری اور فرمانبرداری ظاہر نہ کرنا، یہ کفر ہے جس کے مرتکب کا نام کافر ہے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح کفر اسلام کی نگاہ میں بدترین خصلت ہے اس کے بالمقابل شکر سب سے بہتر اور اعلیٰ صفت ہے۔ قرآن پاک میں یہ دونوں لفظ اسی طرح ایک دوسرے کے بالمقابل آئے ہیں
’’بے شک ہم نے اسے (حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار (شاکر)ہو جائے یا ناشکر گزار (کافر) رہے۔‘‘ (الانسان:۳)
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم:۷)
اس تقابل سے معلوم ہوا کہ اگر کفر، اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور نعمتوں کی ناقدری کرکے اس کی نافرمانی کو کہتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں شکر کی حقیقت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کی قدر جان کر اس کے احکام کی اطاعت اور دل سے فرمانبرداری کی جائے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانوں کی شکرگزاری یہ ہے کہ دین کی راہ اختیار کی جائے، احکام الٰہی کی پیروی کی جائے اور شرک سے پرہیز کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا ہم کو قبول فرمائے گا اور ہر علم و عمل میں ہم کو سیدھی راہ دکھائے گا۔
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ شکر ایمان کی جڑ، دین کی اصل اور اطاعت ِ الٰہی کی بنیاد ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی بناء پر بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت اور محبت پیدا ہونی چاہئے اور اسی قدر و عظمت اور محبت کے قولی و عملی اظہار کا نام شکر ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف دو باتیں چاہتا ہے، شکر اور ایمان۔ ایمان کی حقیقت تو معلوم ہے، اب رہا شکر تو شریعت میں جو کچھ ہے وہ شکر کے دائرہ میں داخل ہے۔ ساری عبادتیں شکر ہیں، بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور نیک برتاؤ کی حقیقت بھی شکر ہی ہے ۔ دولتمند اگر اپنی دولت کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہے تو یہ دولت کا شکر ہے، صاحب ِ علم اپنے علم سے بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچاتا ہے تو یہ علم کی نعمت کا شکر ہے، طاقتور کمزوروں کی امداد اور اعانت کرتا ہے تو یہ بھی قوت و طاقت کی نعمت کا شکرانہ ہے۔ الغرض شریعت کی اکثر باتیں اسی ایک شکر کی تفصیل ہیں۔ اسی لئے جب شیطان نے خدا سے یہ کہنا چاہا کہ تیرے اکثر بندے تیرے احکام کے نافرمان ہوں گے تو یہ کہا: ’’تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘ (الاعراف:۱۷)
خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو جزا د یتے ہوئے اسی لفظ سے یاد فرمایا
’’اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو (خوب) صلہ دیں گے۔‘‘ (آل عمران:۱۴۵)
پوری شریعت کا حکم اللہ تعالیٰ ان لفظوں میں دیتا ہے
’’بلکہ تُو اللہ کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا۔‘‘ (ازمر:۶۶)
شکر کے اس جذبہ کو ہم کبھی زبان سے ادا کرتے ہیں، کبھی اپنے ہاتھ پاؤں سے پورا کرتے ہیں، کبھی اس کا بدلہ دے کر اس قرض کو اتارتے ہیں۔ زبان سے اس فرض کے ادا کرنے کا نام اللہ تعالیٰ کے تعلق سے قرآن کی اصطلاح میں حمد ہے جس کے مطالبہ سے پورا قرآن معمور ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ حمد الٰہی میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات ِ کاملہ کا ذکر ہوتا ہے جو ان احسانوں اور نعمتوں کی پہلی اور اصلی محرک ہیں اور اسی لئے یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح سارے قرآن کا نچوڑ سورہ فاتحہ ہے ، سورۂ فاتحہ کا نچوڑ خدا کی حمد ہے، اسی بناء پر قرآن پاک کا آغاز الحمد سے ہے
آپ جانتے ہیں الحمد کی ابتداء اس آیت سے ہوتی ہے، ترجمہ: ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔‘‘
جہاں اور جہاں جو کچھ رنگ برنگ کی مخلوقات اور عجائبات ہیں سب کی پرورش اور زندگی کی بقا اسی ایک کا کام ہے۔ اسی کے یہ تو دنیا کے نیرنگ قدرت کا آغاز ہے ، لیکن دنیا جب اپنی تمام منازل ِ حیات کو طے کرکے فنا ہوجائے گی اور یہ موجودہ زمین اور آسمان اپنا فرض ادا کرکے نئی زمین اور نئے آسمان کی صورت میں ظاہر ہوجائیں گے ، پہلی دنیا کے عمل کے مطابق ہر شخص اس دوسری دنیا میں اپنی زندگی پا جائے گا، یعنی نیک اپنی نیکی کی جزا اور بد ، اپنی بدی کا سزا پاچکیں گے اور اہل جنت جنت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں جا چکیں گے ، یہ وقت وہ ہوگا جب دنیا اپنے اس نظام یادورہ کو پورا کرچکی ہوگی، جس کے لئے خدا نے اس کو بنایا تھا ، اس وقت عالمِ امکان کے ہر گوشہ سے یہ سریلی آواز بلند ہوگی
’’کُل حمد اللہ ہی کے لائق ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ (الزمر:۷۵)
حمد کا ترانہ موجودہ دنیا کے ایک ایک ذرہ سے آج بھی بلند ہے
’’اور ساری تعریفیں آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے ہیں۔‘‘ (الروم:۱۸)
فرشتے بھی اسی حمد میں مشغول ہیں: ’’جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں ۔‘‘ (الغافر:۷)
’’ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو ۔‘‘
(الاسراء:۴۴)
یہی شکرانہ کی حمد و تسبیح ہے جس کا مطالبہ انسانوں سے ہے : اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کرو۔ (حجر، طٰہٰ ، مومن، طور، فرقان)
حضور ﷺ کے سنن اور شمائل میں ہر وقت اور ہر موقع کی اس کثرت سے جو دعائیں ہیں، مثلاً کھانا کھانے کی، نئے کپڑے پہننے کی، سونے کی، سوکر اٹھنے کی، نئے پھل کھانے کی مسجد میں جانے ، گھر سے نکلنے کی ، وغیرہ ان سب کا منشاء اللہ تعالیٰ کی حمد اور زبان سے اس کا شکر ادا کرنا ہے لیکن زبان کا یہ شکر دل کا ترجمان اور قلبی کیفیت کا بیان ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم کو جو جسمانی نعمتیں عنایت فرمائی ہیں ان کا شکر یہ ہے کہ ہم اپنے ہاتھ پاؤ ںکو خدا کے احکام کی تعمیل میں لگائے رکھیں اور ان سے ان کی خدمت کریں جو اس جسمانی نعمت کے کسی جزء سے محروم ہیں مثلاً جواپاہج اور معذور ہوں، بیمار ہوں ، کسی جسمانی قوت سے محروم ہوں یا کسی عضو سے بیکار ہوں۔ مالی نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ جو اس نعمت سے بے نصیب ہوں ان کو اس میں سے حصہ دیا جائے ، بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے، پیاسوں کو پانی پلایا جائے، ننگوں کو کپڑا پہنایا جائے ، وغیرہ۔
قرآن پاک کی مختلف آیتوں میں مختلف نعمتوں کے ذکر کے بعد شکر الٰہی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس لئے ہر آیت میں اس شکر کے ادا کرنے کی نوعیت اسی نعمت کے مناسب ہوگی ، مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے
’’وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کے لئے ہے اور جس نے نہ (اپنے لئے) کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے۔ (الفرقان:۲)
شکر کے باب میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے زبان سے الحمدللہ پڑھ دیا تو مالک کا شکر ادا ہوگیا ۔ الحمدللہ پڑھنا بے شک بہت اچھا ہے لیکن شکر دراصل دل کے اس لطیف احسان کا نام ہے جس کے سبب ہم اپنے محسن سے محبت رکھتے ہیں، ہر موقع پر اس کے احسان کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کے لئے سراپا سپاس بنتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہم اس کو خوش رکھ سکیں اور اس کی فرمائشوں کو پورا کرتے رہیں۔ اگر ہم صرف زبان سے شکر کا لفظ ادا کریں لیکن دل میں احسان مندی اور منت پزیری کا کوئی اثر اور کیفیت نہ ہو اور اس کے مطابق ہمارا عمل نہ ہو تو ہم اس محسن کی احسان مندی کے اظہار میں جھوٹے ہیں۔ سہارے وہ جی رہے ہیں اور نکھر رہے ہیں اس لئے حمد اسی ایک کی ہے۔