Inquilab Logo

انڈیا اور بھارت کی غیر ضروری بحث

Updated: September 08, 2023, 2:59 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہند، ہندوستان، انڈیا، بھارت۔یہ سب اُس ایک ملک کے نام ہیں جسے ساری دُنیا قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتی آئی ہے۔

"India that is India" means India which is India.Photo:INN
’’انڈیا دَیٹ اِز بھارت‘‘ یعنی انڈیا جو بھارت ہے۔ تصویر: آئی این این

ہند، ہندوستان، انڈیا، بھارت۔یہ سب اُس ایک ملک کے نام ہیں  جسے ساری دُنیا قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتی آئی ہے۔ ان تمام الفاظ کی اپنی تاریخ ہے اور تاریخ کے جس کسی حوالے کو سامنے رکھا جائے، نام کے قدیم ہونے کی سند مل جائیگی۔ دستورِ ہند میں  انڈیا بھی درج ہے اور بھارت بھی۔ اس میں  ہند اور ہندوستان درج نہیں  ہے مگر اِن دو ناموں  کی شہرت بھی کم نہیں  ہے۔عالم ِ عرب میں  انڈیا اور بھارت کو ہند بولتے ہیں   اور یہاں  کے شہریوں  کو  ہندی۔ اس پر کسی ہندوستانی کو کبھی اعتراض نہیں  ہوا۔ جب اقبال نے کہا کہ ’’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘‘ تو اسے ملک کے ایک ایک شہری نے دل و جان سے قبول کیا اور اپنے دل میں  وطن کی عظمت و رفعت کو راسخ کیا۔ افسوس کہ اب ہند اور ہندوستان بولنے اور لکھنے کا چلن کم ہی نہیں  بہت کم ہوگیا ہے اور بیرون ِ ملک انڈیا اور اندرون ِ ملک بھارت کا چلن عام  ہے اس کے باوجود آپ اپنے ملک کو چاروں  میں  سے کسی نام سے یاد کریں ، نہ تو کوئی متعجب ہوگا نہ ہی لاعلمی کا اظہار کریگا۔
اگر صرف انڈیا یا بھارت کی بات کریں  تو دونوں  ہی الفاظ یا دونوں  ہی ناموں  کی اپنی اہمیت ہے اور انڈین شہری کہے جانے پر کوئی خود کو کمتر محسوس نہیں  کرتا اور بھارتیہ ناگرک کہلانے پر اعتراض نہیں  کرتا مگر افسو س کہ ایک بحث چھڑ گئی اور ٹی وی چینلوں  نیز سوشل میڈیا پر روزانہ کسی نئے اشیو کے انتظار میں  بیٹھے صارفین کو موقع مل گیا اپنی اپنی رائے کے اظہار کا۔ ہمارا آئین بذات خود اِن دو الفاظ یا ناموں  کو شرف قبولیت بخشتا ہے جس میں  درج ہے: ’’انڈیا دَیٹ اِز بھارت‘‘ یعنی انڈیا جو بھارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سے آٹھ دن پہلے تک انڈیا اور بھارت میں  کوئی تفریق اور امتیاز نہیں  تھا۔ خود وزیر اعظم نے جن اسکیموں  کو بڑے شاندار طریقہ سے جاری کیا اُن کے نام اسکل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور کھیلو انڈیا وغیرہ ہیں ۔ ہمارے خیال میں  دونوں  ہی نام قابل قبول ہونے چاہئیں  جیسا کہ اب تک رہے  کیونکہ صرف ایک نام (بھارت) پر اِصرار سے کنفیوژن بھی پیدا ہوگا اور خطیر رقم بھی خرچ کرنی ہوگی جیسا کہ خبروں  میں  بتایا گیا کہ اگر انڈیا نام بدلا گیا تو چودہ ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے ہونگے۔ کیا ایسے وقت میں  ہندوستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے یا اسے ہونا چاہئے جب ہر ہندوستانی  پر ایک لاکھ سولہ ہزار کا قرض ہے؟ 
 بحث شروع ہی نہ ہوئی ہوتی اگر جی ۲۰؍ کے مندوبین کیلئے صدر جمہوریہ کے دعوتنامہ ٔ عشائیہ  میں  ’’پریسیڈنٹ آف بھارت‘‘ نہ لکھا گیا ہوتا۔ موجودہ حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے بہت سے اقدام کا سبب یا پس منظر نہیں  بتاتی۔ اگر پہلے سے بتا دیا گیا ہوتا کہ اب اُن سرکاری دستاویزات یا مکتوبات میں  بھی، جو انگریزی میں  ہونگے، انڈیا کے بجائے بھارت لکھا جائیگا تو شاید کسی کو حیرت نہ  ہوتی۔ چونکہ یہ اچانک ہوا اس لئے حیرت بھی ہوئی اور بحث و تمحیص کا دَر بھی کھلا۔ یہ بحث اب بھی جاری ہے اور اس کا جاری رہنا  ثبوت ہے کہ بھارت لفظ پر کسی کو اعتراض نہیں  تب بھی بھارتی شہری بحث کررہے ہیں  شاید اسلئے کہ ان کے  پاس لایعنی مباحث کیلئے بھی خاصا وقت ہے اور شاید اسی لئے حکمراں  طبقہ اشارتاً کوئی موضوع آئے دن اُچھال دیتا ہے اور اس کے ہمنوا میڈیا کی بن آتی ہے۔ تعجب اس پر ہے کہ حکمراں  جماعت کا موقف کل کچھ تھا، آج کچھ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK