Inquilab Logo

خناس

Updated: April 01, 2024, 2:03 PM IST | Haroon Akhtar | Malegaon

 میں زمین مقدس ہوں، انگنت راز میرے سینے میں دفن ہیں۔ میں اس وقت کسی داستان پارینہ کی گرہ نہیں کھولنا چاہتی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 میں زمین مقدس ہوں، انگنت راز میرے سینے میں دفن ہیں۔ میں اس وقت کسی داستان پارینہ کی گرہ نہیں کھولنا چاہتی۔ کل شب کی بات ہے ایک معصوم سا بچہ، ہاں ! اس کے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت تھی، دس بارہ سال کا، اس نے قرآن پاک کی تلاوت کی، اسے سینے سے لگایا اور جزدان میں رکھا پھر اپنی امی سے نرمی سے پوچھا’’امی کیا پتھر سے جنگ جیتی جاسکتی ہے؟انکے پاس ہتھیار ہیں اور ہمارے پاس صرف پتھر۔ ‘‘ماں نے بچے کے بالوں میں شفقت سے انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا’’صفوان بیٹے ہمارے پاس صرف پتھر نہیں اللہ بھی ہے، بیٹا پتھر کو معمولی مت سمجھو، یہ پتھر پہلے کنکری ہوا کرتا تھا، بہت پہلے ان پتھروں نے بند مٹھی میں کلمہ پڑھا ہے۔ ‘‘
 معصوم سا بچہ مسکرایا۔ ماں کی نگرانی میں بچے کے دن گزرتے گئے۔ اس کی ماں اسے خالد بن ولیداور صلاح الدین ایوبی کی بہادری کے کارنامے سناتی رہی۔ ایک دن کی بات ہے صہیونیوں سے جنگ جاری تھی۔ بچہ گھر سے نکلنے لگا۔ اس کے چہرے پر ماسک تھا۔ ماں نے نرمی مگر عزم کے ساتھ کہا’’بیٹا چہرے سے ماسک اتار دو۔ یہ ڈر اور بزدلی کی علامت ہے اور میں جانتی ہوں تم بزدل نہیں ہو۔ ‘‘بچا ہنستا مسکراتا گھر کے باہر آیا اور دیگر بچوں میں شامل ہوگیا۔ بارہ پندرہ سال کے بچے موت کے سائے میں کھیل رہے تھے۔ ایک بچے نے اپنی آستین اوپر کی اور بتایا، اس کی کلائی پر لکھا تھا’’نزہ، اویس، یحییٰ، حمزہ، منزہ‘‘، دیگر بچوں نے اپنے اپنے ہاتھ بتائے۔ اس بچے نے غور سے اپنے ہاتھ کو دیکھا اس کی کلائی پر لکھا تھا صفوان۔ تبھی ماں کے الفاظ کانوں میں گونجے
جا بیٹا اللہ حافظ۔ پھر ماں نے اپنے دل میں کہا زندہ رہا تو غازی مرا تو شہید۔ یہ معصوم معصوم بچے گولیوں کا جواب پتھر سے دے رہے تھے۔ ان بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈا تھا۔ اپنے پیارے اور مقدس وطن کا جھنڈا ڈنڈے کے نیچے کا سرا نوک دار ہوتا ہے یہ جھنڈا گاڑنے کے بھی کام آتا ہے اور دشمن کا گلا چھیرنے کے بھی۔ جنگ ایک زمانے سے چلی آرہی ہے۔ 
 میری آنکھیں گواہ ہیں۔ ابابیلوں کا لشکر بھی میری آنکھوں نے دیکھا ہے۔ جنگ اب بھی جاری ہے۔ صفوان اپنی ماں کی نگرانی میں سولہ سال کا ہوگیا۔ انتہائی نڈر اور بہادر۔ ’’امی ایک بات پوچھنا تھی‘‘، ’’کیا بات ہے بیٹا‘‘، ’’امی یہ صہیونی لوگ بچوں پر حملہ کرتے ہیں ؟‘‘ماں نے مسکراتے ہوئے کہا’’یہ ان شیطانوں کے دلوں میں بیٹھا ڈر اور خوف ہے۔ ‘‘’’کیسا ڈر ماں ؟‘‘، ’’بہت پہلے کی بات ہے شیطانوں کی مجلس تھی سب سے بڑا شیطان تخت پر بیٹھا تھا۔ ایک ایک کر کے سارے شیطان اپنے اپنے کارنامے سنا رہے تھے اور تخت پر بیٹھا شیطان منہ بگاڑ ےجارتھا۔ میں نے مسجد گروادی اؤں، میں نے فساد کروادیا اؤں، میں نے باپ بیٹے کو لڑایا اؤں، میں نے زنا کروایا اؤں، میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا، میں نے ایسا کیا، میں نے ویسا کیا۔ ‘‘
 سارے شیطان اپنے اپنے کارنامے سنارہے تھے اور تخت پر بیٹھا شیطان غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا۔ ایک آخری شیطان کھڑا ہوا اور کانپتی آواز میں کہا’’ایک بچہ مدرسہ جارہا تھامیں نے اسے بہکا دیا۔ ‘‘تخت پر بیٹھا شیطان خوشی سے اچھل پڑا اور داد تحسین کی صدا بلند کی۔ ’’مرحبا مرحبا مرحبا، تم نے صرف ایک بچے کو نہیں بہکایا بلکہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا۔ ‘‘
 ’’بس ماں سمجھ گیا، ان کا ڈر صدیوں پرانا ہے۔ یہی ڈر فرعون کو بھی تھا کہ ایک بچہ اس کی کائنات کو زیر و زبر کردے گا۔ خون کی ندیاں بہائی گئیں لیکن! اس بچے کو روک نہیں سکے۔ ‘‘صفوان کو اپنے بچپن کا ایک کھیل یاد آیا۔ زیر تعمیر عمارت اور ریت کا ڈھیر اور وہ مسکرا کے رہ گیا۔ 
 اب تک انگنت بچے شہید ہوچکےہیں۔ شہادت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن! بچوں کے اندر ڈر اور خوف نہیں ہے ہر ظلم کا جواب وہ پتھر سے دے رہے تھے۔ 
 سورج ابھی ڈوبا نہیں تھا۔ ایک عمارت کے ملبے پر صفوان پڑا تھا۔ اسی ملبے پر جھنڈا کھڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا صفوان نے ہی ڈنڈا پکڑ رکھا ہے۔ اس کا دوسرا ہاتھ تھوڑا سا مٹی میں دبا تھا۔ اس کے چہرے پر ایسی معصومیت تھی جیسے ابھی ابھی یہاں آکر لیٹ گیا ہو۔ چہرہ گرد آلود تھا۔ ایک فوجی کا ادھر سے گزر ہوا۔ جھنڈا لہرا تا دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا۔ اس نےجھنڈا لات مار کر گرانا چاہا۔ تبھی اس کے دل میں کمینہ پن اتر آیا۔ جھنڈے کی توہین کے خیال سے ایک خبیث سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر دوڑ گئی۔ اس نے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہی تھی کہ صفوان کا ہاتھ جو تھوڑی سی مٹی میں دبا تھا تیزی سے باہر آیا اور اس نے ایک نوک دار پتھر فوجی کے چہرے پر دے مارا۔ اس سے پہلے کہ فوجی سنبھلتا جھنڈے کا نوک دار سرااس کے گلے کو چیرتا ہوا گزر گیا لیکن دوسرے ہی پل صفوان اسی ملبے پر پڑا تھا اور اس کے جسم پر انگنت گولیوں کے نشان تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK