Inquilab Logo

بنوعبدالقیس کے ایک شخص کی دو خصلتیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو بہت پسند ہیں

Updated: February 09, 2024, 2:57 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں عرب کے مختلف علاقوں کے وفود کی آمد کے تذکرہ میں آج بنی عامر کے وفد کی حاضری کا تفصیلی تذکرہ ملاحظہ کیجئے۔ اس کے ساتھ ہی بنوحُنیفہ کے بارے میں بھی پڑھئے۔

The pilgrims who come to the Prophet`s Mosque are engaged in the recitation of the Holy Quran and worship in the interior. Photo: INN
مسجد نبویؐ میں آنے والے زائرین اندرونی حصے میں تلاوت کلام پاک اور عبادات میں مشغول ہیں۔ تصویر : آئی این این

بنو عبد القیس کا وفد
یہ بھی نجد کا ایک مشہور اور قدیم قبیلہ ہے۔ اس قبیلے کے وفود دو مرتبہ مدینے آئے، ایک مرتبہ سن پانچ ہجری میں اور دوسری مرتبہ سن نو ہجری میں۔ مزیدہ العصریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ بہت جلد اِدھر سے سواروں کی ایک جماعت آئے گی، یہ لوگ مشرق کے رہنے والوں میں سب سے اچھے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ پہنچ گئے، حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اُدھر ہی دیکھ رہے تھے، یہ کل تیرہ لوگ تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کس مقصد سے یہاں آئے ہو؟ کیا تجارت کی غرض سے؟ 
انہوں نے کہا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا ابھی رسولؐ اللہ نے تمہارا ذکر فرمایا تھا اور تمہارے بارے میں بہت اچھی بات کہی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ان کے ساتھ چلتے ہوئے رسولؐ اللہ کے پاس پہنچ گئے، انہوں نے آپؐ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آنے والوں سے کہا کہ وہ ہیں رسولؐ اللہ۔ یہ سن کر وہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر پڑے، کوئی تیز تیز چلتا ہوا اور کوئی دوڑتا ہوا آپؐ تک پہنچا، ان سب نے آپؐ کا دست مبارک چومنا شروع کردیا۔ ان میں ایک نوجوان اشجّ نامی تھا۔ اس نے پہلے اپنی اونٹنی کو بٹھلایا، پھر اپنے ساتھیوں کا سامان اتار کر سلیقے سے رکھا، پھر اپنی صندوقچی میں سے صاف ستھرے کپڑے نکال کر پہنے، اس کے بعد اطمینان سے چلتا ہوا آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا: تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو بہت پسند ہیں، ایک حلم اور دوسری متانت۔ اشج نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ دونوں خصلتیں کسبی ہیں یا اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہیں، آپؐ نے فرمایا: اللہ کی طرف سے ہیں، اشج نے عرض کیا: میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے اللہ اور اس کے رسول کی پسندیدہ خصلتیں مجھ میں پیدا فرمائی ہیں۔ 
وفد کے ایک شخص زارع بن عامر نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ایک ماموں کو فلاں بیماری لاحق ہے، آپؐ ان کے لئے دُعا فرمادیجئے، آپؐ نے فرمایا: وہ کہاں ہیں، انہیں میرے پاس لے کر آؤ، زارع نے ماموں کو صاف کپڑے پہنائے اور انہیں لے کر رسولؐ اللہ کی خدمت میں پہنچا، آپؐ نے ان کی چادر اٹھائی پھر زور سے ان کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اے خدا کے دشمن شیطان؛ نکل! اس کے بعد زارع کے ماموں بالکل اچھے ہوگئے، اور تندرست انسان کی طرح دکھائی دینے لگے۔ 
روایات میں ہے کہ وفد کے افراد سے خطاب کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ تمہارے آنے سے خوشی ہوئی، نہ تم ذلیل ہوگے اور نہ رسوا ہوگے، میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ ایمان کیا چیز ہے؟ ایمان اس بات کی گواہی کا نام ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، میں تمہیں نماز پڑھنے کا، زکوٰۃ دینے کا اور روزے رکھنے کا بھی حکم دیتا ہوں، اور اس بات کا بھی حکم دیتا ہوں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لئے نکالا کرو، میں تم لوگوں کو دُبّا، حنتم، نقیر، اور مُزفَّت (برتنوں کے نام) استعمال کرنے سے روکتا ہوں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ برتن انگور اور کھجور کی شراب بنانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ اشجّ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! ہمارے علاقے کی مٹی اچھی نہیں ہے، اگر ہم شراب نہیں پئیں گے تو ہمارے پیٹ پھول جائینگے۔ آپؐ ہمیں تھوڑی بہت پینے کی اجازت دے دیں، اشجّ نے دونوں ہاتھوں کو ملا کر دکھلایا کہ اتنی پینے کی اجازت دے دیجئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگر تمہیں تھوڑی پینے کی اجازت دے دی گئی تو تم میں کا کوئی شخص اتنی پی کر نشے میں دھت ہوجائے گا، آپ نے زیادہ کی مقدار بتلانے کے لئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے، پھر فرمایا کہ وہ نشے میں اپنے چچا زاد بھائی پر حملہ کرکے اس کی ٹانگ کاٹ لے گا، آپؐ نے فرمایا: تم چمڑے کے مشکیزوں میں پیو۔ (اس میں بھگونے سے شراب کا نشہ پیدا نہیں ہوتاتھا) لوگوں نے عرض کیا: ہمارے علاقوں میں چوہے بہت زیادہ ہیں وہ چمڑے کے مشکیزے کُتر ڈالتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: اگرچہ چوہے انہیں کاٹ ڈالیں، اگرچہ چوہے انہیں کاٹ ڈالیں۔ یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی۔ 
اس وفد میں ایک شخص اور بھی تھا، اس کا نام جارود بن عمرو بن خنش تھا، آپؐ نے وفد کے لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا، جارود نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں پہلے ایک دین پر تھا۔ روایت یہ ہے کہ وہ پہلے عیسائی تھا، اب آپؐ نے دوسرا دین پیش کیا ہے، اب میں پہلے دین کو ترک کرتا ہوں اور آپؐ کے پیش کردہ دین کو اپناتا ہوں، کیا آپؐ میرے دین کی ضمانت دیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ نے تمہیں سب سے بہتر دین کی ہدایت عطا فرمائی ہے۔ جارود بن عمرو مسلمان ہوگئے اور زندگی کی آخری سانس تک اسلام پر ثابت قدم رہے۔ انہوں نے ارتداد کا زمانہ بھی پایا۔ غرور بن منذر بن نعمان کے بہکانے سے ان کے قبیلے کے لوگ مرتد ہوگئے تھے، حضرت جارود اس وقت بھی ثابت قدم رہے اور اپنے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ 
وفد بنی عبد القیسؓ واپس جانے لگا تو ان لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمیں سواریاں عطا فرمائیں، آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اس وقت میرے پاس تمہیں دینے کیلئے کوئی سواری نہیں ہے، انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستے میں کچھ گمراہ لوگ رہتے ہیں، کیا ہم ان سے ملتے ہوئے گزر جائیں ؟ فرمایا: نہیں، یہ تو آ گ میں جلنے کے مترادف ہے۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۹/ ۳۶۸، رقم الحدیث: ۱۷۸۳۲، دلائل البیہقی: ۵/۳۲۸، سیرت ابن ہشام: ۴/۴۴۵) 
بنی حُنیفہ کا وفد
اس قبیلے کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے۔ یہ ایک قدیم عرب قبیلہ ہے جس کا تعلق بنو ربیعہ سے ہے۔ اس میں بنو غزہ، بنو عبد القیس اور بنو تغلب بھی شامل تھے۔ اس قبیلے کے لوگ طلوعِ اسلام کے وقت کاشت کاری کے پیشے سے وابستہ تھے اور یمامہ کی وادیوں میں رہتے تھے، خاص طور پر وادئِ عِرض میں، بعد میں یہ وادی اس قبیلے کی نسبت سے وادئِ حُنیفہ سے موسوم ہوئی۔ چودھویں صدی عیسوی کے سیّاح ابن بطوطہ نے اس علاقے کا سفر کیا، وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے اکثر باشندے بنی حنیفہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس قبیلے کے ایک خاندان کا نام مَرْدَہْ بھی تھا، اس کی نسل کے ایک فرد مانع بن ربیعہ المریدی نے ۱۴۴۶ء (۸۵۰ھ) میں الدرعیہ میں ایک چھوٹی سی قبائلی حکومت بھی قائم کی تھی، یہ شخص موجودہ شاہی خاندان آل سعود کے آباؤ واجداد میں سے ہے، سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں بنی حنیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کثرت سے آباد ہیں۔ 
اس قبیلے کا اسلامی تاریخ میں اس حیثیت سے ذکر کیا جاتا ہے کہ اس کے ایک فرد نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس جھوٹے مدعی نبوت کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس قبیلے میں ارتداد کی تحریکوں نے بھی جنم لیا، ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے حضرت ابوبکرؓ صدیق نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا جو مسیلمہ کذاب کو شکست دے کر لوٹا۔ یہ بدبخت اور جھوٹا مدعیٔ نبوت حضرت وحشیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا، اس جنگ میں تقریباً چھ سو مسلمان شہید ہوئے جن میں ستر صحابہ حافظ قرآن تھے۔ 
قبیلہ بنو حنیفہ میں اسلام پہلے ہی پہنچ چکا تھا، سن چھ ہجری کا واقعہ ہے کہ رسولؐ اکرم نے یمامہ کی جانب گُھڑ سوار مجاہدین کا ایک دستہ روانہ فرمایا، یہ حضرات بنو حنیفہ قبیلے کے ایک سردار ثُمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے لائے اور اسے مسجد نبویؐ کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ آپؐ ستون کے قریب تشریف لے گئے، اورثمامہ سے دریافت فرمایا: تیرا کیا خیال ہے، میں تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اس نے کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے پاس تو خیر ہی خیر ہے، اگر تم مجھے قتل کروگے تو ایک ایسے شخص کو قتل کروگے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر میرے ساتھ حسن سلوک کروگے تو ایسے شخص کے ساتھ کرو گے جو احسان شناس ہے، اور اس کی قدر کرنا جانتا ہے، اگر آپ کو مال و دولت کی طلب ہے تو بتائیں کتنا مال چاہئے۔ یہ جواب سن کر آپؐ کوئی جواب دیئے بغیر چلے گئے۔ اگلے دن آپؐ پھر تشریف لائے اور وہی سوال دہرایا، آج بھی اس نے جواب میں وہی کہا جو گزشتہ کل کہا تھا، آپؐ نے آج بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور کچھ نہ کہا، اگلے دن پھر تشریف لائے، اور وہی سوال وجواب ہوا، اس کے بعد رسولؐ اللہ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ ثمامہ کو رہا کردیں۔ رہائی کے بعد ثمامہ ایک باغ میں گیا، وہاں سے غسل کرکے واپس مسجد میں آیا اور رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ کلمۂ شہادت پڑھنے کے بعد اس نے کہا کہ اے محمدؐ! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس سرزمین پر جس قدر بھی چہرے ہیں ان سب میں آپؐ کے چہرے پر مجھے سب سے زیادہ غصہ آتا تھا، اور آج میرا حال یہ ہے کہ اس سر زمین پر جتنے بھی چہرے ہیں ان میں سب سے زیادہ محبوب میرے نزدیک آپؐ کا چہرہ ہے، آج سے پہلے کوئی دین آپؐ کے دین سے بڑھ کر میرے لئے ناپسندیدہ نہیں تھا، مگر آج آپؐ کا دین تمام ادیان کے مقابلے میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، میں اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ آج سے پہلے میرے نزدیک آپؐ کا شہر دنیا کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ مبغوض تھا آج یہی شہر مجھے سب سے زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ آپؐ کے گھڑ سواروں نے مجھے جس وقت گرفتار کیا میں عمرہ کے ارادے سے نکل رہا تھا، اب آپؐ کے حکم کا پابند ہوں، مجھے بتلائیے کہ میں عمرہ کروں یا واپس چلا جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمرہ کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ (صحیح البخاری: ۵/۱۷۰، رقم الحدیث: ۴۳۷۲) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK