• Mon, 01 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’احسان مند ہوں زبان ِ اردو تیرا ‘‘

Updated: December 01, 2025, 12:46 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

بالی ووڈ کے وجیہہ اداکار دھرمیندر نے یہ جملہ اردو کے تعلق سے میڈیا کے سوالوں کے جواب میں ادا کیا تھا، وہ نہ صرف اردو کے دلدادہ تھے بلکہ شاعری بھی کرتے تھے اور اپنی گفتگو میں جابجا اردو سے واقفیت کا ثبوت پیش کرتے رہتے تھے۔

Dharmendra. Picture: INN
دھرمیندر۔ تصویر:آئی این این
دلیپ کمار، راجکمار ، منوج کمار، راجندر کمار اور دھرمیندر ، یہ فہرست ایسی ہے کہ قارئین نے پڑھتےہی اندازہ لگالیا ہو گا کہ ہم کس موضوع پر بات کرنے والے ہیں۔مذکورہ بالا پانچوں اداکار نہ صرف اردو بولتے تھے بلکہ اردو زبان و تہذیب کا چلتا پھرتا مرقع تھے ۔ دلیپ صاحب نے تو فلموں میں بھی اور عوامی زندگی میں بھی اردو کو اس طرح برتا کہ اگر کوئی ان کی گفتگو ہی سن لے تو وہ خود بخود زبان کے تمام رموز سے واقف ہو جائے گا۔ راجکمار بھی اسی طرح کی زبان بولتے تھے بلکہ وہ اردو محاوروں پر مبنی مکالموں کے ذریعے ہی گفتگو کرنا پسند کرتے تھے ۔ راجندر کمار اورمنوج کمار کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی گفتگو اور نشست و برخاست کے آداب نے انہیں بھی اردو تہذیب کا ایک نمائندہ بناکر پیش کیا تھا ۔جب  ہندوستانی سینما  کے سنہری دور کی بات کی جاتی ہے تو بہت سے چہرے ذہن میں نمودار ہوتے ہیں، مگر چند نام ایسے ہیں جن کی شخصیت صرف فلموں، کرداروں، مکالموں یا گیتوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ایک وسیع تہذیبی فضا، لطیف جمالیات اور ایک باوقار ثقافتی ورثےکا استعارہ بن جاتی ہے۔ دھرمیندر بھی انہی معدودے چند فنکاروں میں شامل ہیں جنہیں محض ایک اداکار کہنا ان کے مقام و مرتبے کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔وہ ایک طرف ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں رومانی ہیرو، مردانہ حسن و وجاہت کا پیکر، مشفق لہجے اور جذباتی حرارت کے نمائندہ اداکار رہے تو دوسری طرف وہ اردو زبان، اردو شاعری اور اردو تہذیب کے خاموش اور مخلص سفیر بھی تھے۔ ان کے بولنے کا انداز، ان کے مکالموں کی نرمی، ان کے دل کی شگفتگی، ان کے لہجے کا ٹھہرائویہ سب کسی ایسے شخص کی پہچان ہے جو اردو کے تخلیقی اور تہذیبی حسن سے گہری وابستگی رکھتا ہو۔
  دھرمیندرپنجاب کے اس خطے سے تعلق رکھتے تھے جو ایک زمانے میں اردو اور پنجابی کا مشترکہ گہوارہ تھا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اور بہت بعد تک پنجاب میں اردو محض ایک زبان نہیں تھی بلکہ لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ تھی۔لوک کہانیاں پنجابی میں سنائی جاتیں مگر جذبات کے گہرے اظہار، عشق کے بیان اور شائستہ گفتگو کیلئے لوگ اردو کا سہارا لیتے۔ یہی وہ تہذیبی ماحول تھا جس میں دھرم سنگھ دیول نے آنکھیں کھولیں۔ انہوں نے ایک انٹر ویو میں خود یہ کہا ہے کہ انہوںنے اردو اپنے اسکول کے استاد سے سیکھی ۔ اس ماحول میں انہوں نے نہ صرف اردو کی مٹھاس کو محسوس کیا بلکہ اس زبان کے شعری پس منظر سے بھی آشنا ہوئے۔ میر کی غزلوں کے عاشق، فیض کی انقلابیت کے دلدادہ، جگر مراد آبادی کی آتشی رومانیت کے گرویدہ  اور فراق گورکھپوری کی تنہائیوں کے ہم سفر۔دھرمیندر کئی مواقع پر اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ  اردو پڑھ کر ہی بڑے ہوئے ہیں، اردو نے انہیں انسان بننا سکھایا ہے۔یہ ایک اداکار کا بیان نہیں تھا بلکہ ایک تہذیبی احساس کا اعتراف تھا۔ 
دھرمیندر کے مکالموں کی ادائیگی پر اگر غورکیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں زبان کی صنائع و بدائع کا مکمل شعور تھا ۔ ایک طرف وہ پنجاب کا جوش، دیسی سادگی اور بھرپور توانائی کا نمونہ تھے تو دوسری طرف اردو کی لطافت، تہذیب اور نفاست بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتی تھی ۔ ان کا لہجہ نہ مصنوعی تھا، نہ بناوٹی ،نہ وہ اردو کو فارسی زدہ بنا کر پیش کرتے تھے اور نہ ہندی کے  گاڑھے سنسکرت آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے۔بلکہ ان کی زبان وہی  ہندوستانی تھی جس نے مل جل کر اس خطے کی تہذیب بنائی۔یہی وجہ ہے کہ’ شعلے‘ سے لے کر ’اپنے‘ تک، جہاں جہاں دھرمیندر نے اردو مکالمے اپنائے، وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبان اُن کے اندر سے پھوٹ رہی ہےجیسے کوئی چشمہ فطری بہائو کے ساتھ بہہ رہا ہو۔دھرمیندر کے کمرے میں اکثر اردو کتابیں نظرآاتی تھیں اور  وہ اپنی گفتگو میں کہیں نہ کہیں اردو کا ایک مصرعہ ضرور شامل کر دیتے  تھے۔متعد اخبارات میں یہ بات شائع ہوئی ہے کہ وہ اپنی سوانح لکھ رہے تھے جو اردو میں ہی تھی ۔ اس کے علاوہ وہ اردو اخبار کے قاری بھی تھے۔ 
  دھرمیندر محض فلمی چہرہ نہیں تھے ۔ان  کے اندرون میں ایک حساس، نازک دل رکھنے والا شاعر بھی بسا ہوا تھا۔وہ کہتے تھے کہ انہیں جب کبھی تنہائی ملتی، وہ اردو شاعری کا سہارا لیتے۔ساحر لدھیانوی  ،فیض احمد فیض، مجروح سلطانپوری ، جاں نثار اختر اور قتیل شفائی ان کے پسندیدہ شعراء    میں شامل تھے۔   اردو نوازی کا مطلب صرف زبان سے محبت نہیںیہ دل کی وسعت، کردار کی نرمی اور تہذیب کی اعلیٰ سطح کا اشارہ بھی ہے۔دھرمیندر نے اپنی زندگی میں اردو کو صرف پڑھا نہیں بلکہ  برتا بھی۔ان کے رویے میں شائستگی، ملنے ملانے میں نفاست، گفتگو میں نرمی  اور اختلاف میں تہذیب یہ سب اسی زبان کے اثرات تھے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کا ہندوستانی سینما اردو کے زیراثر تھا۔کہانی نگار، مکالمہ نگار، شاعر، نغمہ نگار سب اردو کے تخلیقی چراغ تھے اور اس دور میں دھرمیندر جیسا اداکار اُن کے الفاظ کو وہ حسن دے رہا تھا جو زبان کا حق تھا۔  
اگر کوئی یہ کہے کہ دھرمیندر اردو کے محسن  تھے تو یہ بات مبالغہ نہ ہوگی۔انہوں نے نہ کوئی ادبی تحریک چلائی، نہ زبان کی سیاست کی لیکن انہوں نے اردو کو اپنی زندگی، اپنے لہجے، اپنی شاعری کے شوق، اپنی تہذیب اور اپنے فن میں اس طرح سمویا کہ وہ خود اردو کا ایک  استعارہ بن گئے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK