ہمیں بچپن سے ہی حسین اور سہانے خواب دیکھنے کا بُرا شوق ہے۔ سچ پوچھئے تو خواب ہی ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔
EPAPER
Updated: September 10, 2023, 12:37 PM IST | Safi Saronji | Mumbai
ہمیں بچپن سے ہی حسین اور سہانے خواب دیکھنے کا بُرا شوق ہے۔ سچ پوچھئے تو خواب ہی ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔
ہمیں بچپن سے ہی حسین اور سہانے خواب دیکھنے کا بُرا شوق ہے۔ سچ پوچھئے تو خواب ہی ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ بچپن میں جب کسی ساتھی سے ہماری لڑائی ہوتی اور اس سے پٹ کر روتے ہوئے گھر آتے تو اس سے یہ کہہ کر ضرور آتے کہ تجھے دیکھ لوں گا، اور واقعی ہم آکر ضرور اسے دیکھ لیتے۔ آنکھ بند ہوتے ہی ہم دیکھتے کہ وہ لڑکا اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ ہم پر ٹوٹ پڑا ہے اور ہم اکیلے ان سب کو اتنا مارتے، اتنا مارتے کہ سب بھاگ جاتے اور وہ لڑکا ہم سے رو رو کر معافی مانگنے لگتا اور ہم کہتے، ’’کیوں بے، اس وقت بڑا اکڑ رہا تھا، اب کیا ہوا تجھے؟‘‘دوسری صبح ہم خوش خوش اٹھتے اور جیسے ہی ہماری نظر اس لڑکے پر پڑتی تو ہم کانپ اٹھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پھر مارنے لگے۔ ویسے بھی ہم جس سے لڑے ہیں اسی سے پٹے ہیں ۔
غرضیکہ یہ خوابوں کا سلسلہ چلتا رہتا اور ہم کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دیتے رہتے۔ جیسے جیسے شعور پختہ ہوتا گیا، خواب اتنے ہی سہانے ہوتے گئے۔ ایک بار ایک مشاعرہ میں دیکھا کہ ایک محترم شاعر اپنی ترنم خیز آواز میں غزل کا جادو جگارہے ہیں ، سامعین واہ واہ سے نواز رہے ہیں ۔ خاص طور پر حسین اور خوبصورت لڑکیاں اُن پر فریفتہ دکھائی دے رہی ہیں ۔ ہمیں شاعر صاحب پر رشک آیا۔ دیر رات جب ہم عالم ِ خواب میں پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ایک وسیع و عریض ہال میں چاروں طرف پری جمال لڑکیاں ہمیں غور سے دیکھ رہی ہیں اور ہم ڈائس پر کھڑے غزل کا جادو جگارہے ہیں ۔ ابھی اس خواب سے لطف اندوز ہوہی رہے تھے کہ آنکھ کھل گئی، دیکھا کہ محلہ کا ڈاکٹر اور اہل خانہ فکرمند نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں ۔ والد صاحب کی آواز سنائی دی:’’ ڈاکٹر میرے بچّے کو بچالیجئے، پتہ نہیں اسے کچھ دنوں سے کیا ہوگیا ہے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر چلّانے لگتا ہے۔ کہیں جنات وغیرہ تو نہیں ہیں ؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے علاج کیا مگر ہماری ’’خواب بینی‘‘ کا کچھ نہ بگاڑ پائے۔ ہمیں مشاعروں میں ترنم کا جادو جگانا تھا۔ ایک روز اصطبل میں ایک پائپ رکھا ہوا نظر آیا۔ سوچا کہ اس میں منہ ڈال کر آواز اچھی بنائی جاسکتی ہے۔ خوشی خوشی اس پائپ میں منہ ڈال کر جیسے ہی ہم نے سرنکالنا چاہا، گھوڑے کی دولتیوں نے وہ استقبال کیا کہ پتہ نہیں چل سکا کہ ہم گا رہے ہیں یا رو رہے ہیں ۔ ویسے بھی ہمارے گانے اور رونے میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ دو لتیاں کھانے کے باوجود ہمارا جوش جنوں ٹھنڈا نہیں ہوا اور ہم نے کوشش ترک نہیں کی، مسلسل ریاض کرتے رہے۔ اب تو باقاعدہ شاعری کرنے لگے تھے۔ جب پہلی بار ایک مشاعرہ میں غزل پڑھی تو سامعین نے داد کے نام پر بیداد سے نوازا۔ کسی نے کہا جانے کس سے لکھواکر لایا ہے۔ کسی نے کہا کیا بکواس ہے۔ ایک شاعر صاحب نے بلایا اور بڑی شفقت سے کہا کہ غزل تو اچّھی لکھوائی ہے، صرف دو مصرعے خارج از بحر ہیں ۔ ہم نے شاعری کیا شروع کی شہر میں قیامت آگئی۔ پھر خیال آیا کہ مشاعرہ ہمارے بس کا نہیں ، کلام چھپنا چاہئے۔ اس خیال کے تحت پہلی بارایک رسالے کو غزل بھیجی تو یہ جواب ملا: ’’آپ کی غزل ملی، شکریہ مگر ہم اسے شائع کرنے سے قاصر ہیں ۔‘‘ ہمیں بڑا غصّہ آیا مگر ہمت برقرار رہی۔ دوسرے رسالے کو غزل بھیجی۔ یہاں سے اُمید تھی کہ ’’انصاف‘‘ ہوگا۔ جوابی خط موصول ہوا، لکھا تھا: ’’غزل ملی، شکریہ،پندرہ روپئے زرِ رسالہ بھیج دیں تو غزل شامل کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔‘‘
ہم نے فوراً پندرہ روپیے بھیج دئے۔ پھر کیا تھا دوسرے ہی ماہ غزل چھپ کر آگئی۔ پھر تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور اس طرح چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا، آج پندہ سال ہوگئے، ہم کئی رسالوں کا زر سالانہ ادا کرچکے ہیں اور غزلوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
شاعری کرتے ہوئے پندرہ سال گزر جانے تک ہمارا ہر خواب پورا ہوتا گیا لیکن اب لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ’’ سیفی تو جاہل ہے، وہ کیا جانے شاعری؟‘‘ اب تو ہمیں بہت غصّہ آیا۔ جواب میں ہم نے ادیب کیا، ادیب ماہر کیا اور ادیب کامل کیا اور اب ایم اے بھی کرچکے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو اب بھی شک ہے ہماری شاعری پر۔ بہرحال ہم نے لوگوں کو اُن کی حالت پر چھوڑااور آج کل پی ایچ ڈی کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہمارا خواب دیکھنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ایک دن چند دوستوں کے ہمراہ ہم نے فلم ’’نکاح‘‘ دیکھ لی اور جب فلم کے ہیرو راج ببر کو ایڈیٹر کے روپ میں سلمیٰ آغا سے عشق لڑاتے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اُسی دن سے ایڈیٹر بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ ہاں ایک بات ضرور بتادیں کہ ہم جب کوئی خواب دیکھتے تو تعبیر ِ خواب کیلئے کدوکاوش بھی کرتے۔ ’’نکاح‘‘ دیکھنے کے بعد ایڈیٹربننے کی دُھن ایسے سوار ہوئی کہ ہر لمحہ بے چینی تھی۔ اس دوران ایک محفل میں ایک صاحب نے کہا: ’’یار ! ہندوستان میں ’’انتساب‘‘ نام کا رسالہ نہیں نکلتا۔ اگر مَیں رسالہ نکال سکا تو اسی نام سے نکالوں گا۔‘‘ یہ سن کر ہم فوراً وہاں سے کھسک لئے کہ کیوں نہ ہم ہی ’’انتساب‘‘ جاری کردیں ؟ اب یہ نیا خواب تھا ہمارا۔ سرونج پہنچے اور اپنے دوستوں پر ’’اظہارِ خواب‘‘ کیا کہ بھئی ہم رسالہ نکالنا چاہتے ہیں ۔ پھر کچھ دوستوں اور کچھ اِدھر اُدھر سے قرض لے کر ہم نے پہلی بار ۲۵؍ جون ۱۹۸۳ء کو ماہنامہ ’’انتساب‘‘ نکال لیا۔ پھر کیا تھا سارے شہر میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ جو باتیں کہی اور سنی گئیں اُن کا لب لباب یہ تھا کہ یہ کوئی رسالہ ہے، اس سے تو ردّی اچھی ہوتی ہے!
ابھی پرچہ نکلے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ تمام دوست احباب اپنا دیا ہوا قرض مانگنے لگے۔ بڑی مشکل سے اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے ہم نے اِدھر اُدھر کرنے والا فن سیکھا اور نئے دوستوں سے قرض لے کر پرانے دوستوں کو ادا کردیا۔ اس طرح ہم نے ایک سال تک پرچہ نکالا اور کچھ دن بعد ہم نے گھر سے نکلنا بند کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی رقم کا مطالبہ کرنے لگے۔ بہرحال ہمت کرکے ہم نے سب سے کہا: ’’ بھئی ہم ایسا دھانسو پرچہ نکالنا چاہتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جائے، آپ ہمیں تھوڑا قرض اور دے دیں ۔ دیکھنا اس بار پرچہ ایسا نکلے گا کہ تمام پرچوں سے نہ صرف اچھا ہوگا بلکہ تمام گزشتہ رقم بھی نکل آئے گی۔‘‘ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح ایک ہزار روپئے جمع کرلئے اور فوراً ’’انتساب‘‘ کا تمام میٹر لے کر بھوپال روانہ ہوگئے اور کاتب صاحب کو سمجھایا کہ بھائی اس بار ہم پرچہ بہت اچھا نکالنا چاہتے ہیں ۔ اس لئے آپ جلد ی سے ہمارا کام کردیں ۔ کاتب نے کہا ،’’ٹھیک ہے آپ تمام میٹر رکھ دیجئے اور ایک ہفتہ کے بعد آئیے اور دو سو روپئے پیشگی دے دیجئے۔ ‘‘ ہم نے دو سو روپئے فوراً دے دیے۔ پھر سوچا کہ سرونج جائینگے اور ایک ہفتہ بعد آئینگے توبِلا وجہ سو روپئے خرچ ہونگے۔ کیوں نہ ایک ہفتہ بھوپال میں گزارا جائے۔ یہ سوچ کر ایک ہفتہ رک گئے۔ درمیان میں چار سو روپئے خرچ ہوچکے تھے۔ ہفتہ ہونے کے بعد جب کاتب صاحب کے پاس پہنچے تو حیران رہ گئے۔کاتب صاحب فرمانے لگے کہ آپ کا کام تو ابھی نہیں ہوا۔ دراصل میری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔
کاتب کی طبیعت خراب تھی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے مگر یہ سوچ کر ہماری طبیعت غیر ہوگئی کہ اب کیا ہوگا۔ بہرحال بجھے دل سے ہم سرونج آگئے اور ایک ہفتہ گزرنے کے بعد پھر جاپہنچے۔ جیب میں صرف چار سو روپئے باقی تھے۔ ہمت کرکے کاتب کے پاس پہنچے تو اُن کی اطلاع تڑپا دینے والی تھی، کہا:’’ آئیے آئیے بس میں آپ ہی کا کام کرنے والا تھا۔‘‘ اب تو ہمارے غصّہ کی انتہا نہ رہی لیکن غصّہ زیادہ کرنا ہمارے لئے دو سو روپیہ سے ہاتھ دھونا تھا۔ مصلحت ناگزیر تھی، ہم نے بصد عاجزی کہا، ’’ حضور آپ دو دن کے اندر ہمارا کام کردیجئے، آپ کا بڑا احسان ہوگا۔‘ ‘
تیسرے دن پہنچے تو کام ہوچکا تھا۔ ہم فوراً وہاں سے دوڑے دوڑے پریس پہنچ گئے۔ وہاں نئی آزمائش منتظر تھی۔ پریس والوں نے کہا،’’صاحب پریس کا ایک پرزہ خراب ہوگیا ہے۔ ابھی کام نہیں ہوگا۔‘‘ یہ سن کر رہا سہا ہوش بھی ٹھکانے آگیا۔ اب تو ہم بالکل ہارچکے تھے۔ جیب کی ساری رقم بھی خرچ ہوچکی تھی۔ گھر سے نکلے ہوئے دس دن ہوچکے تھے۔ گھر والے پریشان ہوگئے اور تار بھیج دیا کہ فوراً چلے آئو۔ دوسرے دن ناکام واپس آگئے۔ ہمارا پرچہ ابھی تک پریس میں ہے اور جن سے قرض لیا تھا ان کے تقاضوں سے تنگ آگئے ہیں ۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ میاں دُنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام کون سا ہے؟ تو بِلا خوف یہ کہہ دیں گے کہ اردو کا رسالہ نکالنا۔ مگر صاحبو، دھیان رہے کہ ہم نے خواب دیکھنا ابھی تک نہیں چھوڑا ہے، فرق صرف اتنا آیا ہے کہ پہلے رات میں دیکھتے تھے اور اب دن میں بھی خواب نظر آنے لگے ہیں ۔
( انشائیہ نگار سرونج، مدھیہ پردیش کے جریدہ ’انتساب‘کے مدیر ہیں )