Inquilab Logo Happiest Places to Work

دھند

Updated: August 11, 2025, 4:44 PM IST | Zakir Khan Zakir | Mumbai

’گل پوش‘ ہمالیہ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ اس گائوں نے اپنے سینے میں صدیوں کی تھکن کا بوجھ سمیٹ رکھا ہے۔ یہاں کی زرخیز زمین پرجہاں تک نگاہ جاتی ہے ہر طرف سرسبز گھاس کی حکومت نظر آتی ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’گل پوش‘ ہمالیہ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ اس گائوں نے اپنے سینے میں صدیوں کی تھکن کا بوجھ سمیٹ رکھا ہے۔ یہاں کی زرخیز زمین پرجہاں تک نگاہ جاتی ہے ہر طرف سرسبز گھاس کی حکومت نظر آتی ہے۔ ان پر صبح کی اوس ایسے آسن جماتی جیسے موتیوں کی لڑی ہو، جو دھوپ کی تمازت سے چمک اٹھتی۔ درختوں کی خمیدہ شاخیں اپنےپتوں کے بوجھ کے زیرِ اثر ہر لمحہ زمین کی سرگوشیاں سنتی ہیں۔ ہوا کی ہر سانس پر پتے کپکپاتے، جیسے کوئی نادیدہ قاصد اُن سے رازو نیاز کی باتیں کر رہا ہو۔ بستی کے ایک کونے میں، جہاں دھند رات دن اپنی سفید چادر بچھائے رکھتی، ایک پرانی کوٹھری تھی۔ اس کی زنگ آلود چھت پر بارش کے قطرے عموماً رقص کرتے ۔ دروازہ لکڑی کا تھا، جس پر برسوں کی دھوپ اور بارش نے عجیب و غریب نقش ثبت کر دیے تھے۔ اس کوٹھری میں ایک نوجوان رہتا تھا جس کا نام زمانے نے بھلا دیا تھا۔ لوگ اسے ’بانسری والا‘ کہتے، کیوں کہ جب شام ڈھلتی وہ اپنی بانسری لے کر بیٹھ جاتا، اور اس کی دھنیں ہوا میں تحلیل ہو کر دھند کے پار کسی نامعلوم ساحل تک جا پہنچتیں۔ 
 بانسری والے کا چہرہ سادہ تھا، مگر اس کی آنکھیں جیسے دو سمندروں کا طوفان سمیٹے ہوئے گہری اور پراسرارتھیں۔ اس کا لباس پھٹا پرانا تھا لیکن کمر بند میں ہمیشہ ایک نیلا ریشمی رومال بندھا رہتا، جس کے کناروں پر زری کی جھالر لگی ہوئی تھی۔ یہ رومال کبھی ہوا میں لہراتا تو لگتا جیسے کوئی بھولی ہوئی یاد اپنی آخری سانس لے رہی ہو۔ اس کی بانسری پرانی لکڑی کی بنی ہوئی تھی، جس پر ہاتھوں کے لمس سے چکنی لکیروں کے نشانات پڑ چکے تھے۔ جب وہ بانسری بجاتا، ہر نوٹ میں درد اور سکون کا عجیب سا امتزاج ہوتا، جیسے کوئی رستا ہوا زخم اپنی داستان بیان کر رہا ہو۔ بستی والوں نے کبھی اس سے بات نہیں کی، مگر کہتے تھے کہ اس کی دھنیں رات کو چاند سے ہم کلام ہوتی ہیں۔ 
 ایک صبح، جب دھند اتنی گہری تھی کہ سورج بھی اسے چھیدنے سے قاصر تھا، ایک لڑکی اس کے دروازے پر آکھڑی ہوئی۔ اس کی چال میں ایک عجیب سی روانی تھی، جیسے وہ زمین پر نہیں، بادل پر چل رہی ہو۔ آنکھوں میں ایسی چمک تھی جو رات کے آسمان کو شرما دے۔ اس کے بال لمبے، سیاہ اور ریشم کی طرح ملائم تھے، اس کے گلابی دوپٹے پر چاندی کے تاروں سے ستارے بنے تھے۔ اس نے کہا، ’’تمہاری آواز نے مجھے بلایا ہے۔ ‘‘بانسری والاایک پل کو ٹھٹکا، ’’تم کون ہو؟‘‘ اس نے پوچھا، اس کی آواز میں ایک ہلکی سی لرزش تھی۔ ’’میں وہ ہوں جو تمہاری دھنوں کے پیچھے متوالی چلی آئی، ‘‘ لڑکی نے جواب دیا، اس کی آواز ایسی تھی جیسے صبح کی اوس میں بھیگی ہو۔ ’’تمھاری بانسری میری روح سے باتیں کرتی ہے۔ ‘‘بانسری والے نے خاموشی سے دروازہ کھول دیا۔ ’’اندر آئو، شاید یہ دھنیں تمہاری داستان بھی سننا چاہتی ہوں۔ ‘‘
 اس دن سے لڑکی روز آنے لگی۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھتی۔ کبھی وہ چپ رہتی، کبھی اپنے لفظوں سے دھند کو چھیدتی۔ ایک شام جب دریا پر دھند کا پردہ ہلکا تھا، اس نے پوچھا، ’’یہ دھن کہاں سے آتی ہے؟‘‘ بانسری والارکا، اس کی انگلیاں بانسری پر جم گئیں۔ ’’جہاں دکھ نے سناٹا اوڑھا ہو، وہاں سے۔ ‘‘لڑکی نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک سوال جاگا۔ ’’اور یہ دکھ کیا چیزہے؟ کیا تم ہر روز اسے اپنی بانسری میں سمیٹتے ہو؟‘‘’’دکھ کوئی ایک چیز نہیں، ‘‘ بانسری والے نے کہا، اس کی آواز میں ایک عجیب سی گہرائی تھی۔ ’’یہ وہ لمحے ہیں جو ہم سے چھین لیے جاتے ہیں۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو ہم سننا چاہتے ہیں مگر سن نہیں پاتے۔ میری بانسری ان لمحوں کو ڈھونڈتی ہے۔ ‘‘لڑکی نے گہری سانس لی۔ ’’اور اگر کوئی تمہاری دھن کو اپنے دل میں سمیٹ لے؟‘‘بانسری والامسکرایا، مگر اس کی مسکراہٹ میں اداسی تھی۔ ’’تو وہ دھن اس کا حصہ بن جاتی ہے۔ مگر دھن کوئی چیز نہیں جو ہمیشہ رہتی ہو۔ وہ ہوا کی طرح ہے...آتی ہے... چھوتی ہے.... اور چلی جاتی ہے۔ ‘‘
 ایک دوسری شام، جب آسمان پر بادلوں نے سرخ کنارے اوڑھ رکھے تھے، لڑکی نے کہا، ’’ تمھیں کبھی ڈر نہیں لگتا کہ تمہاری دھنیں کھو جائیں گی؟‘‘بانسری والے نے اپنی بانسری کو ہاتھ میں تھاما، جیسے اس کا وزن اس کے دل پر ہو۔ ’’دھنیں کبھی نہیں کھوتیں۔ وہ ہوا میں ....پانی میں ... زمین میں ....سمایا کرتی ہیں۔ بس سننے والاچاہیے۔ ‘‘’’اور اگر کوئی سننے والانہ ہو؟‘‘ لڑکی کی آواز میں ایک ہلکی سی پریشانی تھی۔ ’’تو پھر دھن خاموشی بن جاتی ہے، ‘‘ بانسری والے نے کہا، اس کی نگاہیں دریا کی طرف اٹھیں۔ ’’اور خاموشی بھی ایک دھن ہے۔ ‘‘
 وقت گزرتا گیا۔ لڑکی کی خاموشی گہری ہوتی گئی اور بانسری والے کی دھنیں کم۔ اب وہ دونوں اکثر چپ رہتے، جیسے ایک دوسرے کے وجود کی آہٹ سن رہے ہوں۔ کبھی وہ پرانے برگد کے نیچے بیٹھتے، جہاں دھوپ پتوں سے چھن کر ان کے چہروں پر کہانیاں رقم کرتی۔ ایک دن لڑکی نے اچانک کہا، ’’تم کبھی اپنی داستان کیوں نہیں سناتے؟‘‘بانسری والاچونک پڑا۔ ’’میری داستان؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا، مگر اس کی ہنسی میں خالی پن تھا۔ ’’میری داستان میری بانسری ہے۔ اس کے نوٹس میں وہی باتیں ہیں جس کا اظہار میں کبھی کر ہی نہیں سکتا۔ ‘‘’’مگر کیا تم کبھی اس خاموشی سے باہر نہیں نکلنا چاہتے؟‘‘ لڑکی نے پوچھا، اس کی آواز میں شدت تھی۔ ’’کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی تمہاری داستان سمجھے؟‘‘بانسری والے نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں میں روشنی کی لکیر دکھائی دی۔ ’’اگر کوئی میری داستان سمجھ لے، تو شاید میری بانسری خاموش ہو جائے۔ ‘‘لڑکی نے ایک پل سوچا، پھر مسکرائی۔ ’’تو پھر مجھے اپنی بانسری دے دو۔ میں اسے بجاؤں گی، تمہاری داستان کو زندہ رکھوں گی۔ ‘‘بانسری والاہنس پڑا، اس کی ہنسی میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ ’’تم اسےبجا سکتی ہو، مگر کیا تم اس کے دکھوں کو بھی سمیٹ سکتی ہو؟‘‘
 لڑکی کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اس کے ہونٹوں سےزوردار ہنسی پھوٹی، اس کی ہنسی کبھی کبھار بستی کے گلی کوچوں تک جا پہنچتی۔ بستی کی عورتیں اپنے چولہوں سے سر نکال کر کہتیں، ’’یہ محبت ہے محبت‘‘ بانسری والے نے ایک دن اس کے لیے ایک لکڑی کا تخت بنایا، جسے اس نے دریا کے کنارے رکھا۔ تخت پر کھجور کے پتوں سے بنی چھتری لگائی، جو شام کی دھوپ سے بچاتی۔ لڑکی ہر شام وہاں آ کر لیٹ جاتی اورجب بانسری کی آواز بلند ہوتی، وہ آنکھیں بند کرکے کہتی، ’’آج کی دھن میں سمندر کی لہریں ہیں۔ ‘‘ یا کبھی کہتی، ’’یہ دھن تو جیسے بارش کی بوندوں سے بنی ہے۔ ‘‘
 ایک شام، جب آسمان پر سرخ اور نارنجی رنگوں کا میلہ لگا تھا، لڑکی نے بانسری والے کے قدموں میں ایک سفید ریشمی دوپٹہ رکھ دیا، جس پر چھوٹے چھوٹے موتی ٹانکے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ بولی، ’’مجھے بلاوا آ گیا ہے۔ میں اس بستی جا رہی ہوں جہاں صرف خوابوں کی زبان بولی جاتی ہے۔ ‘‘’’تم جا رہی ہو؟‘‘ بانسری والے کی آواز میں لرزش تھی۔ ’’کیا تمہاری داستان ختم ہوگئی؟‘‘ لڑکی نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں روشنی تھی۔ ’’میری داستان کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ تمہاری دھنوں میں سانس لیتی ہے۔ مگر اب مجھے اسے خود سننا ہے، خود جینا ہے۔ ‘‘’’کیا میں تمھیں پھر کبھی سن پاؤں گا؟‘‘ بانسری والے نے پوچھا، اس کا ہاتھ بانسری کومضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔ لڑکی نے مسکرا کر کہا، ’’جب دھند گہری ہو اور دریا خاموش ہو، تب میری آواز سننا۔ یہ تمہاری بانسری سے مل کر گونجے گی۔ ‘‘
 بانسری والاخاموش رہا۔ اس نے بانسری اٹھائی اور ایک ایسی دھن بجائی جس سے زمین کا ریزہ ریزہ تھرکنے لگا۔ وہ دھن نہ ہوا میں تحلیل ہوئی، نہ دھند میں گم بلکہ وہ زمین کے سینے میں ایسےاترتی چلی گئی جیسے کوئی آہ رفتہ رفتہ دلوں کی گہرائیوں میں اترتی چلی جائے۔ لڑکی چلی گئی۔ بانسری والااپنی کوٹھری میں لوٹ آیا۔ اس نے بولناکم کردیا، بانسری بجانا بھول بیٹھا۔ وہ اب خاموش بیٹھا رہتا، جیسے وہ دھنیں جو کبھی اس کے اندر گونجتی تھیں، اس کی روح کے خالی گوشوں میں گونج رہی ہوں۔ اس کا نیلا رومال اب کبھی ہوا میں نہ لہراتا۔ اس کی جگہ ایک سفید دوپٹہ تھا، جسے وہ ہر شام ہاتھ میں تھامے دریا کے کنارے اس طرح بیٹھتا، جیسے کوئی آواز اسے بلا رہی ہو۔ وقت گزرتا گیا۔ بستی بدل گئی، درخت اور جھک گئے، دھند گہری ہوتی گئی۔ کہتے ہیں جب رات گہری ہو اور دریا اپنی سانس روک لے، تب بانسری کی پرانی دھنیں سنائی دیتی ہیں، جو اب کسی بانسری سے نہیں بلکہ اس خاموشی سے پھوٹتی ہیں جو اس کی کوٹھری میں بس گئی ہے۔ ایک رات، جب چاند دھند کے پیچھے چھپا تھا، بستی والوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ بانسری والے کی کوٹھری کے دروازے پر ایک سایہ کھڑا تھا، ہلکا، شفاف، جیسے دھند کا ٹکڑا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور وہی دھن بلند ہوئی جو بانسری والے نے آخری شام بجائی تھی۔ وہ کوٹھری سے نکلا، ہاتھ میں سفید دوپٹہ تھامے، اور سایے کے پیچھے چل پڑا۔ دھند نے دونوں کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اگلے دن کوٹھری خالی تھی۔ نہ دوپٹہ، نہ نیلا رومال۔ بس ایک چھوٹی سی لکڑی کی بانسری زمین پر پڑی تھی، جس سے ہلکی سی آواز آ رہی تھی، جیسے کوئی دھن قید ہو اور رہائی مانگ رہی ہو۔ کہتے ہیں جب دھند گہری ہوتی ہے اور دریا خاموش ہو جاتا ہے، وہ دھن اب بھی سنائی دیتی ہے۔ مگر...نہ بانسری سے.... نہ ہوا سے.... نہ زمین سے۔ وہ اس سفید دوپٹے سے آتی ہے، جو دھند کے پار لہراتا دکھائی دیتا ہے، جیسے کوئی روح اپنی محبت کی آخری داستان سنا رہی ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK