Inquilab Logo

اترپردیش: دہشت گرد تنظیموں سے وابستگی کے الزام میں قید ۱۱؍ مسلمانوں کو ضمانت

Updated: May 16, 2024, 6:02 PM IST | New Delhi

منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے ذریعہ کالعدم تنظیم القاعدہ اور اس کے ہندوستانی ہم منصبوں کے ساتھ مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۱۱؍ مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دی کہ ’’استغاثہ ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے۔‘‘

Allahabad High Court. Photo: INN
الہ آباد ہائی کورٹ۔ تصویر: آئی این این

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے منگل کو انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے ذریعہ کالعدم تنظیم القاعدہ اور اس کے ہندوستانی ہم منصبوں کے ساتھ مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۱۱؍ مسلمانوں کو ضمانت دی۔ جسٹس عطاء الرحمن مسعودی اور جسٹس منیش کمار نگم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے تمام ۱۱؍ ملزمان کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ کیس کے ریکارڈ اور اس سے منسلک دستاویزات پر غور کرنے اور ملزمان اور استغاثہ کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف کارروائی کیلئے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے اس کی وجوہات بتائے گی۔ 
عدالت نے کہا کہ ’’استغاثہ اس مرحلے پر اپنے کیس کو ایک معقول شبہ سے بالاتر ثابت نہیں کر سکا ہے۔‘‘ مکتوب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے، ایڈوکیٹ فرقان پٹھان (جو ۱۱؍ مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں) نے کہا کہ ’’استغاثہ ان دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہا جو اِن کی گرفتاری کے دوران کئے گئے تھے اور ضرورت پڑنے پر ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیا، اس لئے عدالت نے پہلے سے طے شدہ ضمانت منظور کر لی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ گرفتاریاں بے بنیاد ہیں اور ثابت بھی ہوئیں۔
جواب دہندگان کی طرف سے پیش ہونے والے ایک اور وکیل ایڈوکیٹ سیف علی نے کہا کہ ’’جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ کالعدم تنظیمیں کام کررہی ہیں تو ان کے اڈے ہندوستان میں کہاں ہیں؟ تو استغاثہ کوئی جواب نہیں دے سکا۔‘‘ واضح رہے کہ جب کیس سے نمٹنے والی ایجنسی یا اتھاریٹی مقررہ مدت کے اندر تفتیش مکمل کرنے یا الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ملزمین کو ’’ڈیفالٹ ضمانت‘‘ ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: عالمی عدالت نے رفح میں اسرائیلی آپریشن کے خلاف سماعت شروع کی

جن تمام ۱۱؍ ملزمین کو پہلے سے ضمانت دی گئی تھی ان میں علیم، مدثر، ندیم، حبیب الاسلام، حارث، عاصم محمد، کامل، قاری شہزاد، مولانا لقمان، علی نور، نوازیہ انصاری، مختار اور مولانا لقمان شامل ہیں۔ انہیں اتر پردیش اے ٹی ایس نے ۲۶؍ستمبر ۲۰۲۲ء کو ہندوستان اور دیگر پڑوسی ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے دوران ان کے موبائل فون، گیجٹ، لیپ ٹاپ اور کاپی کتابیں بھی ضبط کرلی گئی تھیں۔ بعد میں، اے ٹی ایس نے اپنے دعووں کی تائید  کیلئے ۴۵؍ عینی شاہدین کو عدالت میں پیش کیا لیکن پھر بھی ناکام رہا کیونکہ عدالت نے کہا، ’’ملزم کو حراست میں رکھنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ استغاثہ ملزمین کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK