یہ ان دونوں کی تیسری چوتھی ملاقات تھی۔ شام کا وقت تھا سڑک سے دھول مٹی اُڑ رہی تھی جس سے ہوٹل کی کرسیاں گرد و غبار سے بھری ہوئی تھیں۔
EPAPER
Updated: January 15, 2024, 1:17 PM IST | Abdul Razzaq Iqbal Ahmed | Wadala / Mumbai
یہ ان دونوں کی تیسری چوتھی ملاقات تھی۔ شام کا وقت تھا سڑک سے دھول مٹی اُڑ رہی تھی جس سے ہوٹل کی کرسیاں گرد و غبار سے بھری ہوئی تھیں۔
یہ ان دونوں کی تیسری چوتھی ملاقات تھی۔ شام کا وقت تھا سڑک سے دھول مٹی اُڑ رہی تھی جس سے ہوٹل کی کرسیاں گرد و غبار سے بھری ہوئی تھیں۔ الطاف بھائی کو یہ گرد غبار پسند نہیں تھا ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے سفید کپڑوں اور ٹوپی کو خراب ہونے نہیں دوں گا، میری بہو بہت محنت سے ان کو دھوتی ہے۔ آج بھی جب انہوں نے اس بات کا ذکر کیا تو سلیم چاچا انھیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔ پھر سلیم چاچا نے ہوٹل کی طرف دیکھ کر آواز لگائی اے بیرے ادھر۔ چائے لا۔ بیرہ بھی بڑا پُرمذاق آدمی تھا۔ اس نے بھی وہیں سے آواز لگادی ،’’ارے بڑے میاں رُکو لاتا ہوں ابھی ، آپ کو کون سانماز پڑھنے جا نا ہے جو اتنی گھائی مچا رہے ہیں۔
سلیم چاچا ہمیشہ میلے کچیلے کپڑوں میں ہوٹل پر نظر آتے تھے ۔گھر ان کا قریب ہی تھا اور مسجد بھی گھر سے بالکل نزدیک تھی لیکن مسجد میں جانا انھیں بڑا بھاری معلوم ہوتا تھا جبکہ الطاف بھائی ہمیشہ صاف ستھرے کپڑوں میں خوشبو لگائے گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر کے چکر لگاتے نظر آتے تھے ۔سلیم چاچا نے اپنے ہاتھوں سے کرسی کی دھول کو صاف کرتے ہوئے الطاف بھائی کو بیٹھنے کے لئےکہا ۔پھر پچھلی ملاقاتوں کی طرح اس مرتبہ بھی مختلف موضوعات پر باتیں ہونے لگیں ۔ دھیرے دھیرے وہ باتیں گھرکے حال چال میں تبدیل ہو گئیں ۔سلیم چاچا خود چاہتے تھے کہ وہ اپنے گھر کے حالات الطاف بھائی کو سنائیں۔ الطاف بھائی ہر گھر کے حالات آپ کے گھر کی طرح خو شحال نہیں ہوتے ہیں ، آپ کے بیٹے اور بہو کی طرح سب کے بیٹے بہو نہیں ہوتے ہیں۔ آپ قسمت والے ہیں کہ آپ کی بیوی کے انتقال کے بعد بھی آپ مزے سے زندگی گزار رہے ہیں ، یہاں تو بیوی ہونے کے باوجود میرے حالات خراب ہیں ۔یہ باتیں الطاف بھائی سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ چائے ختم ہوچکی تھی اور وقت بھی زیادہ ہورہا تھا ۔ سلیم چاچا نے ہوٹل کی طرف دیکھا اور آواز لگائی دو چائے اور....باتیں ہوتی رہیں۔ اسی درمیان مغرب کی اذان ہونے لگی۔ اذان کی آواز سنتے ہی الطاف بھائی اٹھ کھڑے ہوئے اور سلیم چاچا سے کہنے لگے چلو آپ بھی۔ سلیم چاچا نے سر جھکا لیا اور کہا آپ آؤ میں یہیں ہوں ۔سلیم چاچا انتظار کرتے رہے لیکن نماز بعد الطاف بھائی نہیں آئے۔ شاید نماز کا انکار کرنا الطاف بھائی کو اچھا نہیں لگا تھا۔
دوسرے دن اسی ہوٹل پر کچھ ٹھیک ٹھاک کپڑے پہنے سلیم چاچا بیٹھے الطاف بھائی کا انتظار کررہے تھے ۔ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی بچہ اپنی شکایتیں بڑوں کو سنانے کا انتظار کرتا ہے ۔ الطاف بھائی عصر کی نماز سے فارغ ہوکر ہوٹل کی طرف آئے۔ سلیم چاچا نے آواز لگاکر انھیں بلایا اور پوچھا ’’آپ کل مغرب کی نماز پڑھ کر واپس ہوٹل نہیں آئے؟ الطاف بھائی نے جواب دیا کہ تم میرے کہنے پر نماز آئے تھے کیا؟ جو میں ہوٹل پر بیٹھنے آؤں ....سلیم چاچا نے ہوٹل والے کو چائے کے لیے آواز لگائی اور اپنی کل کی ادھوری داستان سنانے لگے ۔ ہاں تو میں کل آپ سے یہ کہہ رہا تھا کہ آپ جیسی قسمت سب کی نہیں ہوتی ہے ۔ آپ کو وقت پر کھانا نصیب ہوجاتا ہوگا مجھے تو کوئی کھانا کھانے تک کیلئے نہیں پوچھتا، میری اپنے گھر میں کوئی عزت نہیں ہے ۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے جسےمیں نے بڑے لاڈپیا ر سے پالا۔ اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے کروائی لیکن شاد ی کے بعد سے اس کے تیور بالکل بدل گئے۔ وہ ہم سے الگ ہوگیا، کھانے پینے کو بھی نہیں پوچھتا ۔ ادھر میری بیوی اپنے بوڑھے ماں باپ کو میرے گھر لے آئی ہے اور ان کی خدمت کرنے میں مجھے بالکل بھول گئی ہے، میں اب بالکل اکیلا ہو گیا ہوں ۔نہ کوئی میرے کپڑے وقت پر دھوتا ہے اور نہ کھانے پینے کا کوئی وقت۔ بس کٹ رہی ہے زندگی ۔ الطاف بھائی یہ سب باتیں سن رہے تھے اور سنتے سنتے انھوں نے ہوٹل والے کو آواز لگائی دو چائے اور لاؤ.... الطاف بھائی کوسلیم چاچا پر ترس آنے لگاتھا۔اتنے میں چائے آگئی اور دونوں ہی چائے پینے لگے۔
چائے پیتے پیتے الطاف بھائی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔پھر انہوں نے ایک گہری سانس لی اور سلیم چاچا سے کہا کہ حالات بدل سکتے ہیں اگر تم چاہو تو ۔ اتنا کہنا تھا کہ اذان کی آواز آگئی اورآج بھی الطاف بھائی آواز سن کر کھڑے ہوگئے اور سلیم چاچا کی طرف دیکھنے لگے مگر کچھ بولنےسے پہلے ہی سلیم چاچا جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور نماز کے لئے ساتھ چلنے تیار ہوگئے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ہوٹل کا بیرہ بھی یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔
اب روزانہ سلیم چاچا صاف ستھرے کپڑوں میں رہنے لگے ، نماز کی پابندی بھی ہونے لگی تھی ۔ ضرورت پڑنے پر خود اپنے کپڑےدھو لیتے لیکن میلے کپڑے نہیں پہنتے تھے ۔وہ دونوں روزانہ مسجد سے نکل کر چائے کی ہوٹل پر باتیں کرتے تھے ۔ ایک اور چائے ایک اور چائے پیتے پیتے کئی کئی گھنٹے گزار دیتے تھے ۔ الطاف بھائی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے سلیم چاچا میں کئی تبدیلیاں آگئیں۔ محلے کے لوگ بھی انھیں عزت بھری نظروں سے دیکھنے لگے تھے ۔ گھر والے بھی تھوڑا بہت دھیان دینے لگے۔ ہوٹل کا بیرہ بھی اب زبان سنبھال کر بات کرنے لگا تھا ۔الطاف بھائی ان کی تمام باتوں کو دل سے سنا کرتے تھے اور ان کو مشوروں سے بھی نوازتے تھے جس کی وجہ سے سلیم چاچا کے بہت سے مسائل میں کمی آگئی تھی جبکہ سلیم چاچا انہیں اپنی باتیں سناکر اطمینان قلب حاصل کرلیتے۔
اب چاچا کی زندگی ٹھیک ٹھاک گزرنے لگی تھی گھر سے مسجد ، مسجد سے دوست کے ساتھ ہوٹل اور پھر گھر۔ کئی مہینوں تک یوں ہی چلتا رہا۔ الطاف بھائی کا تعلق اترپردیش سے تھا، وہ اکثر گاؤں جایا کرتے تھے اور آٹھ پندرہ دن میں واپس آجایا کرتے تھے۔ کچھ دنوں سے الطاف بھائی کو سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی اور ڈاکٹروں سے علاج بھی چل رہا تھا ۔ اسی دوران ان کا گاؤں جانا ہوا۔ بیماری کے سبب ان کے گھر والوں نے واپس شہر نہ آنے کا فیصلہ کیا ۔ ادھر سلیم چاچا اپنے دوست کا انتظار کرتے رہے ۔ کئی جگہ سے ان کی خبر معلوم کرنے کی کوشش تو انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ اب واپس شہر نہیں آئیں گے ۔ یہ خبر ملنے پر سلیم چاچا بےحد مایوس ہوگئے ۔ وہ کافی دیر تک ہوٹل پر اکیلے بیٹھے رہے۔ مغرب اور عشاء کی اذان کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ آج ایک اور چائے کی آواز بھی نہیں آئی۔ یہ سب ہوٹل کا مالک اور بیرہ دیکھ رہے تھے ۔ ہوٹل کے مالک نے بیرےسے کہا جاؤ خود سلیم چاچا کو چائے دے دو ۔ بیرے نے چائے دینے کی کوشش کی پر سلیم چاچا انکار کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلے گئے۔
اس واقعے کے بعد کافی دن تک سلیم چا چا نہ ہوٹل پر نظر آئے اور نہ ہی مسجد میں ۔ وہ کافی کمزور بھی ہوگئے تھے۔ گھر والے بھی پہلے کی طرح انہیں نظر انداز کرنے لگے تھے لیکن سلیم چاچا کا پوتا اپنے دادا سے بہت پیار کرتا تھا۔ اس کی عمر ابھی ۱۰؍برس کی تھی لیکن وہ دادا کے ساتھ گھر میں ہونے والے سلوک سے بخوبی آگاہ تھا ۔ وہ اکثر اپنے دادا سے پوچھا کرتا تھا کہ آپ نماز کیوں نہیں جاتے ؟ آپ ہوٹل پر بھی نہیں بیٹھتے ؟ آپ گھر میں ہی کیوں رہتے ہو؟ دادا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتے تھے ۔ اس معصوم کو پتہ تھا کہ دادا کو ان کے دوست کے گاؤں جانے کا صدمہ ستارہا ہے ۔ایک دن شام کے وقت اس نے اپنے دادا سے پوچھا کہ کیا دعا کرنے سے بیماری اچھی ہوجاتی ہے ؟ دادا نے کہا ہاں ، پوتے نے کہا پھر آپ اپنے دوست کے لئے دعا کیوں نہیں کرتے ؟ آپ کے بیمار دوست کو دعا کی ضرورت ہے۔ ہمارے مدرسے کے حافظ جی کہتے ہیں نماز بعد دل سے مانگی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس معصوم کی زبان سے اتنی سمجھداری والی باتیں سن کر سلیم چاچا گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
تھوڑی ہی دیر میں اذان کی آواز آئی اور انہوں نے اپنے پوتے کو آواز دی ’’حمدان میرے جوتے کہاں ہیں ، چل ہم نماز جائیں گے۔‘‘ حمدان تو اسی بات کے انتظار میں تھا۔ اس نے اپنے دادا کے جوتے پہلے سے ہی نکال لئے تھے ۔ وہ خوشی خوشی جوتوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لایا اور خود بھی ٹوپی پہن کر آیا ۔ سلیم بھائی نے اس کے کندھوں کا سہارا لیا اور مسجد کی طرف چلنے لگے ۔ نماز کے بعد کئی لوگوں سے ان کی ملاقا ت ہوئی۔ لوگوں نے ان کا حال چال دریافت کیا۔ وہ واپس گھر جاہی رہے تھے کہ تبھی حمدان نے ان سے ہوٹل کی چائے پینے کی فرمائش کردی ۔ سلیم چاچاحمدان کو بڑے پیار سے دیکھنے لگے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ سب حمدان کی کوشش تھی کہ وہ مجھے ہوٹل پر لے جانا چاہتا ہے جس سے میری بے رنگ زندگی میں کچھ سدھار آجائے۔ سلیم چاچا نے پیار سے حمدان کی پیٹھ پر ایک تھپکی ماری اور کہا’’ چل بھائی چل ۔ چائے پیتے ہیں۔‘‘