Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوٹ کیس

Updated: August 18, 2025, 2:21 PM IST | Salim Khan (Faizpur) | Faizpur

’’اللہ اکبر،اللہ اکبر...... ‘‘جےجے اسپتال کی چوتھی منزل پر بہت دور سے آتی ہوئی ذان کی پُرکیف آوازمیری روح میں اترتی چلی گئی اور طبیعت میں یک گونہ تازگی بھر گئی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’اللہ اکبر،اللہ اکبر...... ‘‘جےجے اسپتال کی چوتھی منزل پر بہت دور سے آتی ہوئی ذان کی پُرکیف آوازمیری روح میں اترتی چلی گئی اور طبیعت میں یک گونہ تازگی بھر گئی۔ میں نے تیزی سے اپنا مختصر سا بستر لپیٹ کر اپنے بیگ پر رکھا۔ اطمینان سے وضو کیااور نمازِ فجر ادا کی اورپھر ابو کے سرہا نے بیٹھ کر آیتِ کریمہ کاورد کرنے لگا۔کچھ دیر بعد مشرقی دریچوںسے نرم سنہری کرنیں در آئیںاور ملگجے پیرالیسس وارڈ میںچمپئی اجالا پسرگیا۔وارڈ کے بیشتر لوگ جاگ گئے تھے۔کچھ صبح کے معمولات میں مصروف تھے اور کچھ اپنے مریضوں کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ برابر کے کاٹ(cot) کے قریب فرش پرسویا انیل گجراتی اپنی عادت کے مطابق ہلکے ہلکے خراٹے بھر رہا تھا۔میں نے اسے آہستہ سے ہلایا،’’انیل بھائی، اوانیل بھائی؛ جاگ جاؤ سات بج رہے ہیں۔‘‘ اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے میری جانب دیکھااور پھر چادر سے اپناچہرہ ڈھک لیا۔’’ ارے بھائی اٹھ جاؤ، جھاڑوپونچھے والی بائی بھی آگئی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ گھبرا کر فوراً اٹھ بیٹھااور گھڑی کی طرف دیکھ کربولا،’’سوری انوربھائی، ابھی آتا ہوں فریش ہوکر۔‘‘وہ اپنا بوریا بھائی کے بیڈ کی پائنتی رکھ کرتیزقدموں سے ٹائلٹ چلا گیا۔
 ہم نے حسبِ معمول اپنے مریضوں کی تیمارداری کی اور پھرچائے ناشتے کے لیے کینٹین چلے گئے۔جب ہم لوٹے وارڈمیں کافی چہل پہل ہوگئی تھی۔ مریض بھی ناشتے سے فارغ ہوچکے تھے اور پہلی شفٹ کے ڈاکٹروں کی وزٹ شروع ہوچکی تھی۔انیل کے بھائی کو چیک کرنے کے بعدڈاکٹر نے انھیں کچھ ہدایات دیں۔پھر وہ ابو کی طرف آئے’’طبیعت کیسی ہے چاچا؟‘‘ ’ ’جی، اللہ کا فضل وکرم ہے۔‘‘ابو نے ہلکی سی مسکراہٹ بکھیر کر جواب دیا۔ابو کا معائنہ کرنے کے بعدڈاکٹرصاحب مجھ سے مخاطب ہوئے patient is stableایک دو روز میں آپ کو ڈسچارج مل جائے گا۔‘‘ یہ سن کرمیرے وجود میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ابو کا چہرہ بھی کھل اٹھا۔ڈاکٹر کے آگے بڑھتے ہی انیل تیزی سے میرے پاس آیااور ہاتھ ملاکر خوشی کا اظہار کیا۔ اس کے چہرے پر اداسی اور آنکھوں میں نمی دیکھ کر میں نے بے تابی سے پوچھا،’’کیا بات ہے انیل بھائی ؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھے بغیرافسردہ لہجے میں کہا، ’’انوربھائی آپ لوگ چلے جائیں گے تو میں اکیلا ہوجاؤں گا،میرا من نہیں لگے گا۔‘‘’’ارے بھائی، فکر مت کرو،بھائی صاحب کی طبیعت بھی ٹھیک ہورہی ہے۔تمہیں بھی جلد چھٹی مل جائے گی ان شاء اللہ۔‘‘میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کراسے دلاسا دیا۔  ’’انور بھائی آپ سے ایک گزارش ہے۔‘‘ اس کی آواز میں عجیب ساکرب تھا۔ ’’ارے یار، بے جھجک بولو کیا بات ہے؟‘‘
  مجھے ایک سوٹ کیس خریدنا ہے،آپ کو میرے ساتھ مارکیٹ چلنا ہوگا۔آپ چلے جائیں گے تو میں اکیلا مارکیٹ نہیںجاپاؤں گا۔!‘‘’’کیا انیل بھائی ،اتنی سی بات،کہو کب چلنا ہے؟‘‘’’ہم لوگ لنچ کے لیے ہوٹل جائیں گے تب مارکیٹ بھی چلے جائیں گے۔‘‘’’ٹھیک ہے،لیکن انیل بھائی ممبئی سے سوٹ کیس...،وہ تو آپ کے شہر میں بھی مل جائے گا۔ یہاں سے لے جانے کی تکلیف کیوں کررہے ہو؟‘‘’’ انور بھائی،بہن کی فرمائش ہے۔یہاں سے لے جاؤں گا تو اسے بڑی خوشی ہوگی اور یہاں اچھی کوالٹی بھی مل جائے گی۔‘‘
 انیل بے حد مخلص اور شریف نوجوان تھا۔وہ اپنے مفلوج بھائی کی دل وجان سے خدمت کررہا تھا۔ میری غیر موجودگی میں وہ ابو کا بھی خیال رکھا کرتاحتی کہ وقتِ ضرورت انہیںسہارا دے کربیت الخلا بھی لے جاتا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے،پردیس میں جب کوئی ساتھی مل جاتا ہے توبہت جلد دوستی ہوجاتی ہے‘۔وہ گجراتی اور میں مہاراشٹرین مگرچند ہی روز میں ہم کافی گھل مل گئے تھے۔  
 اگلے دن اپنے مخصوص ہوٹل میںکھانا کھانے کے بعد ہم سوٹ کیس خریدنے کے لیے محمد علی روڈ کی طرف نکل پڑے۔    اونچی اونچی عمارتیں ، فراٹے بھرتی سواریاں اور تیزی سے آگے نکلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کرانیل نےکہا،’’بڑی  تیز رفتار زندگی ہے یہاں کی،ہرکوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے۔‘‘’’انیل بھائی ،یہاں لوگ چلتے نہیں دوڑتے ہیں۔ہر آدمی اپنی اپنی دھن میں رہتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ تیز رفتاری بڑی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔‘‘’’مطلب!؟‘‘’’مطلب اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو آدمی کنارے لگ جاتاہے یا رام نام ستیہ ہوجاتاہے۔مگر اس بات کا کسی کو احساس نہیں ہوتاکہ یہ سب تو یہاںآئے دن ہوتا رہتا ہے۔‘‘’’دیکھیے انور بھائی،وہ رہی سوٹ کیس کی دکان ۔ ‘ ‘ انیل نے سڑک کے اس پار اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ انیل بھائی پہلے یہ بتائیے سوٹ کیس کس رینج میں چاہیے؟‘‘’’بس ہزار پندرہ سو تک  !‘ ‘
 ’’ میرے بھائی ،وہ  بڑی عالیشان دکان ہے ۔وہاں کافی مہنگے سوٹ کیس ہوںگے۔آگے دیکھتے ہیں!‘‘میں سوچ رہا تھا،کسی صاحبِ ایمان کی دکان دکھائی دے تو اسے اپنی پسندکا سوٹ کیس دلادوں اوراسی تلاش میں ہم باتیں کرتے ہوئے مین مارکیٹ پہنچ گئے۔وہاں مجھے کئی چھوٹی بڑی دکانوں کے درمیان فٹ پاتھ کے بغل میں ایک دکان دکھائی دی جو مختلف قسم کے سوٹ کیسوں سے سجی ہوئی تھی۔ دکان دار زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے بکھرے مال کی سیٹنگ کررہا تھا۔ اجلا سفید لمبا کرتا پاجامہ،ریشمی اجرک ٹوپی، گھنی خوب صورت داڑھی اور ماتھے پرسجدے کا دھندلاسا نشان۔ اس کے سراپے سے اسلا  مِیت ٹپک رہی تھی۔’’ آؤ انیل بھائی، یہاں دیکھتے ہیں۔‘‘میں نے دکان کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔ ہمیں دیکھتے ہی دکاندار نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا، ’’آیئے ،کیا چاہیے سر؟‘‘’’ہارڈ سوٹ کیس بتائیے۔!‘‘میں نے دکان کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔اس نے فوراًاوپری خانے سے ایک سوٹ کیس نکال کرپیش کیا،،’’بہت عمدہ چیز ہے ، یہ مال مارکیٹ میں کہیں نہیں ملے گا۔ امپورٹیڈ ہے۔‘‘  ’’نہیںنہیں سیٹھ جی ، اتنا قیمتی نہیں ۔میڈیم کوالٹی بتائیے۔!‘‘انیل نے گھبرا کر کہا۔’’ٹھیک ہے،اپنے پاس ہر قسم کا مال ہے۔ اس نے فوراً دوسرا سوٹ کیس سامنے رکھتے ہوئے کہا،’’یہ دیکھیے بہت خوب صورت اور مضبوط ہے۔‘‘وہ سوٹ کیس پر مُکامار کر بولا۔  
  میں نے سوٹ کیس کھول کر دیکھنے کے بعد پوچھا، ’’ٹھیک ہے،پرائز؟‘‘’’اجی قیمت کیا ہے،صرف پانچ ہزار۔‘‘’’نہیں نہیں ،ہمیں سستے والا چا ہئے۔‘‘انیل نے فوراً منع کیا۔’’ارے بھائی ،پانچ ہزار تو منیمم  پرائز ہے۔!‘‘میں نے سنجیدگی سے کہا،’’سیٹھ جی ،ہمیں ہزارپندرہ سو کی رینج میں چاہیے۔‘‘’’ٹھیک ہے،جیسی آپ کی مرضی! ‘‘اس نے منہ بناکر ایک معمولی درجے کا سوٹ کیس لاکر ہمارے سامنے رکھ دیا اورا سے صاف کرکے بولا،’’ویسے تو اس کی قیمت ڈھائی ہزار ہے ،لیکن آپ کو ڈسکاؤنٹ میں دے دیتا ہوں۔‘‘ہم نے دیکھا۔وہ اولڈ سٹاک کا معمولی سوٹ کیس تھا ۔ ’’رہنے دیجیے ۔چلوانوربھائی ، کہیں اور دیکھتے ہیں‘‘ ’’کہیں نہیں ملے گا بھائی۔لے جائیے،جو دینا ہے ،دے دیجیے۔‘‘’’نہیںسیٹھ، ہمیں نہیں چاہیے۔چلوانیل!‘‘
 اس نے آگے بڑھ کر کہا،’’ارے واہ،اتنی حمّا لی کروائی اور کہتے ہو چلو    ارے اوسلطان بھائی، ذرا ادھر تو آنا‘‘
 سامنے پان کی دکان سے ایک قوی ہیکل شخص نمودار ہوا۔بڑی بڑی آنکھیں،گھنی بھنویں،تنی ہوئیں موچھیں۔ ہمارے سامنے کسی جن کی طرح آکھڑا ہوا۔اسے دیکھ کر ہم سٹپٹا گئے۔’’کہاں سے آئے ہو بے چلغوزوں؟‘‘سلطان بھائی کی آوازبھی ان کے قد و قامت کی طرح رعب دار تھی۔انیل نظریںجھکائے بت بنا کھڑا رہا۔جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔’’جی ہم گجرات سے...‘‘میری آواز حلق میںگھٹ کے رہ گئی۔ہماری حالت دیکھ کر اس نے دکاندار سے کہا،’’علی بھائی، اب تم یہ کاروبار چھوڑ کر نائی کی دکان کھول لو۔اتنے معمولی سودے بھی تم سے نپٹائے نہیں جاتے‘‘ اور وہ اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے لوٹ گیا۔’’لاؤ، اب منہ کیا دیکھ رہے ہو۔پندرہ سو آپو۔!‘‘
 انیل نے پیچھا چھڑانے کے لیے سودا منظور کرلیااور جیب سے دو ہزار کانوٹ نکال کراس کی طرف بڑھادیا۔اس نے جھپٹ کرنوٹ جیب میں رکھااور تیور بدل کے شہادت کی انگلی گھما کر بولا،’’چلو، اب راستہ ناپو!‘‘ اس کی بدمعاشی دیکھ کر میرا پارا چڑھ گیا۔ جی میں آیاکہ اسے خوب کھری کھری سنادوںمگرانیل کا رو ہانسا چہرہ دیکھ کرمیراحوصلہ جاتا رہا۔ لیکن جاتے ہوئے میں نے اسے سر تا پا دیکھتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا،’’ مسٹرعلی ،آپ نے ہمارے ساتھ جوسلوک کیاسو کیا،مگر ایک گزارش ہے آپ  سے۔!‘‘وہ چونک کر میری طرف متوجہ ہوا۔ اورمیں نے آگے بڑھتے ہوئے کہا،’’برائے مہربانی، اس لباس میں دکان داری نہ کیاکریں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK