’جامن‘ ایک پھل ہے۔ پھولوں اور کانٹوں سے دور اس کی اپنی کائنات ہے۔ قد میں کم تاثیر میں ’حد سے زیادہ‘حقیر مگر جانِ اکسیر، جس گھر میں جائے بہار لائے، جس منہ میں جائے خوشنما بنائے۔
EPAPER
Updated: May 26, 2025, 3:39 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Mumbai
’جامن‘ ایک پھل ہے۔ پھولوں اور کانٹوں سے دور اس کی اپنی کائنات ہے۔ قد میں کم تاثیر میں ’حد سے زیادہ‘حقیر مگر جانِ اکسیر، جس گھر میں جائے بہار لائے، جس منہ میں جائے خوشنما بنائے۔
’جامن‘ ایک پھل ہے۔ پھولوں اور کانٹوں سے دور اس کی اپنی کائنات ہے۔ قد میں کم تاثیر میں ’حد سے زیادہ‘حقیر مگر جانِ اکسیر، جس گھر میں جائے بہار لائے، جس منہ میں جائے خوشنما بنائے۔ چھوٹوں کی دسترس میں بڑوں کی انجمن میں۔ جنگل میں منگل کا سبب۔ من موجی اس پر فریفتہ، بن باسی اس کے متلاشی۔ کیا خوب اس کا چسکا، رستے کا مال سستا۔ اس کے خواص بے شمار ہیں گویا دام کم اور انعام زیادہ۔ ہمارے دیس میں جامن ’گلاب جامن ‘ سے زیادہ مقبول ہے۔ اسے راج من ‘بھی کہتے ہیں۔ جن اصحاب میں جمالیاتی حِس اوروں سے سوا ہے وہ اسے ’ جمالی‘ بھی کہتے ہیں۔ وفورِ شوق میں بعض اسے ’کالاجامن ‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ کالے جامن پر سفید نمک کا چھڑکاؤ اسے ظاہری و باطنی طور پر زیادہ پُرتاثیر بناتاہے۔
جن خوش خوراکوں کو’گلاب جامن ‘ زیادہ مرغوب ہوتا ہے اطبّا ان کے لئے روزانہ ایک کٹوری جامن کھانے کا نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ جب معاملات میں ’شکر رنجی ‘ راہ پاجائے، اور اس کی پاداش میں ’شکر‘ کا مرض لاحق ہو جائے تو ایسے میں جامن کا استعمال معاملات کو راہِ راست پر لانے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کی بلندی اور پستی دونوں کی شان نرالی ہے۔ بلندی ایسی کہ ہاتھ نہ جائے، پستی ایسی کہ ہاتھوں ہاتھ لی جائے۔ گری پڑی جامنیں بھی ’رس بھری‘سے خوش ذائقہ ہوتی ہیں۔
ہم نے بچپن میں اپنے ’آزاد ‘ دوستوں کی معیت میں جامن کے پیڑ کا بارہادیدار کیا ہے۔ ایک آدھ بار بلند درخت پر پتھر بھی چلائے ہیں۔ مگر نتیجہ کچھ بہت حوصلہ افزا نہیں پایا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جامن اپنے چاہنے والوں کو بالعموم مایوس نہیں کرتی۔ درخت کے پاس باادب کھڑے ہوکر اگر جامن جامن پکارا جائے تو دو چار جامنیں تو ایک ہی صدا میں سائل کے قدموں میں آکر دم لیتی ہیں۔ جامن کا ذائقہ بھی اہلِ خبر کے نزدیک موضوعِ گفتگو بنتا رہا ہے۔ جامن کے ذائقہ کا مدار اس کے پکنے کی منزل پر منحصر ہوتا ہے۔ بادی النظر میں اس کا ذائقہ میٹھا، کھٹّا اور تھوڑا کسیلا ہوتا ہے۔ ماہرین کی رائے میں جامن کا ذائقہ کھانے کے تجربے کو انوکھا بناتا ہے۔ اس لئے دکانوں پرجامن خریدنے والے (تجربے کا مزہ لیتے ) اسے گنے بغیر کھاتے چلے جاتے ہیں۔ بازارِ خوردمیں جامن فروش گاہکوں کے تجربے سے خوب واقف ہوتا ہے۔ اس لئے وہ صرف جامن کے بھروسے اپنا کاروبار نہیں پھیلاتا بلکہ اپنے سامان میں موسم کے دیگر سستے پھلوں کو بھی جگہ دے کر مطمئن رہتاہے۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جامن بیچنے والے بھی جانے پہچانے ہوتے ہیں اور کھانے والے بھی ہر پھر کے وہی ہوتے ہیں۔
اس سوال کا جواب بڑا مشکل ہے کہ آم کی کتنی قسمیں ہیں ؟اس معاملے میں جامن بڑی خود کفیل بلکہ خود مختار واقع ہوئی ہے۔ جامن کی دو قسمیں شہرت رکھتی ہیں۔ ایک بیگنی اور دوسرے سفید جامن۔ سفید جامن کو خوش عقیدہ ’گلاب سیب‘ بھی کہتے ہیں۔ مگر ماہرِ ثمریات اس پر متفق نہیں۔
جامن کی ناموری میں (جامن فروشوں سے کہیں زیادہ) ’معالجین‘ نے اہم کردار اد اکیا ہے۔ علاج کی کتابوں میں ’جامن ‘ کا نام بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا ہے۔ قیمتی نسخہ جات اور ادویات میں جامن کے جوہرایسے کھلتے ہیں کہ یہ جیسے جامن کی بجائے ’جامِ شیریں ‘ ہو۔ اطبّا کے نزدیک جامن کی مینگ اس کی جان ہے۔ اسے مغزِ خستہ جامن کہا جاتا ہے۔ یہ مختلف دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ ابھی تک کی تحقیق کے مطابق جامن میں حیاتین ج، کے علاوہ فائبر، آئرن، کیلشیم، پوٹاشیم وغیرہ کے اجزا پائے جاتے ہیں۔ جامن کی معمولی کونپلیں بھی بڑے دور رس نتائج کی حامل ہوتی ہیں۔
جامن کی کھال بھی بال کی کھال نکالنے میں معاون ہوتی ہے یعنی یہ جلد کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ جامن کی لکڑی کے کوئلہ سے منجن بنتا ہے(جس کے آگے نامی گرامی منجن بھی فیل ہیں )۔ جامن کا رُب(رس)، شربت اور سرکہ بھی بناتے ہیں۔ جامن کا سرکہ تلّی کو گھلانے کے لئے بھی مفید ماناگیا ہے۔ بارے چھٹانک بھر جامن کے من بھر جیسی کرامتیں دعوتِ جامن خوری دیتی ہیں۔ اسلئے( ابھی تھوڑا وقت ہے) موسم کے اس پھل سے استفادہ کیجئے۔ گاؤں کے جہاں دیدہ اپنے گھر کے سامنے ’نیم کا درخت‘ لگانا پسند کرتے تھے۔ سرکاری عمارتوں میں عام طور سے ’جامن کا پیڑ‘ لگایا جاتا تھا۔ اس کی دیکھ ریکھ سرکاری پیمانے پر ہوتی تھی۔ اس جامن کے پیڑ کے نیچے کوئی شریف آدمی دب جائے تو اسے نکالنے کیلئے طویل کاغذی کارروائی کرنی پڑتی۔ اس سلسلے میں کئی کہانیاں بھی مشہور ہیں۔
جامن کا رنگ ’جامنی ‘ کہلاتا ہے۔ ان دنوں ’جامنی‘ رنگ کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہاہے۔ بعض ملکوں میں اب مہمانوں کے لئے سرخ قالین کی جگہ ’ جامنی قالین‘ بچھائے جانے لگے ہیں۔ جامنی رنگ کو پھولوں اور سخاوت کی علامت سے تعبیر کیا جارہاہے۔
جامن کے پیڑ کی طرح قدآور دنیا کے سب سے طاقتور حکمران نے اب(جامن کھانے کے ساتھ ساتھ ) جامنی رنگ کی ٹائی لگانی بھی شروع کردی ہے۔ جامنی رنگت کی عالمی سطح پر جو پذیرائی ہو رہی ہے اس نے بلاشبہ ’ جامن‘ کی اہمیت کو دو چند اور جامن خوروں کو خرسندکردیا ہے۔