Inquilab Logo

اَدب، مصنوعی ذہانت اور چند سوالات

Updated: October 08, 2023, 12:38 PM IST | Dr Qamar Siddiqui | Mumbai

کیا مصنوعی ذہانت ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو مزید تیز کر سکے گی اور ادب پر مثبت اثرات مرتب کرے گی؟ کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ذریعے نظمیں ، غزلیں ، مضامین ، ناول، افسانے تخلیق کر سکیں گے؟ کیا اس کی مدد سے تخلیق کیا جانے والا ادب انسانی زندگی کے جذبات و احساسات کی بہتر ترجمانی کرسکے گا؟

Photo. INN
تصویر:آئی این این

فراز عارف
بات جب ہم مظفرؔ حنفی کی کرتے ہیں تو ایک ایسے شاعر اور ادیب کی تصویر ذہن میں اُبھرتی ہے جس نے اپنی ۸۳ سالہ زندگی ایسی آن بان شان سے گزاری ہے کہ جاننے والے رشک کرتے ہیں ۔ ہم اردو والوں کو واقعی اِس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ مظفرؔ حنفی اردو کے شاعر اور ادیب ہیں اور اُنہوں نے غزل، نظم، افسانہ نگاری، ترتیب وتدوین ، تحقیق و تنقید اور ترجمہ نگاری میں وہ بیش بہا کار ہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جن کی مثال اُردو ادب ہی نہیں بلکہ دوسری زبانوں کے ادب میں بھی بہت کم ملتی ہے۔ آج مظفرؔ حنفی ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن جب ہم اُن کے ادبی سفر پر نظر ڈالتے ہیں تو اُن کا یہ مقطع زبان پر جاری ہو جاتا ہے:
نام روشن ہوا مظفرؔ کا=سر ہوئے حاسدین کے نیچے
 دنیا نے مظفرؔ حنفی کے زخموں پر نمک چھڑک کر اُنہیں غزل کی زباں پر مرچ رکھنے پر مجبور کیا اور اُن کے ماحول نے اُنہیں رنگین غزلیں اور ہرے شعر کہنے سے باز رکھا:
ہمارے زخموں پہ دنیا نمک چھڑکتی تھی
تو ہم بھی مِرچ غزل کی زباں پہ رکھتے تھے
ماحول نہ راس آئے تو کس طرح مظفر
رنگین غزل کہتے، ہرے شعر سناتے
 مظفرؔ حنفی کا طنز تو بہت مشہور ہے مگر بنیادی طورپر وہ اپنے دور کے ایک اہم جدید شاعر ہیں ۔ ڈاکٹر محبوب راہیؔ نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’ڈاکٹرمظفرؔ حنفی حیات، شخصیت اور کارنامے‘‘ میں بڑی عرق ریزی ، جانفشانی اور مدلل طریقے سے مظفرؔ حنفی کو ایک اہم اور نمایاں جدید شاعر ثابت کیا ہے اور اُن کی اِنفرادیت کو معتبر نقادوں کی آراء سے اُجاگر کیا ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے مشہور ترقی پسند نقّاد ڈاکٹر محمد حسن اور ہمارے دور کے عہد ساز نقّاد محترم گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے مندرجہ ذیل اقتباسات نقل کئے ہیں ، یہاں صرف ایک اقتباس پیش ہے:
 ’’ نئی اردو شاعری میں مظفرؔ حنفی ایک معتبر مستند اور معتبر آواز کانام ہے ان کا لہجہ دور سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کے لہجے کی انفرادیت کا ہمیشہ اعتراف کیا گیاہے۔‘‘ (گوپی چند نارنگ)
 مظفرؔ حنفی خود بھی کہتے ہیں :’’ میں ابتداء ہی سے اپنی آواز کو بھیڑ میں کھوجانے سے بچانے کی کوشش میں لگا رہا ہوں اور نئے ادب میں لہجے کی یکسانیت کا اِلزام کم ازکم مجھ پر صادق نہیں آتا۔‘‘ مظفرؔ حنفی کی اِنفرادیت کی مثال ایسی ہے جیسے گھنے اندھیرے میں بہت سے لوگ سیاہ لباس زیب تن کئے کھڑے ہوں اور ایک شخص اُن میں سفید شفاف لباس میں کھڑا ہو کہ دیکھنے والوں کو دیگر لوگوں کی موجودگی کا تو احساس نہ ہو لیکن سفید اور شفاف لباس میں کھڑا آدمی دور سے اپنی موجودگی کا احساس کرارہا ہو۔مظفرؔ حنفی کی ترتیب و تدوین اورتحقیقی و تنقیدی کا وشوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ مظفرؔ حنفی خوب اچھّی طرح جانتے تھے کہ پرانا کیا ہے۔ اسی لئے تو وہ اِتنا کچھ نیا کہہ پائے۔ اگر شاعر کا کلاسیکل شاعری کا مطالعہ کمزور ہو اور وہ اساتذہ کے کلا م سے انجان ہے تو اپنے گھسے پٹے پامال خیالات کے حامل شعروں کو اچھّا ہی سمجھے گا اور ہوا میں اُڑنے لگے گا۔ مگر جدید شعراء اور نقّاد تو اِس طرح کی شاعری کی طرف نظرِ التفات ہی نہیں کرتے۔
 جہاں تک کرخت سے کرخت اور نامانوس لفظ کو شعری لباس پہنا نے یا اسے Prettify کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے تو مظفر حنفی میں یہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے ایسے بہت سے الفاظ کو بڑے فنکارانہ انداز میں شعری لباس عطا کیا ہے جو زبان پر بڑے سخت اور عجیب و غریب لگتے ہیں ۔ مظفر حنفی نے اپنی حیات ہی میں اپنے شائع شدہ ۱۲ مجموعوں میں سے غزلوں کا انتخاب ’’چنیدہ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا ۔ اس انتخاب میں ہمیں مندرجہ ذیل الفاظ ملتے ہیں :
  جھکڑ، اندّھڑ، تڑ تڑتڑ، کٹی پھٹی، کھڑاگ، ٹانگ پسارے، چنگیز خاں ، دھجّی ، گِھسٹ، ٹی بی، مڑے تڑے، چھپّک، کھڈنک، کھڈرک، ٹیڈی میڈم ، چپّو، پھڑک، ماڑدے، سانبھر، ہنڈولے، ڈینگ، اینڈے اینڈے ، تھپیڑ، دھمّال ، بمباری، پوسٹ مارٹم۔
 اِن الفاظ کو اگر ہم اِس طرح اشعار سے الگ کرکے پڑھتے ہیں تو واقعی یہ زبان پر بڑے کرخت اور اَٹ پٹے سے لگتے ہیں لیکن جب اِن الفاظ کے حامل اشعار کو غزل میں تسلسل کے ساتھ ہم پڑھتے ہیں تو مظفر حنفی کی فنکارانہ چابکدستی اور شعری لباس پہنا نے کی خدا داد صلاحیت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ n

 آج ہم ایک بالکل نئی دنیا میں جی رہے ہیں ۔ایک ایسی دنیا جس میں انسانی معاملات میں ٹیکنالوجی کا دخل ناگزیر ہے۔ بازار ہو یا گھر ، سفر ہو یاحضر ہر جگہ خودکار نظام انسانی عمل دخل کی ضرورت کو محدود کر رہا ہے۔ مشینی روبوٹ نے افرادی قوت کی ضرورت کو بہت کم کردیا ہے۔ کھدائی ، مال کی ڈھلائی ، کھیتی باڑی جیسے مختلف کام انسانی ہاتھوں کے بجائے مشین سے لیے جانے لگے ہیں ۔ بینکنگ نظام پوری طرح ڈیجیٹلائز ہوچکاہے۔پیچیدہ امراض کی تشخیص اور اس کے علاج میں مشینی عمل دخل سے ہر کوئی واقف ہے۔ ان سب کے باوجود ابھی تک کہیں نہ کہیں اس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کے لئے اور اس میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے انسانی ذہانت کی ضرورت پڑ رہی تھی۔ لیکن مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے تعلق سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ انسان کی تخلیق کردہ یہ ٹیکنالوجی اپنے طور پر ایک آزاد نظام بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور انسانی انحصار کے بغیر مکمل طورپر خودمختار طریقے سے کام کرسکتی ہے۔ یعنی ٹیکنالوجی کا کنٹرول ، اس میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی درستگی اور اس کے معیار کو بہتر بنانے جیسے پیچیدہ کام اب مصنوعی یا مشینی ذہانت سے کیے جائیں گے۔مثال کے طور پر انجیوگرافی، سی ٹی سکین، بائیاپسی، آٹوپسی اور ٹرانسپلانٹیشن جیسے جدید طریقۂ علاج کا کمانڈ اور کنٹرول فی الحال انسانی ہاتھ میں ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ٹیکنالوجی خودکاری اور خودانحصاری کی طرف بڑھ کر انسانی عمل دخل کی ضرورت سے آزاد ہو جائے گی اور امراض کی تشخیص سے لے کر علاج اور آپریشن سب مشینوں کے ذریعے ہوں گے۔ 
  غور کریں توانسان علم و تہذیب کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ قدرت کا پروردہ انسان اپنی بنائی مصنوعی دنیا کا باشندہ بن گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) ایک ایسا سسٹم ہے جو بات چیت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ سوالات کے جوابات منظم طریقے سے دیتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی یا اس طرح کے دیگر ایپ کا استعمال پیداوار، مواصلات اور خدمات کے شعبوں میں عام طور سے ہونے لگا ہے۔ ایسا سوچا جا رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت تعلیم کی دنیا کو مکمل طور پر بدل دے گی اور ہماری تعلیم مصنوعی ذہانت پر مبنی ہوگی۔لیکن مصنوعی ذہانت پر مبنی تعلیم انسانی یادداشت پر کس طرح اثر انداز ہوگی یہ سوچنے کی بات ہے۔ مصنوعی ذہانت انسانی یادداشت کی قوت میں اضافہ کرے گی یا اسے کُند کردے گی؟ انسانی تخیل کا انحصار اس کی یادداشت پرہی ہے جس کے سہارے وہ ماضی سے گزر کر حال تک پہنچتا ہے اور مستقبل کے اندازے لگاتا ہے۔ اگر تمام علوم کا ذخیرہ مصنوعی ذہانت کی دسترس میں آجائے تو اس کا اثر انسان کی سوچنے کی طاقت پر پڑے گا۔ یقیناً مصنوعی ذہانت ایک ایسی سہولت ہے کہ انسان اس کا دست ِ نگر ہوجائے گا۔ گوگل کی مثال سامنے ہے۔ اس سرچ انجن نے انسانوں کو کس قدر مفلوج کردیا ہے۔ اب ہم بالکل سامنے کی بات کے لئے بھی ذہن پر زور دینے کے بجائے گوگل کی مدد لینا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہم دھیرے دھیرے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگیں گےتاکہ وقت کی بچت ہو سکے اور ہمیں فوری جوابات مل سکیں ۔مصنوعی ذہانت کے فروغ سے ایک سوال یہ بھی قائم ہوتا ہے کہ اس سے ہماری تخلیقی صلاحیتوں اور ہنر پر کتنا اثر پڑے گا؟ کیا ہم اتنے ہی تخلیقی رہ پائیں گے جتنے ہم اس وقت ہیں ؟ کیا مصنوعی ذہانت ہمارے ٹیلنٹ کو متاثر کرے گی یا تباہ کرے گی؟ یا اس کے ذریعے ہم اپنے ٹیلنٹ کو مزید نکھار پائیں گے؟ کیا یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو مزید تیز کر سکے گی؟ کیا مصنوعی ذہانت ادب پر مثبت اثرات مرتب کرے گی؟ کیاتخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مصنوعی ذہانت مدد کرسکتی ہے؟کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ذریعے نظمیں ، غزلیں ، مضامین ، ناول، افسانے تخلیق کر سکیں گے؟ کیا اس کی مدد سے تخلیق کیا جانے والا ادب انسانی زندگی کے جذبات و احساسات کی بہتر ترجمانی کرسکے گا؟کیا انسان نئی دنیا میں اپنی ذہانت اور مصنوعی ذہانت کے درمیان خط امتیاز قائم رکھ پانے میں کامیاب ہوگا؟ ایسے بہتیرے سوالات ہیں جو مصنوعی ذہانت کی روز افزوں مقبولیت کے ساتھ ہر ہوش مند شخص کے ذہن میں پیدا ہورہے ہیں ۔ 
 مصنوعی ذہانت کا استعمال اب ہندوستانی زبانوں میں بھی شروع ہوگیا ہے۔لہٰذا اردو کے ساتھ دیگر ہندوستانی زبانوں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے مختلف موضوعات پر مضامین اور نظمیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن کیا جذبات، حقیقت، تخیل، ذہانت اور زبان کو اس طرح کی نظموں اور مضامین میں سمو پانا ممکن ہے جس طرح ایک جیتا جاگتا تخلیق کار اپنی شاعری یا نثر میں سموتا ہے۔ایک تخلیق کار زندگی اور معاشرے سے تجربات کشید کرکے اپنی تحریر مکمل کرتا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت انٹرنیٹ کے سمندر میں موجود ڈاٹا کی مدد سے اپنی تحریر بناتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اپنی تحریر میں ادبی الفاظ پروس سکتی ہے ، شاعری نما کچھ لکھ سکتی ہے لیکن اس کے ذریعے بنائی ہوئی تحریر میں فن اور ہنر مندی کا فقدان ظاہر ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر اردو کی دو مشہور نظمیں اسرار الحق مجاز کی ’’رات اور ریل‘‘ اور ساحر لدھیانوی کی ’’تاج محل ‘‘ کو ذہن میں رکھیں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اسی موضوع پر بنائی گئی نظمیں ملاحظہ فرمائیں : 
مرمر کا قصر، سفر کی داستان 
شاہ جہان کی محبت کا احسان 
یہاں کے باغات میں خوشبو کا لباس 
تاج محل کی زیبائی، دل کے پیار کا پیغام 
محبت کی کہانی، تاج محل کے ہیرے 
یادوں کے سنگ، تاریخ کے جلوس کی طرح 
…٭…
ریل چلتی ہے راہوں کی رفاقت کے ساتھ 
راستوں پر جا کر کتابوں کے ساتھ 
سفر کی دنیا، مناظر دلوں کی خوشبو 
 یہاں کی داستانوں کے ساتھ 
سفر کرتے رہو، اپنے خوابوں کو پکڑو 
ریلوں کی راہوں کی روشنی کے ساتھ 
مذکورہ بالامثالیں مجاز اور ساحر کی نظموں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں بلکہ انہیں نظم تسلیم کرنا بھی مشکل ہے لیکن واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کی یہ ابتدا ہے۔ دو پانچ برس کی عمر والے سے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دھیرے دھیرے جب مصنوعی ذہانت کا دائرہ وسیع ہوگا تو ممکن ہے کہ عروض و قوافی کے استعمال کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی سطح بھی بلند ہو۔ لیکن تخلیقی عمل کی جس پیچیدگی سے تخلیق کار گزرتا ہے اس کا ادراک مشین کیا کسی دوسرے انسان کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ دراصل تخلیق کے عمل کے تجربے کو بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے مرنے کا تجربہ بیان کرے۔ 
  اگرچہ مصنوعی ذہانت بہت سے شعبوں میں کارآمد ثابت ہو رہی ہے، لیکن اسے ادب کے میدان میں کارآمد ہونے میں کافی وقت لگے گا اوراگر مستقبل میں یہ کارگر ہو بھی جاتا ہے، تب بھی اس کا انسان کے ذریعے خلق کردہ ادب کے معیار تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تمام تر کارکردگی مشین لرننگ الگورتھیم یعنی پہلے سے موجود ڈاٹا سے حاصل کی جاتی ہے۔ بھلے ہی الگور تھیم یعنی موجود ڈاٹا کے تجزیے سے مصنوعی ذہانت کسی حد تک شعور مند ہوجائےلیکن الگورتھم میں لاشعور جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت میں لسانی باریکیوں کا کوئی شعور یا تصور پیدا کرنا بھی ایک مشکل امر ہے۔ اسے مہیا کیے جانے والے تمام تر معطیات (ڈاٹا) کے باوجودمصنوعی ذہانت میں مزاح کا شعور اور استعارے کا ادراک پیدا کرنابھی تقریباً ناممکن ہے۔البتہ مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے کہ دو طرح کے ادب متوازی طور پر پروان چڑھیں … ایک انسانی ذہن کا تخلیق کردہ ادب اور ایک مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کردہ ادب۔ 
(مضمون نگار اردو کے ممتاز شاعر اور رسالہ ’اردو چینل‘ کے مدیر ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK