Inquilab Logo Happiest Places to Work

جس اَدب میں اپنے عہد کے فکری خدوخال اور کشمکش کے زاویے نہ ملیں وہ آفاقی نہیں

Updated: August 24, 2025, 11:28 AM IST | Dr. Abul Khair Kashfi | Mumbai

ادب کا شائق آج کا سوشل میڈیا کا صارف بھی ہے لیکن اُس کو ادب کا وہ فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے جو باقاعدہ مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ ادب سے دور ہونے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے حیات بخش اقدار سے منہ موڑ لیا ہے۔

Literature is a social process. Through literature, different societies and communities have expressed their overall way of thinking, different attitudes, their identity, and their consciousness. Photo: INN.
ادب ایک سماجی عمل ہے۔ ادب کے وسیلے سے مختلف سماجوں اور معاشروں نے اپنے مجموعی اندازِ فکر، مختلف رویوں ، اپنی شناخت اور اپنے شعور کا اظہار کیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

’’عالم میں خاک کی طرح تحمل پیدا ہوجاتا ہے۔ تکبر کا نشان بھی نہیں رہتا۔ علم جیسے جیسے زیادہ ہوتا ہے اللہ کا خوف، تواضع اور انکسار زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ ‘‘
ادب کے نظریہ سازوں کو اس بات پر اعتراض رہا ہے کہ ’’ادبی تنقید کے نام پر ایسے مطالعے زیادہ پیش کئے گئے ہیں جن میں خارجی اور بیرونی معیاروں سے ادب کو پرکھا گیا ہے اور یہ مطالعے تاریخ تہذیب کے مطالعے ہیں۔ ادب کو اس طرح تہذیب کی تاریخ سے ہم رشتہ کرنا، ادب کے مخصوص میدان اور ادبی مطالعے کے مخصوص طریقوں سے انکار کرنے جیسا ہے۔ ‘‘ (بحوالہ: تھیوری آف لٹریچر)  لیکن اس نظری اعتراض کے باوجو د یہی نظریہ ساز ادب کے وظائف کا مطالعہ کرتے ہوئے تاریخی عوامل، مختلف قوموں کے مزاج اور قومی شعور اور مختلف ادوار کے ذکر پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 
ادب ایک سماجی عمل ہے۔ ادب کے وسیلے سے مختلف سماجوں اور معاشروں نے اپنے مجموعی اندازِ فکر، مختلف رویوں ، اپنی شناخت اور اپنے شعور کا اظہار کیا ہے۔ ادب کو ہر مہذب معاشرہ نے صرف گہری توجہ کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ ادب کے آئینے میں اپنے بطون کو تلاش کیا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر اعلیٰ ادب آفاقی ہوتے ہوئے بھی قومی ہوتا ہے۔ وہ کسی قوم کی اقدار کا تخلیقی اظہار ہوتا ہے اور کسی خاص دور کے اندازِ فکر کی نہایت معتبر شہادت ہوتا ہے۔ ایسی شہادت کہ دوسری تاریخی دستاویزیں اس کی جگہ نہیں لے سکتیں، کیونکہ ان دستاویزوں میں انسانی شعور اور لاشعور کی آویزش، فرد اور معاشرہ کی ایسی کشمکش اور عمل اور ردعمل کا ایسا سلسلہ نہیں ملتا جس سے ادب عبارت ہے۔ 
میں تو یہاں تک عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ جس ادب میں اپنے عہد کے فکری اور جذباتی خدوخال نظر نہ آئیں، جس ادب میں اپنے دور کی کشمکش کے مختلف دائرے اور زاویے نہ ملیں وہ آفاقی نہیں۔ شیکسپئر کے ڈرامے جن میں اقبال کے خیال کے مطابق فطرت نے اپنا نظارہ آپ کیا ہے، اپنے عہد کے انگلستان کے رجحانات کے مرقع بھی ہیں۔ ان ڈراموں میں اس عہد کے توہمات اور تعصبات انسانی زندگی کے رنگوں کا روپ دھار کر سامنے آتے ہیں۔ فردوسی کے شاہنامہ میں وطنیت اور انسان دوستی کی کشمکش، آمیزش اور آویزش دیدنی ہے۔ دانتے کی آفاقیت کے جلو میں ہمیں عیسائیت کی اعلیٰ اقدار ہی نہیں بلکہ قرونِ وسطیٰ کی عیسائیت کا جہل بھی نظر آتا ہے۔ میرتقی میر آج بھی ہمارے جذبوں کی زبان ہیں مگر وہ برصغیر کی اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کے آغام کے مختلف عصری دھاروں کے شارح بھی ہیں۔ میں نے سمجھ بوجھ کر مختلف زبانوں اور مختلف ممالک کی یہ مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ ان مثالوں سے میرا مقصد محض یہ نکتہ پیش کرنا ہے کہ آفاقی ادب میں ایک طرف انسانیت کی اعلیٰ اقدار ملتی ہیں اور دوسری طرف فنکار کی ذات کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن یہ فنکار فرد ہونے کے ساتھ ساتھ کسی قوم کا رکن اور حصہ ہوتا ہے اور اس حد تک کہ اپنے ادراک اور احساس کی بناء پر اس قوم کے اجتماعی شعور اور رجحانات کی زبان بن جاتا ہے۔ یہ ادب کی تین سمتیں اور جہتیں ہیں۔ ادیب کے لئے زبان کا لفظ میں نے استعارہ کے طور پر استعمال کیا، اور اسی کے ساتھ یہ نکتہ میرے ذہن میں ابھرا کہ زبان ادیب کا وسیلہ ہے اور زبان عہد بہ عہد ان مسلسل تبدیلیوں، ان فکری دھارو ں اور ان تاریخی اثرات کو ناپنے کا پیمانہ ہے جن سے کوئی قوم دوچار ہوتی ہے۔ ’’زبان میں تاریخی حادثے، یادیں اور روابط ہوتے ہیں۔ ادبی زبان تعبیری اور متضمن (Connotative) ہوتی ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ادبی زبان صرف حوالہ جاتی نہیں ہوتی، اظہار اس کا اہم پہلو ہے۔ یہ اظہار صرف فنکار کی ذات تک محدود نہیں بلکہ قومی مزاج اور تاریخی عوامل سے ہر زبان کے اپنے اسالیب ِ اظہار وضع ہوتے ہیں جو لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی قو م کے لہجوں اور رویوں کا احاطہ کرتے ہیں اور قاری کے رویے کو متاثر کرتے ہیں۔ یوں بات کسی قوم کی اقدار اور نظریات تک پہنچ جاتی ہے۔ قومی شعور، انہیں اقدار کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ اقدار، قومی شعور کی رہنمائی کرتی ہیں، قومی شعور ان اقدار کو مستحکم کرتا ہے۔ ادب ان اقدار اور شعور کا اظہار کرتا ہے اور انہیں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے اور یوں قومی تاریخ کو ایک تسلسل عطا کرتا ہے۔ مختلف قومی ادبوں کے تسلسل سے انسانی تاریخ اور تہذیب کے تسلسل تک ہماری رسائی ہوتی ہے۔ 
قومی شعور کے سلسلہ میں، میں نے افراد کا ذکر کیا ہے۔ یونان کی شہری ریاستوں میں بھی ہمیں مختلف طبقے نظر آتے ہیں۔ بعد میں قوموں اور ریاستوں کے دائرے وسیع تر ہوتے گئے۔ ایک ہی قوم میں مختلف خطوں میں تہذیبی اور ثقافتی فرق نظر آنے لگے، اس کے باوجود قومی شعور اور قومی ثقافت کی وحدت کبھی مشکوک نہیں رہی۔ مختلف علاقائی دھارے ایک بڑے دھارے میں گم ہوجاتے ہیں جسے ہم قومی شعور قرار دیتے ہیں۔ اس بات میں اس وقت تک خلل پیدا نہیں ہوتا جب تک وفاداریوں کا صحیح تناسب اور ترتیب برقرار رہے۔ چین، امریکہ اور روس جیسے بڑے ملکوں میں مختلف علاقائی تہذیبیں موجود ہیں مگر یہ سب رنگ مل کر اس قوس و قزح کو جنم دیتی ہیں جسے ہم چینی یا امریکی یا روسی ادب، ثقافت اور شعور کہتے ہیں۔ امریکہ تو مختلف ثقافتوں کا سنگم رہا ہے اور آج بھی امریکی اپنی جڑوں کی تلاش میں آئرلینڈ، جرمنی، انگلستان اور ایسے ہی دوسرے ملکوں کا رخ کررہے ہیں، مگر اپنی امریکیت کی نفی کے بغیر۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں قومی تشخص، قومی شعور، قومی کلچر اور قومی ادب کے مسئلہ کو یا تو سیاستدانوں نے اپنے اغراض کے تابع بنا لیا، یا ایسے دانشوروں نے اپنی تاویلوں سے اسے الجھا دیا جن کی بصیرت، اندازِ نظر اور علم مانگے کا اجالا ہے۔ 
اردو ادب میں قومی شعور کا اظہار یک طرفہ نہیں ہے۔ اردو کے ادیب اور شاعر نے واقعات کی تہوں کو کھرچ کر حقیقت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ سرسید تحریک اور اس کے ادب کا مطالعہ اکبرالہ آبادی کے مطالعہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔  ’’کسی ادب پارے کے معیار اور شدت کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ مصنف اپنے ذاتی سچ کو کس طرح دریافت کرسکتا ہے اور کس طرح اسے اپنے عہد کے اجتماعی سچ سے ہم آہنگ کرکے اسے اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا سکتا ہے۔ ‘‘ (کیلن مارکس)
اکبرالہ آبادی نے سرسید تحریک کے ادیبوں کی طرح یہ فریضہ انجام دیا۔ انہوں نے سچ کا وہ گوشہ دیکھا جو سرسید کے رفقا کی نظروں سے اپنے تحریکی مفاد کی وجہ سے پوشیدہ رہا تھا اور یوں ہم کو سچائی کے ہیرے کے آٹھویں پہلو کی چمک نصیب ہوئی۔ 
بیسویں صدی کی پہلی چار دہائیوں میں اردو ادب میں قومی شعور کا نہایت گہرا اظہار ہوا ہے۔ یہ اظہار اتنا ہمہ گیر اور شدید ہے کہ اس نے صحافت کو ادب کا معیار عطا کردیا۔ الہلال اور البلاغ میں مولانا ابوالکلام آزاد اور علامہ سید سلیمان ندوی کی تحریریں اس کی ایک مثال ہیں۔ 
اقبال اردو زبان کی حد تک ادب میں قومی شعور کے اظہار اور نمود کی سب سے مکمل مثال ہیں۔ قرآن حکیم اور احادیث نبویؐ کے حقائق کو انہوں نے زندگی کی گہرائی بنا کر پیش کیا اور گہرائی بھی ایسی جو محسوس کی جانے والی ایک شے بن گئی ہے۔ رشید صاحب نے اس حقیقت کو بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہیں لکھا ہے کہ منبر و محراب سے علماء کی زبان سے قال اللہ اور قال الرسول سننے والے اور اس سے اثر نہ لیتے ہوئے جب وہی باتیں اقبال کی زبانی سنتے ہیں تو ان کے وجود کی گہرائیوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ اقبال لمحہ ٔ موجود میں ماضی کا سفر کرتے ہوئے مستقبل کا خواب دیکھنے کی سکت رکھتے تھے۔ 
میں نے اردو ادب کے سہارے قومی شعور اور ادب کے رشتے کی چند مثالیں پیش کی ہیں۔ قومی تاریخ، روایات اور نظام اقدار، قومی شعور کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ قومی شعور ادب کے پیکر میں ڈھل کر ذہنوں کو روشنی اور دلوں کو گرمی عطا کرتا ہے۔ دلِ زندہ کی تخلیق ادب کا کرشمہ ہے، اور قرآن حکیم کے نزدیک تو فکر کا تعلق بھی دل سے ہے۔ غالباً اس طرح کتاب ِ عظیم نے فکر کے جذباتی پہلو کی اہمیت کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے۔ زندہ اور تخلیقی فکر جو کائنات کو بدل سکے، ہمیشہ جذباتی رنگ و آہنگ رکھتی ہے۔ 
’’ آج کے ادیب کا مسئلہ یہ ہے کہ آج کی زندگی اس کے لئے بنیادی طور پر بے مقصد ہے اور آج کا انسان شک، ذہنی انتشار اور نفسیاتی خوف میں مبتلا ہے۔ ‘‘ (تھیوری آف لٹریچر)
اس بے مقصدیت اور خوف نے ابلاغ کے راستے میں کتنی ہی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ آج کا ادیب اپنے ذاتی استعارے استعمال کرتا ہے لیکن اس کی معنویت کو اپنی تحریر کے سیاق و سباق میں ابھارنے میں ناکام رہتا ہے۔ پھر معاملہ محض زبان کا نہیں ہے۔ آج لکھنے والے اور قاری کے درمیان اقدار کا پل ٹوٹ گیا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ میں روایتی اخلاق اور ان اقدار کا ذکر نہیں کررہا ہوں جو زندہ حال کا زندہ حصہ بننے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے زندگی بخش اقدار سے منہ موڑ لیا ہے۔ اقدار سے محبت، ہم میں کسی مقصد اور نظریہ سے والہانہ اور جذباتی و فکری وابستگی (Commitment) پیدا کرتی ہے۔ یہ وابستگی قلب و نظر کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے اور فنکار پوری سچائی کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ 
بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
( ’’ادب اور قومی شعور‘‘ سے چند اقتباسات)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK