میں نے ایک ضروری خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہی تھا کہ سامنے سے میرے ہمسایہ مرزا حیدر بیگ آتے دکھائی پڑے۔ مرزا صاحب وقت یا گھڑی کے قائل نہ تھے۔
EPAPER
Updated: September 22, 2024, 1:47 PM IST | Wajahat Ali Sandelvi | Mumbai
میں نے ایک ضروری خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہی تھا کہ سامنے سے میرے ہمسایہ مرزا حیدر بیگ آتے دکھائی پڑے۔ مرزا صاحب وقت یا گھڑی کے قائل نہ تھے۔
میں نے ایک ضروری خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہی تھا کہ سامنے سے میرے ہمسایہ مرزا حیدر بیگ آتے دکھائی پڑے۔ مرزا صاحب وقت یا گھڑی کے قائل نہ تھے۔ ان کے خیال میں وقت کو انسان کا پابند ہونا چاہئے، نہ کہ انسان کو وقت کا۔ اور گھڑی تو محض ایک نمائشی اور تجارتی چیز ہے جس کو انسان کی بنیادی ضرورت یعنی بکواس میں ہرگز مخل نہ ہونا چاہئے۔ آتے ہی انہوں نے السلام علیکم کا پھندا پھینکا اور میں وعلیکم السلام کہتے ہی ان کا صیدزبوں ہوکر رہ گیا۔
مرزا: تم نے میری للکّی کو تو نہیں دیکھا؟
میں : (تعجب سے) للکی! یہ کون؟
مرزا: وہی میری للکی مرغی!
میں : مرغی؟
مرزا: ہاں ! وہی میری لال مرغی جس کے پروں کے حاشیے کچھ سیاہی مائل سنہرے سے تھے اور جس کی گردن چتی دار بھوری تھی اور جس کی چونچ کچھ اندر کی طرف جھکی ہوئی تھی اور جس کے بائیں پیر کا ایک ناخن ذرا گھسا ہوا تھا۔ تو پھر؟ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کیونکہ کسی مرغی کا اتنا تفصیلی حلیہ میرے لئے کچھ عجیب سی چیز تھی۔
مرزا: کل شام سے نہیں ملتی۔ سہ پہر میں اس نے انڈا دیا تھا۔ پھر چار بجے جب دانہ دیا گیا تو اس وقت بھی موجود تھی، اس کے بعد ایک نیولا آگیا تھا اور سب مرغیاں شور مچاتی ادھر اُدھر بھاگی تھیں۔ اس وقت بھی وہ باورچی خانے کے پاس والے دالان میں موجود تھی لیکن پھر گھنٹہ بھر بعد جب مرغیاں بند کی جانے لگیں تو اس کا پتا نہ تھا۔
میں : محلے کے کسی مرغے کے ساتھ ہوگی۔
مرزا: چہ خوش! گھر میں ایک چھوڑ تین تین مرغے موجود ہیں اور پھر وہ تو دوسری مرغیوں کو ساتھ لئے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہ نکالتی تھی۔ کل شام سے میں نے محلے کا ایک ایک کونا چھان مارا ہے۔
میں : رپورٹ کردیجئے تھانے میں۔
اس کے علاوہ میں اس موضوع پر اور کچھ کہہ بھی کیا سکتا تھا اور بہرصورت مرزا سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل تو نکالنا ہی تھی۔
مرزا: ہاں کچھ سوچ تو میں بھی رہا ہوں کہ رپورٹ کرکے چند گھروں کی خانہ تلاشی کروادوں۔
میں : تو یہ کام فوراً ہی ہونا چاہئے، دیر کرنے سے کیا حاصل؟
مرزا کچھ بولنے ہی والے تھے کہ دفعتاً انہوں نے جھپٹ کر میری میز کے نیچے سے کوئی چیز اٹھائی اور دروازے کے قریب روشنی میں لے جا کر اس کو دیکھنے لگے۔ میں نے تعجب سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا تو مرزا کی انگلیوں کے درمیان کسی پرندے کے چند بال تھے جو غالباً سڑک سے اڑ کر آگئے تھے۔ مرزا کافی دیر تک خفیہ پولیس کے کسی آفیسر کی طرح ان بالوں کا معائنہ کرتے رہے، کبھی ان کو آنکھوں کے قریب لاتے، کبھی آنکھوں سے دور لے جاتے۔ اس کے بعد ان کو سونگھا اور پھر غم اور غصے کے تاثرات اپنے سیاہ چیچک زدہ چہرے پر طاری کرکے کرسی پر آکر دوبارہ بیٹھ گئے، کچھ دیر مجھے گھورتے رہے اور بالآخر بڑی خشونت سے بولے: یہ بال کہاں سے آئے؟
میں : کون سے بال؟
مرزا: یہی بال! انہوں نے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھا دیا جس کی ایک انگلی پر بال کیا بالوں کے دوتین ریشے چپکے ہوئےتھے۔
میں : آگئے ہوں گے سڑک سے ہوا میں۔ غور سے تلاش کیجئے تو کمرے کے فرش پر ایسے بہت سے نوادرات بکھرے ہوں گے۔ ہفتے میں ایک بار تو جھاڑو دی جاتی ہے یہاں۔ مرزا کئی منٹ تک فرش کو دیکھتے کیا بلکہ اپنی گہری نگاہوں سے اس پر جھاڑو دیتے رہے پھر کسی منجھے ہوئے نجومی کے لہجے میں گویا ہوئے:
جو چپ بھی رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
خفت اور غصے کے ملے جلے جذبات سے میری آواز کپکپانے لگی : کیا مطلب آپ کا مرزا صاحب؟
مرزا صاحب نے نہایت اطمینان سے جواب دیا : یہی کہ مرغی کی چوری ذرا چھپتی کم ہے اور عموماً بہت گراں ثابت ہوتی ہے۔
میں غور کرنے لگا کہ مرزا کے ایک موٹی کتاب گھسیٹ کر ماروں تو زیادہ مؤثر ہوگا یا روشنائی سے لبریز دوات؟ کہ دفعتاً مرزا صاحب کے لڑکوں کے غول نے نعرہ لگایا: مل گئی للکّی ! مل گئی للکی!
مرزا صاحب ہڑبڑا کر بھاگے اور مَیں اپنا توازن قائم رکھنے کے لئے اپنی عینک کے شیشے بلاضرورت صاف کرنے لگا۔
آپ سمجھتے ہوں گے کہ غالباً اس حادثہ کے بعد مرزا حیدر بیگ کے تعلقات مجھ سے کشیدہ ہوگئے ہوں گے لیکن توبہ کیجئے! دوسرے روز مَیں اندر گھر میں داڑھی ہی بنا رہا تھا کہ مرزا نے ڈیوڑھی سے پکارا۔ میں یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی تار آیا ہے، منہ پر صابن لگائے اور ہاتھ میں استرا لئے ہوئے باہر نکل آیا۔ مرزا صاحب نے ایک پرجوش السلام علیکم کے بعد بڑے تحکمانہ لہجے میں استفسار فرمایا: یہ جھانسی میل کانپور سے کس وقت چھوٹتا ہے؟ میں نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔
مرزا: کیا کرایہ ہے لکھنؤ سے بھوپال کا؟
میں : مجھے نہیں معلوم۔
مرزا : آج کل چھٹیوں میں واپسی ٹکٹ تو مل ہی رہا ہوگا؟کہاں ملتا ہے یہ ٹکٹ اور کیا دام ہوتے ہیں اس کے؟ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے استرا بند کرکے جیب میں ڈال لیا کہ کہیں مجھ سے کوئی حادثہ نہ سرزد ہوجائے۔ صابن تو نہیں معلوم کب کا سوکھ کر چہرے کی خارشت ہوچکا تھا۔ ایک گھنٹہ کی سرمغزنی کے بعد گھر واپس آیا تو بیگم نے بتایا کہ مرزاصاحب کی بیوی ابھی کہہ رہی تھیں کہ ’’بہن بڑے باتونی ہیں تمہارے میاں۔ مرزا صاحب کو ایسا باتوں میں لگاتے ہیں کہ انہیں پھر گھر کی کوئی خبر ہی نہیں رہتی۔ ‘‘