شکل جی اب تک ڈھیر ساری نظمیں اور کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ پر اُنہیں ساہیتہ اکادیمی انعام (۱۹۹۹ء) دیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: April 20, 2025, 12:16 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
شکل جی اب تک ڈھیر ساری نظمیں اور کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ پر اُنہیں ساہیتہ اکادیمی انعام (۱۹۹۹ء) دیا گیا تھا۔
دو ہزار چوبیس (۲۰۲۴ء) کے گیان پیٹھ ایوارڈ کیلئے ججوں کی نگاہ ہندی کے منفرد نثر نگار اور اپنی شاعری سے متاثر کرنے والے ونود کمار شکل پر جا ٹھہری ہے جو اُن فنکاروں میں سے نہیں ہیں جو ایوارڈ حاصل کرنے کیلئے مسلسل تگ و دو کرتے ہیں، جوڑ توڑ اور سفارشوں کا سہارا لیتے ہیں اور وہ سب کرتے ہیں جو دباؤ ڈالنے کی سیاست (لابئنگ)کے ذیل میں آتا ہے۔ شکل کی بے نیازی اُن کا اہم شناخت نامہ ہے۔ نہ تو مشاعروں میں شرکت اُنہیں بھاتی ہے نہ ہی کسی سنگوشٹی کی شوبھا بڑھانے کی آرزو اُنہیں ستاتی ہے۔ نیتاؤں سے صاحب سلامت بھی اُن کا شیوہ نہیں۔ ایسے ہی کسی ادیب اور شاعر کو جب کوئی اعزاز ملتا ہے تو اسے حق بحقدار رسید کہنا اچھا لگتا ہے۔ شکل جی عمر کی ۸۸؍ ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ اعزاز و انعام سے اُن کی بے نیازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اُن سے گیان پیٹھ ملنے کی بابت سوال کیا گیا تو اُن کا جواب تھا: ’’یہ بہت بڑا پرسکار ہے، مَیں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ مجھے ملے گا، دراصل میں نے کبھی پرسکاروں پر دھیان نہیں دیا، لوگ مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ مجھے گیان پیٹھ ملنا چاہئے لیکن میں کیا کہتا؟ جھجک کے سبب مَیں کبھی صحیح شبد کھوج نہیں پایا۔ ‘‘
شکل جی اب تک ڈھیر ساری نظمیں اور کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ پر اُنہیں ساہیتہ اکادیمی انعام (۱۹۹۹ء) دیا گیا تھا۔ بہت کچھ لکھنے کے باوجود اُنہوں نے اِنکساری کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں : ’’مجھے لکھنا بہت تھا، بہت کم لکھ پایا، میں نے دیکھا بہت، سنا بھی بہت، محسوس بھی کیا بہت لیکن لکھنے میں تھوڑا ہی لکھا، کتنا کچھ لکھنا باقی ہے، جب سوچتا ہوں تو لگتا ہے بہت باقی ہے، اس بچے ہوئے کو مَیں لکھنا چاہتا ہوں، اپنے بچے ہونے تک مَیں اپنے بچے ہوئے لیکھن کو شاید لکھ نہیں پاؤں گا، تو مَیں کیا کروں، بڑی دُوِدھا میں رہتا ہوں، مَیں اپنی زندگی کا پیچھا اپنے لیکھن سے کرنا چاہتا ہوں مگر میری زندگی کم ہونے کے راستے پر تیزی سے بڑھتی ہے اور مَیں لیکھن کو اُتنی تیزی سے بڑھا نہیں پاتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ ‘‘
معیار پر مقدار کو ترجیح دیتے ہوئے کئی کتابیں تصنیف کرجانے، مشہور ہوجانے، انعام پر انعام اور اعزاز پر اعزاز حاصل کرلینے اور کئی اہم مناصب پر فائز ہوجانے کے غالب رجحان کے اِس دور میں یہ ایسا ادیب اور شاعر ہے جو عمر کی آخری سرحد کے قریب پہنچنے کے بعد بھی کہتا ہے کہ بہت تھوڑا لکھا جبکہ اسے انفرادیت اور تخلیقی روانی کی دولت حاصل ہے۔ لکھنے کو بہت لوگ لکھتے ہیں، مشہور بھی ہوتے ہیں، پیسہ بھی کما لیتے ہیں مگر اُن کا فن چند موسم بھی نہیں جھیل پاتا، بھلا دیا جاتا ہے اور اگر وہ خود کو بار بار یاد دلواتے رہیں تب بھی اُن کا ایک شعر، ایک کہانی اور ایک قول بھی دل میں نہیں اُترتا۔
شکل جی لکھتے ہی نہیں خوب لکھتے ہیں۔ اُن کے فن میں مظاہر قدرت کو بڑا دخل ہے، وہ چڑیوں، تاروں، ستاروں، چاند، سورج، پھول پتیوں، پیڑوں اور پرندوں کو اپنے فن میں اس طرح جگہ دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے یہی اُن کی جگہ ہے۔ اسی طرح اُنہیں عام آدمی سے، اپنے قصبے کے مشہور مقامات سے، اپنے عزیزوں اور پڑوسیوں سے بڑی محبت ہے، اسی لئے وہ اپنے کسی بھی فن پارے کو اُس وقت تک نامکمل تصور کرتے ہیں جب تک ان میں سے کسی کا ذکر نہ کرلیں۔ اُن کی نظموں میں مظاہر قدرت کی مثال دیکھئے، کہتے ہیں : ’’پہاڑ، ٹیلے، چٹانوں، تالاب، اسنکھیہ پیڑ، کھیت، کبھی نہیں آئینگے میرے گھر، کھیت کھلیانوں جیسے لوگوں سے ملنے، گاؤں گاؤں، جنگل گلیاں جاؤنگا‘‘ (نظم جو میرے گھر کبھی نہیں آئیں گے)۔ اسی طرح اُن کی انسان دوستی ملاحظہ کیجئے، کہتے ہیں : ’’سب سے غریب بیمار آدمی کے لئے، سب سے سستا ڈاکٹر بھی، بہت مہنگا ہے‘‘ (نظم: سب سے غریب آدمی) یا ’’رئیسوں کے چہرے پر، اُٹھی ہوئی اونچی ناک، اور قیمتی سینٹ، خوشبو مَیں نہیں جانتا، دکھ جانتا ہوں ‘‘ (نظم رئیسوں کے چہرے پر)۔ اُن کی نظم ’’ہتاشا (مایوسی) سے ایک ویکتی بیٹھ گیا تھا‘‘ تو بے پناہ ہے اور بار بار پڑھنے پر اُکساتی ہے۔ کہتے ہیں : ’’ہتاشا سے ایک ویکتی بیٹھ گیا تھا، ویکتی کو مَیں نہیں جانتا تھا، ہتاشا کو جانتا تھا، اس لئے میں اس ویکتی کے پاس گیا، مَیں نے ہاتھ بڑھایا، میرا ہاتھ پکڑ کر وہ کھڑا ہوا، مجھے وہ نہیں جانتا تھا، میرے ہاتھ بڑھانے کو جانتا تھا، ہم دونوں ساتھ چلے، دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، ساتھ چلنے کو جانتے تھے۔ ‘‘ اُن کا پیغام واضح ہے۔ مدد کا طالب چاہتا ہے کہ کوئی اُس کی مدد کرے، جب مدد کو ہاتھ بڑھتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون مدد کررہا ہے، اسی طرح مدد کا جذبہ رکھنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس کی مدد کررہا ہے، وہ صرف مدد کررہا ہوتا ہے۔ دُنیا میں دونوں طرح کے افراد ہیں اور دونوں کو ایکدوسرے کی حاجت ہے، ایک کو مدد دَرکار ہے، دوسرے میں مدد کا جذبہ ہے، شاعر ان دونوں کے درمیان پُل بن کر ایک اہم ذمہ داری نبھانا چاہتا ہے اور اس حوالے سے بہت سوں کو اُن کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے۔ شکل جی کی نظموں میں سماج کے ایسے کئی کردار ہیں جن کے بارے میں عموماً سوچا بھی نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر ایک نظم ’’آنکھ بند کرلینے سے‘‘ میں وہ نابینا افراد کی محرومی کو اُجاگر کرتے ہیں کہ اُن کے حصے میں اُتنی ہی دُنیا آتی ہے جتنی وہ چھو‘ کر دیکھ سکتے ہیں، بقیہ کی خواہش اُنہیں بیقرار چین رکھتی ہے (’’طرح طرح کی آوازوں کے بیچ، کرسی بناتا ہوا ایک اندھا، سنسار سے سب سے ادھیک پریم کرتا ہے، وہ کچھ سنسار اسپرش کرتا ہے اور، بہت کچھ اسپرش کرنا چاہتا ہے‘‘)۔ یہ نکتہ وہی اُجاگر کرسکتا ہے جو نابینا افراد کے تئیں مخلصانہ جذبات رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں بصارت سے محروم افراد کی بے چینی تک پہنچ جاتا ہے جن کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ وہ چیزوں کو چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کا چھونا ہی دیکھنا ہے اور دیکھنا ہی اُن چیزوں کو دائرۂ تسخیر میں لانا ہے۔ ایسی جدوجہد بینائی والے افراد کو نہیں کرنی پڑتی جو کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں مگر نہ تو اپنے دیکھنے کو محسوس کرتے ہیں نہ ہی بینائی جیسی عظیم نعمت کی قدر کرتے ہیں۔
ونود کمار شکل کی اس فنی خصوصیت کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے افراد کی اُمیدیں، آرزوئیں، محرومیاں، ناکامیاں، بیماریاں، بے کیفی اور ثروتمندوں کی بے رُخی جیسے موضوعات کو برتتے ہوئے اُن کا لہجہ نہ تو اتنا تلخ ہوتا ہے کہ گراں گزرے نہ ہی اتنا بلند کہ نعرہ یا شور بن جائے۔ وہ اپنی بات سادگی اور نرمی سے کہتے ہیں، اُن کے لہجے میں برہمی نہیں ہے، اپنی بات سمجھانے کا جذبہ ہے۔ وہ اِس خوبصورت دُنیا کی خوبصورتی کو بچائے رکھنا چاہتے ہیں، اس میں لوگوں کو ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں، تیزی سے بدلتی ہوئی دُنیا سے اُنہیں شکایت ضرور ہے مگر یہ اعتراف بھی ہے کہ دُنیا ہے تو بدلے گی ہی، جوں کی توں تو کبھی نہیں رہ سکتی مگر وہ اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ تسلسل کے ساتھ تغیر پزیر دُنیا میں ہمیشہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا تحفظ ضروری ہے، اسی لئے کہتے ہیں : ’’یہ چیتاؤنی ہے کہ ایک چھوٹا بچہ ہے، یہ چیتاؤنی ہے کہ چار پھول کھلے ہیں، یہ چیتاؤنی ہے کہ خوشی ہے اور گھڑے میں بھرا ہوا پانی پینے کے لائق ہے، ہوا میں سانس لی جاسکتی ہے یہ چیتاؤنی ہے‘‘۔ چیتاؤنی اس اعتبار سے کہ ان سب چیزوں کا تحفظ لازم ہے ورنہ یہ نعمتیں چھن بھی سکتی ہیں۔ جنگوں کی تباہی کے خلاف انتباہ پر ختم ہونے والی اس نظم میں سکون سے جینے کی خواہش کے ساتھ سکون سے مرنے کی آرزو کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے، شکل کہتے ہیں : ’’کسی ہونے والے یدھ (جنگ) سے جیو ِت بچ کر مَیں اپنی اہمیت سے مرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ یہ ایسی شاعری ہے کہ ایک بار پڑھ کر اُس کی گہرائی و گیرائی کو سمجھا نہیں جاسکتا، اسے بار بار پڑھنے میں لطف بھی آتا ہے اور تفہیم بھی آسان ہوجاتی ہے۔
ونود کمار شکل نے اظہارِ خیال کیلئے جو دُنیا خلق کی ہے وہ اُن کے آس پاس کی دُنیا تو ہے ہی، نہیں بھی ہے۔ جب وہ کسی شخص کی کہانی سنا تے ہیں تب اُس شخص ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ اُس کے حوالے سے کائنات کے کسی اور گوشے کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، یا، جب گھر میں ہوتے ہیں تو گھر کے افراد، آوازیں، ماحول اور بادی النظر میں جو کچھ بھی دکھائی اور سنائی دیتا ہے وہی نہیں دیکھتے اور سنتے بلکہ اُس کے علاوہ بھی کچھ دیکھنے اور سننے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً اگر وہ یہ بیان کررہے ہیں کہ وہ گھر میں کیا کیا دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں تو اُن کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ اُن باتوں کو بھی موضوع بحث بنائیں جو اُن کی غیر موجودگی میں واقع ہوتی ہوں گی۔ مثال کے طور پر ناول ’’نوکر کی قمیض‘‘میں اُنہوں نے لکھا: ’’پانچ منٹ کیلئے باہر جانا مطلب پانچ منٹ تک گھر کے منظر پر پردہ پڑا رہتا ہے، میری غیر حاضری میں بیوی اور ماں کا کوئی اور ہی منظر ہوتا ہوگا، کہ فرصت ملی، یا میری موجودگی میں ان کو کام کرنے میں اڑچن ہورہی تھی۔ ‘‘
جیساکہ ناول کے اس جملے سے ظاہر ہے، اُن کا تخلیق کردہ ماحول متوسط طبقے یا نچلے متوسط طبقے کے مسائل اور پریشانیوں کا عکاس ہے جسے سمجھنے کیلئے ناول کے ابتدائی حصے کا یہ جملہ ہی کافی ہوگا: ’’مَیں نے بیوی سے کہا آج مَیں جب بھی گھر لوَٹ کر آؤں گا، تم پانی کی بالٹی لئے ہوئے ہی دکھو گی؟‘‘ یہ کہہ کر ناول کا ’’مَیں ‘‘ ماں سے مخاطب ہوتا ہے: ’’مَیں نے اماں سے کہا، اماں تم کل شام کو بھی چاول چن رہی تھیں، آج بھی چن رہی ہو، اپنے گھر میں کیا بوروں میں چاول ہے؟ اور جو پانی بھرنے کیلئے پیتل کا ڈرم ہے وہ ڈرم نہیں ہے پیتل کا کنواں ہے اس لئے تمہیں اس کوبھرنے کا شوق ہے!‘‘
بیوی کا بار بار پانی بھرتا ہوا نظر آنا اور ماں کا بار بار چاول چنتا ہوا دکھائی دینا یہ بھی سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ محدود وسائل کے کنبوں میں روز پانی پینے کیلئے روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ اُن کی زندگی آسانیوں اور سہولتوں کی وادیٔ گل نہیں ہے، دشواریوں اور مشکلات کی وادیٔ پُر خار ہے اور ان کنبوں کی عورتوں کے پاس گنے چنے کاموں کے علاوہ کوئی ایسی مصروفیت نہیں ہے جو اُن کی دلچسپی کی ہو، اُن کے ہاں اتنی کشادگی نہیں ہے کہ روزمرہ کا کوئی کام، جی نہ چاہے تو، ایک آدھ دن ٹال دیں، نہ کریں، جی نہیں، یہ لگژری اُن کے ہاں نہیں ہے، وہ بیمار ہوں، پریشان ہوں، بدن کوکمزوری لاحق ہوگئی ہو، جو ذمہ داریاں اُن کا مقدر ہیں وہ اُنہیں نبھانی ہی پڑتی ہیں، اُن کے سامنے راہ ِ فرار نہیں ہوتی۔ ایک جیسے معمولات کی یکسانیت اُنہیں پریشان نہیں کرتی بلکہ وہ اپنے انداز کی دلچسپیاں خلق کرکے یکسانیت کے خلاف جنگ کرتی ہیں اور حالات کی جنگ نہ جیت پانے کے باوجود یہ جنگ جیت جاتی ہیں۔ ایسی زندگی ہندوستان کی ہر ریاست اور ہر علاقے میں ملے گی، یہاں وہ کنبے بھی ہیں جن کے پاس غیر محدود وسائل ہیں اور وہ کنبے بھی جن کیلئے ’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘، اسکے باوجود جب تک خواہشات کو پَر نہیں لگے تھے یا جتنی چادر اُتنے پاؤں پھیلانے کا مزاج تھا تب تک یہ طبقہ خوشحال نہ ہونے کے باوجود خوش رہا، اب خوشحال نہیں تو خوش نہیں ہے، اشتہارات کے ذریعہ روزانہ بلکہ ہمہ وقت اس کی اشتہا بڑھائی جاتی ہے، ہوس جگائی جاتی ہے اور اس کے جذبۂ قناعت کو آزمایا جاتا ہے مگر جس دور میں شکل جی نے ’’نوکر کی قمیض‘‘ لکھی، متوسط طبقے کی زندگی مختلف تھی، بہتر تھی، قابل ذکر تھی۔
بالائی سطور میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ونود کمار شکل کے ہاں احتجاج تو ہے مگراس کی آواز میں شور نہیں ہے، اس آوازکو سنتے ہوئے آپ ناآسودگی میں آسودگی تلاش کرتے ہیں یا ناآسودگی کو اِنجوائے کرتے ہیں کیونکہ مصنف آپ کو زندگی کی ایک تصویر دکھا کر غمزدہ نہیں کرنا چاہتا، وہ چاہتا ہے کہ آپ اُس تصویر سے غافل نہ رہیں۔ اسی لئے زیر تذکرہ ناول میں جگہ جگہ ایسا طنز در آتا ہے جو نعرہ بنتا تو پُرشور ہوجاتا اور چٹکی نہیں رہ جاتا، گھونسہ بن جاتا۔ ونود کمار شکل کی تنقید اور طنز لطیف ہے۔ یہ دیکھئے اقتدار کی بابت وہ کیا اور کس طرح کہتے ہیں : ’’جب کوئی یہ کہتا کہ آنے والے بیس برس میں یہ ملک خوشحال ہوجائیگا تب مَیں سوچتا تھا کہ خوشحالی بیس برسوں میں کیوں ؟ بیس برس کے بعد بھی خوشحالی ہوگی یہ کیسے کوئی کہہ سکتا ہے، خوشحالی ابھی ہو، اسی وقت، میرے دیکھتے دیکھتے۔ ‘‘
شکل جی کے کہانی کہنے (بیان کرنے) کا انداز بالکل الگ ہے، منفرد، وہ ہر بات میں نئی بات پیدا کرتے ہیں اور قاری کہانی یا ناول کے پلاٹ کو سمجھنے یا اس کے انجام تک پہنچنے کا انتظار نہیں کرتا، اس سے پہلے ہی ہنستا کھیلتا، اُن کے جملوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ مثلاً یہ چند جملے ملاحظہ کیجئے جن سے اُن کے جملوں کی گہرائی اور ان میں بسے ہوئی نا آسودگی، دکھ، درد، اُلجھن، بے چینی اور بے اطمینانی کا اندازہ ہوگا:
(۱) ’’میری تنخواہ ایک کٹہرا تھا جسے توڑنا میرے بس میں نہیں تھا، یہ کٹہرا مجھ میں قمیض کی طرح فٹ تھا اور مَیں اپنی پوری طاقت سے کمزور ہونے کی حد تک اپنی تنخواہ پارہا تھا، اس کٹہرے میں سوراخ کرکے مَیں سنیما دیکھتا تھا، یا، خواب۔ ‘‘ (۲) ’’آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر ہمیشہ مجھے لگتا کہ میں اتنا ٹھیک نہیں نظر آتا جتنا ٹھیک ہوں، اس طرح کی اُمید سے زندگی کچھ ٹھیک لگتی ہے۔ ‘‘ (۳) ’’بچپن میں جب مَیں اپنی بے ڈول ناک کا ذکر سنتا تو دکھی ہوجاتا تھا، اپنی ناک کی عادت تو اپنے آپ پڑ جاتی ہے، دو ہاتھ ہوتے ہیں پر ایسے کہاں کہ لٹکے ہوئے ہیں، ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا ہو تو اس کا بھی وزن ہوتا ہے، لیکن ہاتھ کا کوئی وزن نہیں ہوتا، وزن تب ہوگا جب بائیں کٹے ہوئے ہاتھ کو داہنے ہاتھ سے اُٹھایا جائے۔
یہ ہیں ونود کمار شکل۔ مذکورہ جملے اُن کے ناول ’’نوکر کی قمیض‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ ایسے ہی چند جملے بطور نمونہ اُن کے دوسرے ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ سے بھی اخذ کئے جاسکتے ہیں تاکہ اُن کے جملوں کی بُنت، ساخت اور اس کے ذریعہ نثر کو دلچسپ اور منفرد بنانے کی شعوری اور غیر شعو ری کاوش اپنا تعارف کرواتی ہے۔ یاد رہے کہ ’’دیوار میں ایک کھڑکی...‘‘ کو ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اُن کے ناول ہندوستانی متوسط طبقے کی مجبوریوں، ناآسودگیوں، روزمرہ کی تلخیوں اور ان سب میں گھرے عام آدمی کی کشمکش کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اُن کے جملے، بیان کردہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور خلق کئے گئے کردار سیدھے دل میں اُترجاتے ہیں۔
ان کے ناول اس لئے بھی دل پزیر ہیں کہ ان میں اُسی ماحول کا عکس دکھائی دیتا ہے جس میں ایک عام آدمی سانس لیتا ہے۔ ان میں متوسط طبقے کے لوگوں کا مکان ہے ویسا ہی مکان جیسا عام طور پر ہوتا ہے، مکان میں لوگ ہیں ویسے ہی لوگ جیسے عام طور پر ہوتے ہیں، پڑوس ہے ویسا ہی پڑوس جیسا کہ عموماً ہوتا ہے، محلے ہیں ویسے ہی محلے جیسے کہ عموماً ہوتے ہیں اور محلے کے چھوٹے بڑے کردار ہیں ویسے ہی کردار جیسے کہ اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک طرح کی عدم دلچسپی پیدا ہونی چاہئے کیونکہ انسان جو شے دیکھ چکا ہوتا ہے اُسے دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا جب تک کہ اُس میں کوئی خاص بات نہ ہو یا ایک بار ملنے والے شخص یا کردار سے دوبارہ نہیں ملنا چاہتا جب تک کہ اُس میں کوئی ایسی خوبی نہ ہو جو دوبارہ ملنے پر آمادہ کرے۔ شکل جی وہی مکان، محلہ اور کردار دکھاتے ہیں جو دیکھے بھالے اور جانے بوجھے ہیں اس کے باوجود اُن کی تحریر عدم دلچسپی پیدا نہیں کرتی کیونکہ وہ دیکھی بھالی اور جانی بوجھی چیزوں کو دیکھنے کا نیا زاویہ عطا کرتے ہیں یا محسوس نہ کی گئی بات کو محسوس کرواتے ہیں۔
’’نوکر کی قمیض‘‘ میں اُنہوں نے لکھا کہ ’’گھر باہر جانے کیلئے اتنا نہیں ہوتا جتنا لوَٹنے کیلئے ہوتا ہے‘‘ تو یہ محض لفظی بازیگری یا شعوری طور پر اپنی بات کو الگ انداز میں کہنے کی کوشش نہیں ہے۔ ’’باہر جانے‘‘ کے پس پشت باہر کے چیلنجوں کا غیر تحریر شدہ بیان ہے اور ’’لوَٹنے‘‘ کے پس پشت اپنے مستقر کے محفوظ و مامون ہونے اور وہاں سکون و اطمینان میسر ہونے کی اَن کہی اور اَن لکھی حقیقت مضمر ہے۔ اسی طرح ’’دیوار میں کھڑکی رہتی تھی‘‘ کا یہ بیان سنئے: ’’ابھی پان کے ٹھیلے والا رگھوور پرشاد کو اس نظر سے نہیں دیکھ رہا تھا کہ رگھوور پرشاد پان کھائینگے، آج پان کھالیں گے تو کل سے روز رگھوور پرشاد پان کھاتے ہیں یا نہیں کی نظر سے دیکھے گا۔ ‘‘
ایسے کسی پروفیسر (رگھوور پرشاد) کو ہم بھی جانتے ہوں گے جو گاؤں کے قریب سے گزرنے والی بڑی سڑک سے کالج کیلئے آٹو میں سوار ہوتا ہے۔ ممکن ہے ایسا کوئی منظر ہم نے بھی دیکھا ہو کہ آٹو اسٹینڈ کے قریب پان کی دُکان ہے۔ مگر، ایک دُکاندار گاہک کو کس نظر سے دیکھتا ہے اُس پر نہ تو ہماری توجہ مرکوز ہوتی ہے نہ ہی کبھی ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ شاید ہم اسے ضروری بھی نہیں سمجھتے مگر ونود کمار ایک غیر محسوس تعلق کو محسوس کروا تے ہیں جسے قاری بصورت دیگر کبھی محسوس نہ کرتا۔ یہی ونود کمار شکل کی خوبی ہے۔
ونود کمار شکل کی ایک اور خوبی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، بات سے بات پیدا کرنا اور جملوں کی تراش خراش سے اُنہیں دلچسپ بنانا اور کچھ نیا لکھنا بھی ہے۔ ’’دیوار میں ایک کھڑکی‘‘ میں وہ رگھوور پرشاد کے بارے میں جو ایک پروفیسر ہے، یہ بتاتے ہیں : کلاس روم میں ’’وہ تختے (تختۂ سیاہ) پر دونوں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ بائیں ہاتھ سے لکھنا شروع کرتے اور وسط تک پہنچتے پہنچتے داہنے ہاتھ سے لکھنا شروع کر دیتے۔ یہ عمل فی الفور ہوتا تھا۔ بائیں ہاتھ کے بعد داہنے ہاتھ سے لکھنا اس طرح ہوتا کہ ہاتھ کا بدلنا پتہ نہیں چلتا تھا۔ نئے طالب علموں کو تب پتہ چلتا جب وہ پرانے ہوجاتے تھے۔ پرانے طلبہ اتنے عادی ہوجاتے تھے کہ نئے کو بتلانا بھول جاتے تھے۔ ‘‘ بات یہاں مکمل ہوسکتی تھی جس سے یہ تاثر ملتا کہ رگھوور پرشاد ایک محنتی اُستاذ ہے جو تختۂ سیاہ پر ایک سمت سے دوسری سمت جانے کے درمیان ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھےمگر ونود کمار شکل یہیں نہیں رُکے بلکہ چند جملوں کے بعد یہ اطلاع دینا ضروری سمجھاکہ ’’دراصل رگھوور پرشاد کے دونوں داہنے ہاتھ تھے۔ ‘‘ مجھ ایسا قاری جب ان سطروں کو پڑھتا ہے تو لطف اندوز ہی نہیں ہوتا، ان کی معنویت پر بھی غور کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ سے لکھتے لکھتے داہنے ہاتھ سے لکھنے میں کیا معنویت پوشیدہ ہے اور ’’اُن کے دونوں داہنے ہاتھ تھے‘‘ کا کیا مفہوم ہے۔
ونود کمار شکل کے فن کو فکشن کی کسوٹی پر سختی سے پرکھنے والے نقادانِ فن بھی اُن کی اس خصوصیت کو نشان زد کرنا نہیں بھولیں گے کہ سیدھی سادی زندگی گزارنے والے ونود کمار شکل فن کی دُنیا سجاتے ہیں تب بھی سیدھی سادی باتوں اور واقعات ہی سے علاقہ رکھتے ہیں، اسمیں دیہی زندگی کی سادگی کو خصوصیت کیساتھ منعکس کرتے ہیں، کسی گہرے فلسفے یا نظریئے کو لاد کر نہیں چلتے۔